موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھیں

891

اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس نے ہمیں زندگی کی نعمت دی ہے، یہ وہ نعمت ہے کہ جب پاس ہو تب ہی انسان بقیہ نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس نعمت کو روک لینا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں۔ لیکن اس نعمت سے فائدہ اٹھانا اور اپنا مقصدِ حیات جان کر زندگی کو خیر کے کاموں میں لگانا ہی کامیابی کی نشانی ہے۔
آج ہرشخص پریشان ہے۔ آپ کسی سے بھی پوچھیں، وہ آپ کو اپنے دکھوں کی ایک لمبی داستان سنا دے گا۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ آج ہم نے اپنا مقصدِ حیات بھلا دیا ہے۔ ہمارا مقصدِ حیات اللہ کی یاد اور اللہ کی بندگی تھا، رب کو راضی کرنا تھا۔ ہم نے آج رب کو چھوڑ کر انسانوں کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے اس لیے ہم پریشان ہیں۔ ہم نے دنیاوی خواہشات کے پورا ہونے کو زندگی کا حاصل سمجھ لیا ہے، اسی لیے مسائل کا شکار ہیں۔
آج ہم میں سے کسی کے اوپر ذرا سے سخت حالات آتے ہیں تو وہ موت کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ آپ کا کوئی پیارا دنیا سے رخصت ہوگیا ہے، آپ کی منگنی ٹوٹ گئی ہے، آپ کی شادی نہیں ہورہی، کسی نے آپ کوچھوڑ دیا ہے، کسی نے آپ کو دھوکا دیا ہے، آپ کی اولاد نہیں ہے، روزگار نہیں ہے، آپ کو جان لیوا بیماری کا سامنا ہے… تو کیا یہ سب حالات صرف آپ کے ساتھ ہی پیش آتے ہیں؟ آپ کیا اب رک جائیں گے؟ اور بس موت کا انتظار کرتے رہیں گے، کہ موت آئے اور ہمارے دکھوں کا خاتمہ ہوجائے؟
جان لیجیے کہ موت کا تو ایک وقت مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر ہی آئے گی۔ نہ اس سے پہلے، نہ اس کے بعد۔ رسول پاکؐ نے ارشاد فرمایا ’’اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔‘‘ موت آگئی، اب انسان کچھ نہیں کرسکتا، نیکی کا کام کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا۔ اُس وقت انسان پچھتائے گا، حسرت کرے گا کہ اللہ اسے تھوڑی اور مہلت دے دے تو وہ اسے اچھے کاموں میں گزارے۔
دنیا کی نعمتیں فانی ہیں، آج ہیں کل نہیں، لیکن آخرت کی نعمت باقی ہے، اس کو زوال نہیں۔ دنیا کی مشکلات کا موت خاتمہ کردے گی، لیکن آخرت کی مشکلات کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ وہاں تو موت بھی نہیں ہوگی۔ انسانی خواہشات کی کوئی حد نہیں۔ ایک پوری ہوجائے گی دوسری سر اٹھانا شروع کردے گی۔ فرمانِ نبویؐ کے مطابق انسان کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی سے ہی بھرے گا۔
تاریخ کے اوراق دیکھیے، اللہ نے اپنے پیارے بندوں سے کیسے کیسے امتحان لیے ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی دیکھ لیجیے۔ حسن وجمال، مال اور اولاد کی کثرت تھی۔ لیکن جب آزمائش میں مبتلا کیے گئے تو آپؑ کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا۔ آپؑ برسوں تکلیف اور مشقت جھیلتے رہے اور برابر صابر و شاکر رہے۔ جب آپؑ آزمائش پر پورے اترے تو اللہ رب العزت نے اپنی نوازشوں اور عنایتوں سے سرفراز بھی فرمایا اور قرآن مجید میں ’’اوّاب‘‘ کہہ کر مدح سرائی بھی کی۔
حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم پر انہیں اور شیر خوار بچے کو لق و دق صحرا میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو کیا انہوں نے سعی نہیں کی؟ کیا انہوں نے موت کی تمنا اور واویلا کرنا شروع کردیا؟ ان کی سعی کے نتیجے میں اللہ نے کیسے زم زم جاری فرما دیا، اور یہ سعی اتنی پسند آئی کہ اس کو حج کا رکن بھی بنادیا۔ سخت اور مشکل ترین حالات میں اللہ پر توکل کا کیسا پیارا سبق حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے ہمیں دیا جو تا قیامت مثال بن گیا۔ عورت گھر کی بنیاد رکھتی ہے، اور ہاجرہ علیہ السلام کے توکل نے تو ایک پورے مکہ شہر کی بنیاد رکھ دی۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک بہترین فقیہ اور عالمہ تھیں۔ بڑے سے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مشکل مسائل میں آپؓ کی طرف رجوع کرتے اور مسائل کا تسلی بخش جواب پاتے۔ بے شک اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو جو مقام و مرتبہ علم کی وجہ سے حاصل ہوا وہ کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے۔ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی۔ کیا انہوں نے اولاد کے نہ ہونے کو اپنی زندگی کا روگ بنایا؟ کیا ام المومنین کی زندگی ہم سب کے لیے مشعلِ راہ نہیں ہے؟
یاد رکھیے کسی کو بھی اللہ نے عبث اور بیکار پیدا نہیں کیا۔ ہر کسی کی زندگی کا مقصد ہے۔ بس ہمیں اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی فانی زندگی آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں بہت اہم ہے، کیوں کہ یہاں کی زندگی سے وہاں کی زندگی بن رہی ہے۔ وہاں کی زندگی کا دار و مدار یہاں کیے گئے اعمال پر ہے۔ آج دنیا میں جو بوئیں گے وہ کل آخرت میں کاٹیں گے۔
وقت وہ نعمت ہے جو چلا گیا تو دوبارہ نہیں آئے گا۔ اس لیے اس وقت کو ماضی کے پچھتاووں یا مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا ہوکر ضائع ہونے سے بچائیں۔ اپنے صحیح مقصد کے حصول کے لیے وقت لگائیں۔ خیر کے کاموں میں وقت خرچ کریں۔ لوگوں کی مدد میں لگائیں۔ اللہ کی عبادت میں وقت لگائیں۔ اُن دینی و دنیوی علوم و فنون کو سیکھنے اور سکھانے میں وقت لگائیں جن کے ذریعے اپنی زندگی کو دنیا اور آخرت میں نفع بخش بنا سکیں، جس کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی جا سکے، جو آپ کے لیے صدقۂ جاریہ بن سکے۔
بے شک موت مومن کے لیے تحفہ ہے، جنت کا دروازہ اور اللہ سے ملنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں زندگی مومن بن کر گزارنی ہوگی تاکہ جب موت آئے تو ہمیں کوئی حسرت اور پشیمانی نہ ہو۔ اللہ ہمیں نیک اعمال کے بیج بونے اور مقصدِ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ