احساس کے رشتے

308

’’امی! میں نورین بھابھی کے کام کرنے کے انداز سے تنگ آگئی ہوں، میں نے صبح ہی اتنی اچھی طرح باورچی خانے کی صفائی کی تھی، اور اب بھابھی کھانا بناکر باہر نکلیں تو وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔‘‘ فرح نے بہت پریشان اور عاجز ہوکر اپنی ماں سے بڑی بھابھی کی شکایت کی۔
نشاط بیگم بہت نرم دل اور متحمل مزاج خاتون تھیں، اپنے سسرال میں وہ آٹھ دیورانیوں، جیٹھانیوں اور چار نندوں کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام میں بہت خوش اسلوبی سے وقت گزار چکی تھیں، اور اب اپنی تینوں بہوؤں کے ساتھ بھی ان کے رہن سہن کا وہی طریقہ رہا، نہ انہیں بہوؤں سے کوئی شکوہ تھا اور نہ ہی بہوؤں کو اُن سے کوئی گلہ۔
ان کی دو بیٹیوں کی عادات اور مزاج اپنی ماں جیسے ہی تھے، وہ بھی اپنی ماں کی طرح بھری پُری سسرالوں میں بخیر و عافیت زندگی بسر کررہی تھیں، مگر ان کی چھوٹی بیٹی کا غصہ اکثر و بیشتر ساتویں آسمان پر رہتا تھا۔
’’بیٹا! ہر شخص کے کام کرنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے، چھوٹے بچوں کے ساتھ اکثر ایسا ہو ہی جاتا ہے، تم درگزر کردیا کرو۔‘‘
’’امی! آپ تو ہمیشہ مجھے ہی سمجھا بجھا کر چپ کرا دیتی ہیں، کبھی بھابھیوں کو بھی تو ڈانٹا کریں۔ وہ لوگ جو چاہتی ہیں، کرتی ہیں، انہیں کوئی روک ٹوک کرنے والا ہی نہیں، ساسیں تو بہوؤں کو اپنے حساب سے چلاتی ہیں اور ایک آپ ہیں، وہ سیاہ کریں یا سفید، آپ کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔‘‘ فرح آج کچھ زیادہ ہی زِچ ہوگئی تھی۔
نشاط بیگم نے بہت پیار اور تحمل سے اپنی بیٹی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی: ’’فرح! یہ جو اِس گھر میں سکون اور باہمی محبت ہے نا، اسی لیے ہے کہ میں اُن کی چھوٹی بڑی غلطیوں سے صرفِ نظر کر جاتی ہوں، اور وہ سب مجھے اور میری بیٹیوں کو بہت پیار سے برداشت کررہی ہیں، کچھ خامیاں ہم میں بھی تو ضرور ہوں گی، مگر انھوں نے کبھی ناگواری ظاہر نہیں کی۔ گھروں میں جب تک ہم اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے، تب تک ماحول خوش گوار نہیں ہوسکتا۔ ہماری مرضی کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں دوسرے کی شروع ہوتی ہے۔ خود اگر خوش رہنا چاہتی ہو تو دوسروں کو بھی خوش رہنے کا موقع دینا ہو گا۔‘‘
’’امی! آپ کی تمام باتیں بجا، مگر آپ کو تینوں بھابھیوں کو اُن کی کوتاہیوں پر تنبیہ ضرور کرنا چاہیے، بڑی بھابھی کو صفائی کی بالکل عادت نہیں، منجھلی بھابھی کھانا بنانے میں دل چسپی نہیں لیتیں، اور چھوٹی بھابھی کا کمرہ تو ہر وقت بکھرا پڑا رہتا ہے۔‘‘
فرح کی طرف سے لگائی ہوئی فردِ جرم سن کر نشاط بیگم بے ساختہ ہنس دیں اور گویا ہوئیں: ’’بیٹا! آپ نے تو سب کو ہی نشانہ بنا ڈالا، مجھے تو لگتا ہے کہ میری تینوں بہوئیں باصلاحیت، باادب، مخلص، حساس دل اور پیار محبت والی ہیں۔ بڑی نورین کے ہاتھ میں کتنا ذائقہ ہے، بڑی سے بڑی دعوتیں کتنی خوش اسلوبی سے نمٹا دیتی ہے۔ منجھلی اسما کو صفائی اور گھر کی سجاوٹ کا شوق ہونے کی وجہ سے سارا گھر لشکارے مارتا ہے، ڈرائنگ روم کی سجاوٹ کی ہر آنے جانے والا تعریف کیے بغیر رہ نہیں پاتا، اور چھوٹی تو انتہائی ملنسار اور رکھ رکھاؤ والی ہے۔ ہر سسرالی رشتے دار کے گھر آنے جانے اور گھر کے باقی افراد کی نمائندگی کا حق وہ کماحقہٗ نبھاتی ہے۔
اور فرح! سب سے بڑھ کر یہ سب اپنے بچوں کی بہترین تربیت کررہی ہیں، میری نسل کو درست سمت میں لے کر جا رہی ہیں۔ بیٹا! کوئی بھی شخص مکمل طور پر برا یا کم حیثیت نہیں ہوتا، کسی میں اگر کوئی کمی یا کمزوری ہوتی ہے تو کچھ اچھائیاں بھی ضرور ہوتی ہیں، اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھو گی تو ہر شخص میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آئیں گی۔ آیا کچھ کھوپڑی شریف میں۔‘‘
نشاط بیگم نے بیٹی کو شرمندگی کے سمندر میں غوطے لگاتے دیکھا تو بات کو ہلکے پھلکے انداز میں اختتامی موڑ دیا۔

حصہ