مثبت رویے اور طریقے:عملی رشتوں میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں

297

مراد صاحب: (بڑے تکبر سے) ہم نے اپنی بچیوں کو بڑے لاڈ پیار سے پالا ہے… (ذرا رک کر) گھر کے کام کاج… میرا مطلب ہے کہ ساس اور نندوں کی وہ خدمت نہیں کرے گی۔ (بیوہ خاتون مراد صاحب کی بات سن کر چونکیں) اور ہاں (گھر کو چاروں طرف دیکھتے ہوئے) آپ کے بیٹے وحید کا کمرہ… اس میں ACوغیرہ لگا ہوا ہے؟ میری بیٹی گرمی برداشت نہیں کرسکتی۔
(وحید کی بیوہ ماں نے بڑی بے بسی سے اپنے بیٹے وحید کو دیکھا)
وحید کی ماں: (جو مراد کی بھابھی بھی تھیں) بھائی صاحب آپ کی بچی ہماری اپنی بچی ہے۔ہم سب مل جل کر رہیں گے۔ میری دو بہوئیں گھر میں اور بھی ہیں آپ کو تو معلوم ہے… میرے گھر کے ماحول کے بارے میں بھی جانتے ہیں آپ…
بے چاری وحید کی ماں اس ساری صورت حال میں بے بس اس لیے تھی کہ شادی سر پر تھی اور اس کے بیٹے وحید کی پسند پر ہی یہ رشتہ ہوا تھا۔
٭…٭
سعدیہ: اچھا خاصا رشتہ ہے، پھر تم نے منع کیوں کیا…؟ تمہاری عمر… نکلتی جا رہی ہے۔
نجمہ: (سعدیہ کی بات کاٹتے ہوئے) بھئی ایسا لڑکا تو ہو جو مجھے خوشیاں دے سکے اور میرے والدین کی مالی مدد بھی کرسکے…
سعدیہ کو نجمہ کی بات پر بڑی حیرانی ہوئی اور افسوس اس بات پر زیادہ ہوا کہ اس کے والدین بھی بیٹی کے ہم نوا تھے اور اس کا مکمل ساتھ دے رہے تھے، جبکہ نجمہ کی عمر نکلتی جا رہی تھی…
٭…٭
جب مذکورہ بالا واقعات کے بارے میں معلوم ہوا تو میں چند دہائیاں پیچھے چلی گئی جب ماں باپ بچیوں کو رخصت کرتے وقت نصیحتیں فرماتے تھے۔
٭…٭
خدیجہ: حاجی صاحب آپ صحیح کہہ رہے ہیں، لڑکے شریف ہیں، مناسب تنخواہ ہے، ہماری دونوں بچیاں اپنے اپنے سسرال میں خوش رہیں گی، ماشاء اللہ دونوں کے سسرال میں ساس سسر اور نندیں ہیں، مل جل کر رہیں گی، وقت پر یہی رشتے دار ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔
حاجی صاحب: ہاں بیگم تم صحیح کہہ رہی ہو، اور نصیب میں جو ہوگا وہ تو ہماری بچیوں کو ضرور ملے گا۔
خدیجہ: گھر گرہستی ملنا تو لڑکیوں کی خوش نصیبی ہے، اور ہماری آئمہ اور فائمہ دونوں سگھڑ ہیں… اپنے گھر والوں کے ساتھ خوش رہیں گی۔
٭…٭
رضیہ: بیٹا گھروں میں تو دس کام کرنے ہوتے ہیں… یہ تو بہو، بیٹیوں کی خوش نصیبی ہے کہ چولہا ہانڈی ان کی ذمہ داری ہو… اِن شاء اللہ تمہاری شادی ہوجائے گی تو یہ سارا تمہارے کام آئے گا…اور ہاں میری جان! بڑا کنبہ ہے، گھر میں سسر، جیٹھ، دیور سب ہیں۔ اپنے لباس اور اٹھنے بیٹھنے کا خیال رکھنا، اس میں ہماری بھی عزت ہے کہ بچی کی تربیت اچھی کی گئی ہے۔
٭…٭
آج بھی یقیناً ایسی مائیں ہیں جو بچیوں کو دوسرے گھر (سسرال) کے لیے صرف سنہرے سپنے نہیں دکھاتیں، بلکہ انہیں دوسرے گھر کو اپنا گھر بنانے کے گُر سکھاتی ہیں۔ لیکن افسوس ناک بات جو مجھے چاروں طرف نظر آرہی ہے اور یقیناً آپ میں سے بھی زیادہ لوگ میری بات کی تائید کریں گے کہ نہ صرف بچیوں نے خود، بلکہ گھر والوں نے بھی خودساختہ خواب بُنے ہوئے ہیں کہ شادی کے بعد ہماری بیٹی کو ہر قسم کا سُکھ و آرام میسر ہو، ساس نندوں وغیرہ کا جھنجھٹ نہ ہو.. اور اس بات کا اظہار بیٹیوں کے سامنے بھی کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بچیاں آنے والے وقت میں کسی کمی بیشی پر سمجھوتا کرنے سے قاصر رہتی ہیں، نئے گھر جاکر معمولی سی تکلیف و پریشانی پر بھی بوکھلا جاتی ہیں اور اپنی ماں اور بہنوں سے شیئر کرتی ہیں، جو اس صورتِ حال میں افہام و تفہیم کی نصیحت کرنے کے بجائے انہیں ’’نئے نئے گر‘‘ سکھاتی ہیں، لہٰذا پورا گھرانہ متاثر ہوجاتا ہے۔ اکثر ایسے حالات میں پورے گھر کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
میں جب اپنے چاروں طرف اس نوعیت کا کوئی واقعہ دیکھتی ہوں تو ضرور اپنے قارئین سے شیئر کرتی ہوں۔ ضروری نہیں کہ ایسے حالات کے نتائج ہمیشہ افسوس ناک قسم کے سامنے آئیں، لیکن اکثر و بیشتر ایسی صورت حال کا انجام افسوس ناک ہوتا ہے، جس سے دوسروں کو ضرور سبق حاصل کرنا چاہیے۔
زرینہ ایک خودسر و بے باک لڑکی تھی۔ دو بچوں کی پیدائش کے باوجود اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ گھر کے کام کاج سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ گھر میں بوڑھی ساس اور دو بچے نوکرانی کی ذمے داری تھے۔ شوہر سے نت نئی فرمائشیں روز کا معمول تھیں۔
ان حالات میں زرینہ کی والدہ مکمل طور پر بیٹی کی ہم نوا تھی۔
آخر اس صورتِ حال کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا، جس کا سب سے زیادہ اثر دونوں بچوں پر ہوا۔
٭…٭
سمجھ دار اور دور اندیش والدین بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم و تربیت ان خطوط پر کرتے ہیں کہ وہ حقوق و فرائض کی اہمیت سے نہ صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ ان کی انجام دہی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ خصوصاً مشترکہ خاندان کی افادیت سے نئی نسل کو آگاہ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ان رشتوں کے تقدس کو قائم کرنے کے لیے وہ اپنی ذمے داریاں بخوبی انجام دیں۔ خصوصاً آج کے دور میں میڈیا نے مشترکہ خاندانی نظام کو بڑا بھیانک بناکر پیش کیا ہے جس سے لڑکیاں خائف رہتی ہیں اور دور بھاگتی ہیں۔ مشترکہ خاندان میں سازشوں، الزام تراشی، دھوکے بازی کے وہ مناظر پیش کیے جاتے ہیں کہ جنہیں کچھ نہ بھی معلوم ہو، وہ بھی سیکھ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں چند شادیاں ہوئیں، سنا کہ لڑکے اور لڑکیوں نے خود ’’الگ گھر‘‘ بسانا پسند فرمایا، یعنی ماں باپ کے ساتھ رہنا پسند نہ کیا کہ کون ان جھنجھٹوں کا سامنا کرے گا! مجبوراً ماں باپ کو اولاد کی رائے کا احترام کرنا پڑا۔
اس نوعیت کے واقعات دیکھ کر اکثر لڑکوں کی مائیں پریشان رہتی ہیں کہ نہ جانے آنے والی ہمارے ساتھ کیا کرے!
ایک بچی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ ساس اس بات سے بڑی خوف زدہ تھی کہ لڑکی نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بلکہ اس کی والدہ بھی تعلیم یافتہ ہے، کہیں میرے بیٹے کو مجھ سے الگ نہ کردے۔ اس نے بڑی چھان بین کی، پتا چلا کہ لڑکی والے انتہائی مہذب و شریف فیملی ہے، لیکن وہ شادی کے بعد بھی مسلسل اسی اندیشے میں گرفتار رہی کہ یہ لڑکی میرے بیٹے کو مجھ سے جدا کرکے لے جائے گی، اسی لیے وہ اکثر لڑکی کو ڈانٹتی ڈپٹتی اور بے رخی کا اظہار بھی کرتی رہتی۔
لڑکی سمجھ دار ہے، اس نے اپنی والدہ سے اس بات کو شیئر کیا۔ والدہ نے اطمینان سے تمام بات سن کر بیٹی کو درگزر و افہام و تفہیم کی نصیحت کی، اور کہا کہ وہ تمہارے شوہر کی ماں ہے، اسے بیٹے سے پیار ہے، تم اسے احساس دلائو کہ تمہارا بیٹا تم سے دور نہیں جائے گا بلکہ میں اور میرے بچے بھی تمہارے ہیں۔ لہٰذا لڑکی کی اپنی اور اس کی ماں کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں خوش ہے۔
میں اکثر کہتی ہوں کہ شادی کے بعد لڑکی کو سسرال میں قدم جمانے میں وقت لگتا ہے۔ یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے۔ نہ صرف گھر میں قدم رکھنے والی بہو کو سمجھ داری و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ سسرال والوں کو بھی اسے وقت دینا چاہیے، اسے احساس دلانا چاہیے کہ اب ’’ہم ہی تمہارے ہیں‘‘۔ اس ایک احساس سے کہ ”ہم ہی تمہارے ہیں“ سمجھ دار بچیاں سمجھوتا کرلیتی ہیں۔ اس دوران ’’بیرونی مداخلت‘‘ اکثر و بیشتر گھروں میں دیواریں کھڑی کردیتی ہے، جس کا نہ صرف ساس نندوں کو خیال رکھنا چاہیے بلکہ گھر میں قدم رکھنے والی بہوئوں کو بھی.. کیونکہ اچھے خاصے گھرانے بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا (جو بہت تعلیم یافتہ و مہذب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی) کہ شادی کے بعد مجھے سسرال میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، سسرالی رشتوں، شوہر، اور معاشی و معاشرتی مسائل نے جیسے مجھے نڈھال کردیا، ایسے موقع پر میری والدہ اور بڑی بہن نے ہی مجھ میں سمجھوتا کرنے کی صلاحیت پیدا کی، ورنہ شاید ہوسکتا تھا کہ میں اس گھر میں نہ رہ پاتی۔
اگر خدانخواستہ شادی کے بعد بچیوں کو کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو ان کے والدین اور بڑی بہنوں وغیرہ کو انہیں افہام و تفہیم اور سمجھوتا کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔
اسی طرح ساس نندوں یا سسرالیوں کو آنے والی (بہو) سے کوئی شکایت ہو تو ان کے دوست احباب انہیں افہام و تفہیم کی راہ دکھائیں۔ میری ایک دوست نے جب بہو کی شکایت کی تو میں نے اس سے کہا کہ ہوسکتا ہے اُسے بھی آپ سے کوئی شکایت ہو، وہ بھی آپ کو خوش دلی سے برداشت کررہی ہے، آپ بھی صبر و تحمل اور سمجھ داری کا مظاہرہ کریں، اپنی بیٹیوں سے بھی شکایت ہوتی ہے، اُس وقت آپ جس قسم کا رویہ اپنی بیٹی کے ساتھ رکھتے ہیں اسی طرح بہو کے ساتھ بھی وہی پیار و محبت کا رویہ رکھیں اور طریقے سے اسے سمجھائیں، ہمارے مثبت رویّے سے یقیناً وہ متاثر ہوگی۔ میری والدہ ایسے موقعوں پر ایک جملہ کہتی تھیں کہ ’’کہو بیٹی کو، سمجھائو بہو کو‘‘… یعنی بہو کو غلطی پر براہِ راست نہ ٹوکیں یا برا بھلا نہ کہیں، بلکہ دوسرے موقع پر اس طرح کہیں کہ وہ بھی سیکھ جائے۔ اماں کو جب اپنی بہو کو کچھ سکھانا ہوتا تو ہم بہنوں (اپنی بیٹیوں) سے کہتیں: بیٹا سر پر بڑا دوپٹہ لیا کرو…یا گھر میں باپ بھائی موجود ہوں تو آہستہ بات کیا کرو، گھر کی بہو بیٹی کی آواز گھر سے باہر نہ نکلے وغیرہ وغیرہ… آج اماں کی بہوئیں بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ یہ بات یا چیز ہم نے اپنی ساس سے سیکھی۔
غرض یہ کہ ہمارا مثبت رویہ و طریقہ عمل ہمارے گھروندے کو استحکام بخشتا ہے اور رشتوں میں خوبصورت تعلقات استوار کرتا ہے۔

حصہ