بھٹیارن

194

آج آفس میں دن ہی کچھ عجیب تھا، سب کام میری توقعات کے خلاف ہوئے تھے، میرا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا، میری زبان کی دھار سے سب آفس اسسٹنٹ گھبرائے پھر رہے تھے، سب سے آخر میں میرا نزلہ عابدی صاحب پر گرا جو گزشتہ بیس سال سے ہماری فرم میں ملازم تھے، انھوں نے بیٹی کی شادی کے لیے آفس میں قرضے کی درخواست دی تھی، جو آج میں نے اُن کی نظروں کے سامنے پرزہ پرزہ کرکے ڈسٹ بن میں ڈال دی۔ اُن کی آنکھوں کے آنسوؤں نے مجھے پل بھر متزلزل کیا، پھر میں نے کندھے اچکا کر خود کو تسلی دی کہ میں بزنس کرتی ہوں، کوئی خیراتی ادارہ نہیں کھول کر بیٹھی۔ میں آفس سے بھوکی نکلی، کیوں کہ مجھے مصروفیت اور چیخنے چلّانے کے دوران لنچ کا ٹائم نہیں ملا تھا۔ جب میں گاڑی میں بیٹھی تو سوچا کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں رک کر لنچ کرلوں گی، مگر شومیِ قسمت گاڑی آدھے راستے میں خراب ہوگئی۔ میں بکتی جھکتی گاڑی سے اتری اور ڈرائیور کو کہا ’’فوراً پیدل جاؤ اور کسی مکینک سے گاڑی ٹھیک کروا کر پہنچو، میں دیکھتی ہوں کہ کیسے گھر جانا ہے۔‘‘
بھوک کے مارے برا حال تھا، میں نے جھنجھلا کر سوچا کہ گاڑی کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا۔ میرے سر پر جون کا تپتا سورج اپنا غیظ و غضب برسا رہا تھا، بھوک اور پیاس نے میری حالت بری کردی تھی۔ میں نے غیر ارادی طور پر اردگرد کا جائزہ لیا کہ شاید کوئی ٹیکسی یا رکشا نظر آجائے، مگر ایسا لگا جیسے لاہور کی اس طویل سڑک پر موجود میں واحد ذی روح تھی جو کسی اور نگری میں آگئی تھی۔ میرے پاؤں ہیل والے جوتوں کے باعث دُکھ رہے تھے۔ میں دل ہی دل میں خود کو کوس رہی تھی کہ آج میں نے کیوں اتنی اونچی ہیل والے جوتے پہن لیے تھے۔ میں نے اردگرد دیکھا اور حیرت سے سوچا ’’یہ داتا کی نگری آج خالی کیسے ہوگئی!‘‘
اردگرد کے درختوں پر ایک بھی پرندہ نظر نہیں آرہا تھا۔ مجھے شدت سے تنہائی کا احساس ہوا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میں دنیا بھر میں اکیلی ہوں میرا دل تنہائی کے اس احساس سے بوجھل ہوگیا۔
مجھے انسانوں کی یاد ستانے لگی، ابھی کچھ دیر پہلے میں انہی انسانوں سے نالاں اور بے زار تھی۔ میں تھکے تھکے قدموں سے چل رہی تھی۔ لُو کے تھپیڑے میری سانسوں کو دہکا رہے تھے۔ اچانک مجھے دور درختوں کے سائے میں بیٹھی ایک بھٹیارن اور ملنگ نظر آئے۔ مجھے زندگی میں پہلی بار اس کہاوت پر یقین آیا کہ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ مجھے اپنے علاوہ ان ذی روحوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، میں ان کے قریب پہنچی تو دیکھا بھٹیارن اپنی بڑی سی کڑاہی کے نیچے کوئلہ اور لکڑی جلائے ہوئے تھی جس کا دھواں اُس کی آنکھوں میں مرچوں کی طرح چبھ رہا تھا، اُس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا مگر وہ اپنی دُھن میں مگن چنے اور گندم بھونے جارہی تھی۔ اس کے پاس پانی کے دو مٹکے رکھے تھے، ایک خالی تھا جب کہ دوسرے پر مٹی کا پیالہ تھا۔ اس کے پاس ہی ملنگ بیٹھا چنے کھا رہا تھا، اس کی جٹاؤں میں ریت چمک رہی تھی، اس کے چوغے پر رنگ برنگے کپڑوں کے پیوند لگے ہوئے تھے، جب کہ گردن میں رنگ برنگی مالائیں تھیں اور وہ دنیا سے بے خبر نظر آرہا تھا۔ اس آتشیں دوپہر کا کوئی اثر اس کے چہرے پر نظر نہیں آرہا تھا۔ میرے دل میں ناگواری کی لہر دوڑ گئی، میں نے سوچا ’’یہ ضرور کوئی چرسی یا بھنگی ہے۔‘‘
میری خود پسندی مور کی طرح پَر پھیلائے میرے من کے آنگن میں ناچنے لگی، میں نے دل میں سوچا ’’کیا ان گندے، چھوٹے لوگوں کے پاس رکنا مناسب ہے؟‘‘ مگر میری ہمت جواب دے چکی تھی، میں نے فوراً پاؤں جوتوں سے آزاد کیے اور بھٹیارن کے پاس پہنچ کر اپنے برانڈڈ مہنگے کپڑوں کی پروا کیے بغیر زمین پر بیٹھ گئی۔
بھٹیارن چنے بھوننے میں مصروف تھی۔ اُس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی ’’بڑی دیر کیتی مہربان آندے آندے۔‘‘
میں کنفیوژ سی ہوکر اُس کی طرف دیکھنے لگی۔ اُس نے نرمی سے پوچھا ’’پانی پیے گی بی بی؟‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اُس نے گھڑے سے مٹی کے پیالے میں پانی ڈال کر پیش کیا، پھر ایک دم بولی ’’بی بی! بھٹیارن دا جھوٹا برتن ہے، پھر بھی پیے گی؟‘‘
میرے ذہن میں ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض آگئے، مگر پیاس خوف کے آگے جیت گئی اور میں نے بسم اللہ پڑھ کر پانی پی لیا۔ وہ پیالہ شاید آبِ حیات کا تھا یا شاید زندگی میں پہلی دفعہ بسم اللہ پڑھ کر پانی پینے کا اثر، یا اس بھٹیارن کی جھوٹن درحقیقت آبِ حیات تھی، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری برسوں کی پیاس آج بجھی ہو۔
بھٹیارن نے میرے آگے بھنے ہوئے چنے اور گندم کے دانے رکھ دیے۔ مجھے پتا نہیں کتنے برسوں بعد آج ایسا ذائقہ میسر ہوا تھا۔ بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹلوں کے بوفے کو یہ چنے مات کررہے تھے۔ میں نے پوچھا ’’کتنے پیسے؟‘‘
بھٹیارن قہقہہ لگا کر ہنسی۔ میں نے آج تک کسی کو اتنے دل سے ہنستے نہیں دیکھا تھا، اُس کی ہنسی میں شفاف چشمے کی جھنکار تھی، وہ اتنا ہنسی کہ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اُس نے اپنی آنکھوں میں آئے پانی کو صاف کیا اور بولی ’’بی بی! تُو مجھے کیا دے سکتی ہے؟‘‘
وہ مسکرائی اور پھر بولی ’’سچے سائیاں نے کسی کارن سے تجھے آج مجھ نمانی بھٹیارن کا مہمان کیا ہے۔ ہم مہمان کو کچھ دے کر رخصت کرتے ہیں، اُس سے کچھ لیتے نہیں ہیں۔‘‘
میرے دل کا چور بولا ’’کہیں یہ کوئی اٹھائی گیر تو نہیں جو اس ویران دوپہر میں مجھے اپنی لچھے دار باتوں سے لوٹنا چاہتی ہے!‘‘
میں نے غیر محسوس انداز میں اپنے پرس پر گرفت مضبوط کی۔ اُسی وقت ملنگ پر حال طاری ہوگیا، وہ اٹھ کر ناچنے لگا… ناچتا جاتا اور گاتا جاتا۔
اس کے پیروں میں گھنگھرو بندھے ہوئے تھے، وہ اس زوروں کا ناچا کہ اس کے پاؤں لہولہان ہوگئے۔ پوری کائنات ملنگ کے ساتھ رقص میں تھی۔ مجھے مٹی پر اُس کے خون کے قطرے گرتے عجیب سے محسوس ہوئے۔ ملنگ کی دھمال اور کلام نے میرے من کی کھڑکیاں وا کردیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں غلافِ کعبہ پکڑ کر کھڑی ہوں۔ میں نے آنکھیں جھپکیں تو میں بھٹیارن کے پاس ہی بیٹھی تھی۔ بھٹیارن مجھ سے بے خبر اپنے کام میں مگن تھی۔ میں نے اسے رشک سے دیکھا اور سوچا ’’یہ بھٹیارن اتنی مطمئن کیسے ہے؟‘‘
ابھی میں اپنے سوال کے پیچ و خم میں ہی گم تھی کہ بھٹیارن نے اپنے آگے خالی مٹکا رکھا، ایک ہاتھ سے چمٹا پکڑ کر بجایا اور مٹکے پر تھاپ دے کر لے اٹھائی:
الف۔ اللہ چمبے دی بوٹی،میرے من وچ مرشد لائی ہُو۔
نفی اثبات دا پانی مِلیا، ہر رَگے ہر جائی ہُو۔
اندر بوٹی مُشک مچایا،جاں پُھلاّں تے آئی ہُو۔
جیوے مرشد کامل باہو، جیں ایہہ بوٹی لائی ہُو
میری آنکھیں تحیر سے پھیل گئیں، مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا، میرے دل کو القا ہوا ’’میں تو تمھاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔‘‘
بھٹیارن نے آنکھیں کھولیں اور ہنس کر بولی ’’بی بی! چمبے دی بوٹی کیوں نہیں لب دی تینوں؟‘‘
میرا رواں رواں کانپ اٹھا، میری آنکھوں میں سمندر کی طغیانی تھی۔ ایک بھٹیارن نے مجھے آئینہ دکھا دیا تھا، ایک بھٹیارن رب کے پیار کی بوٹی اپنے من میں لگانے میں کامیاب ہوگئی تھی، ایک ملنگ اللہ کی بارگاہ میں منظورِ نظر ہوگیا تھا، اور میں ایک پڑھی لکھی، دنیادار، کامیاب بزنس وومن آج تک خالی ہاتھ سراب کے پیچھے بھاگتی پھر رہی تھی۔ میں اپنے جوتے ہاتھ میں لے کر چل پڑی، میرے پیر گرم تارکول کی سڑک پر جھلس رہے تھے، مگر پیروں کی تکلیف سے زیادہ میری روح جان کنی کے عالم میں چیخ رہی تھی۔ میں نے اتنی عمر کس بے مصرف دوڑ میں بِتا دی تھی؟ میں سود و زیاں کے حساب میں مصروف تھی کہ ڈرائیور نے گاڑی کا ہارن دے کر مجھے متوجہ کیا۔ میں نے چونک کر اُسے دیکھا، پھر مڑ کر دیکھا، پوری سڑک خالی تھی، دور دور تک بھٹیارن یا ملنگ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں بجھے دل سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی میں اے سی چل رہا تھا، مگر میری روح جھلس رہی تھی۔ میری آنکھوں سے دو آنسو نکلے۔ میں آہستہ سے بڑبڑائی ’’ہائے بھٹیارن جیت گئی، کاش میں بھی بھٹیارن ہوتی۔‘‘

حصہ