شعرو شاعری

469

علامہ اقبال
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

اکبر الہ آبادی
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اصغر گونڈوی
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
کچھ شورشوں کی نذر ہوا خون عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا
کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی
جب خاک کر دیا اسے عرفاں بنا دیا
کیا کیا قیود دہر میں ہیں اہل ہوش کے
ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا
اک برق تھی ضمیر میں فطرت کے موجزن
آج اس کو حسن و عشق کا ساماں بنا دیا
مجبورئ حیات میں راز حیات ہے
زنداں کو میں نے روزن زنداں بنا دیا
وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا
ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا
بلبل بہ آہ و نالہ و گل مست رنگ و بو
مجھ کو شہید رسم گلستاں بنا دیا
کہتے ہیں اک فریب مسلسل ہے زندگی
اس کو بھی وقف حسرت و حرماں بنا دیا
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
اس حسن کاروبار کو مستوں سے پوچھئے
جس کو فریب ہوش نے عصیاں بنا دیا

احمد ندیم قاسمی
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

اعتبار ساجد
تمہیں جب کبھی ملیں ،فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتاردو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال وخد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو، مرے سارے زنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو، میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا، مری دھڑکنوں کو قرار دو
تمہیں صبح کیسی لگی کہو، مری خواہشوں کے دیار کی
جو بھلی لگی تو یہیں رہو، اسے چاہتوں سے نکھار دو
وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ ہو فکر دیر سویر کی
بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گزار دو
کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اوٹ میں
مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو

افتخار عارف
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے
ستارۂ سحری ڈوبنے کو آیا ہے
ذرا کوئی مرے سورج کو با خبر کر دے
قبیلہ وار کمانیں کڑکنے والی ہیں
مرے لہو کی گواہی مجھے نڈر کر دے
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے

اقبال ساجد
دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا
اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا
غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی
کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا
چپ چاپ گھر کے صحن میں فاقے بچھا دئیے
روزی رساں سے ہم نے گلہ کچھ نہیں کیا
پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں
اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
بستی میں خاک اڑائی نہ صحرا میں ہم گئے
کچھ دن سے ہم نے خلق خدا کچھ نہیں کیا
مانگی نہیں کسی سے بھی ہمدردیوں کی بھیک
ساجدؔ کبھی خلاف انا کچھ نہیں کیا

قابل اجمیری کے اہم اشعار
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
…٭…

مشیرکاظمی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
……
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
……
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
……
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارہ نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
……
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
……
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارہ نہیں
……
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو
نقشہ ایشیاءمیں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارہ نہیں
……
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
…٭…

افتخار عارف کے پسندیدہ اشعار
مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
…٭…
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
…٭…

حصہ