ہم کیوں مسلمان ہوئے

495

فارض رحمت اللہ (وینزویلا)
فارض رحمت اللہ اسلام لانے سے پہلے فیادرایوان جفرنر کہلاتے تھے۔ ونزویلا (جنوبی امریکا) کے شہر کاراکاس میں پیدا ہوئے۔ عمر ستائیس‘ اٹھائیس سال کے لگ بھگ ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور فلمی صنعت کے ماہر۔ اپنی زندگی کے اوراق پلٹتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’میرا خاندان وینزویلا سے ترکِ وطن کرکے امریکا چلا گیا۔ جہاں میں نے اعلیٰ درس گاہوں میں تعلیم پائی۔ پھر میں نے اٹلی کی راہ لی جہاں روما یونیورسٹی کے شعبہ فنون لطیفہ میں داخلہ لے لیا۔ کچھ مدت بعد امریکا میں واپس آگیا اور کولمبیا یونیورسٹی میں فلمی صنعت کے شعبے میں داخل ہو گیا۔
اب میرا شعور خاصا پختہ ہوچکا تھا۔ مجھے امریکی معاشرے اور طلبہ کی زندگی میں شدید تناقض محسوس ہوا۔ اس تناقض پر جس قدر غور کرتا میرا احساس اسی قدر شدید ہو جاتا۔
یونیورسٹی سے نکل کر عملی زندگی میں آیا۔ نیویارک‘ ہالی ووڈ‘ کیلی فورنیا اور شکاگو میں کام کیا۔ جہاں بھی گیا‘ وہاں کے شب و روز میں غرق ہو گیا۔ یہ زندگی مکمل عیش و عشرت کی زندگی تھی۔ کوئی مادّی آسائش ایسی نہ تھی جو میسر نہ ہو۔ یہاں ایک اور بات کا تجربہ ہوا۔ امریکی فلمیں دنیا بھر میںمشہورہیں۔ لوگ جب انہیں دیکھتے ہیںتو ان کے دل میں یہ آرزو مچلنے لگتی ہے کہ امریکیوں کی سی شاندار زندگی بسر کریں اوراب بھی جب لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ میں امریکا سے آیا ہوں تو ان کے پردۂ ذہن پر فلموں میں دیکھی ہوئی امریکی زندگی کے مناظر ابھرتے ہیں۔
مگر مجھے یہ زندگی یوں لگی جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ ایسا خواب جو اپنے پیچھے ہولناک تعبیر چھوڑ جاتا ہے۔ مجھے دنیا کی ہرمتاع حاصل تھی اس کے باوجود میری زندگی کھوکھلی اور بے بنیاد تھی۔ مجھے چاروںطرف دھوکے اور فریب کی دنیا پھیلی ہوئی نظر آتی۔ میرا جی چاہتا اس فریب زدہ زندگی کو چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور نکل جائوں‘مگر کہاں؟ اس کا کوئی جواب میرے پاس نہ تھا۔ اس بے چارگی کا شدید ردعمل ہوا اور میں لہو و لعب اور شہواتِ نفسانی میں مزید ڈوب گیا اور ایسی پستیوں میں جا پہنچا کہ احساس ہونے لگا‘ میں فی الواقع جہنم میں آگرا ہواں۔ وہ جہنم جس میں داخل ہونے کے لیے انسان بے قرار رہتا ہے۔
اب میرے سامنے صرف دو راستے رہ گئے تھے اس جہنم زار میں بدستور زندگی بسر کرتا رہوں یا کوئی اور طرزِ حیات اپنا لوں… لیکن وہ نیا طرزِ حیات کون سا ہو سکتا ہے؟ اس سوال نے مجھے ایک تکلیف دہ صورت حال سے دوچار کر دیا اور پھر ایک روز دل کی گہرائیوں سے روشنی کی کرن نمودار ہوئی جو رفتہ رفتہ سرگوشی میں ڈھلگئی ’’زندگی کے جس راستے کی تمہیں تلاش ہے وہ مذہب ہی دکھا سکتا ہے۔‘‘
میں پیدائشی کیتھولک تھا۔ میں نے نیویارک کے مختلف مدارس میں کیتھولک تعلیم حاصل کی تھی۔ اب جو اس مذہب کا پختہ شعور کے ساتھ مطالعہ کیا تو مجھے اس سے نفرت ہو گئے پھر بدھ مت‘ ہندو مت اور مختلف اصنام پرست مذاہب کا مطالعہ کرتا رہا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی میرے ذہن و قلب کے اضطراب کا مداوا نہ کرسکا۔ رہا اسلام‘ تو اس مدت میں مجھے اس کی خبر تک نہ ہوسکی۔ امریکا میں آپ کو اسلام کے سوا ہر مذہب پر بے شمار کتابیں مل سکتی ہیں۔ اسلام پر کوئی کتاب کیوں آسانی سے نہیں ملتی۔ اس کے دو سبب ہیں:
اوّل یہ کہ یہودی تنظیمیں‘ ذرائع ابلاغ‘ صحافت‘ سنیما‘ تھیٹر اور لائبریریوں ہر شے پر چھائی ہوئی ہیں۔ وہ پوری کوشش کرتی ہیں کہ اسلام کی تعلیمات پر لوگوں تک اپنی حقیقی شکل و صورت میں نہ پہنچنے پائیں۔
دومِ: یہاں زیادہ تر مسلمان کالے ہیں اور کالوں کو امریکی گورے شیطان یا موت سے کم نہیں سمجھتے۔ یونیورسٹیوں میں بھی کالے ہی اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہی امریکا میں انقلاب کے ہراول بنے ہوئے ہیں جسے عام امریکی سخت خائف ہیں۔ اس طرح وہ اسلام کو بھی خطرناک دین سمجھنے لگے ہیں۔
بہرحال میں نے جن مذاہب کا مطالعہ کیا ان کے دامن میں مجھے اپنی بیمار روح کی شفا یابی کا کوئی سامان نہ ملا۔ آخر اللہ کی طرف رجوع کیا اور اس سے دعائیں مانگنے لگا کہ وہ مجھے ہدایت بخشے اور گمراہی کے اس ہولناک دلدل سے نکالے۔ دعا مانگتے مانگتے میں (شاید اپنی فطرت کے تقاضے سے) سجدے میں گر جاتا۔ ایک مرتبہ میں اسی طرح سجدے میں پڑا دعا مانگ رہا تا کہ لوگوں نے دیکھ لیا۔ انہوں نے مجھے بتایا جو کچھ تم کر رہے ہو مسلمان وہی کچھ اپنی نماز میں کرتے ہیں۔
تجسس کا شعلہ میرے دل میں بھڑک اٹھا‘ ذرا اسلام کا مطالعہ بھی کر دیکھوں۔ مطالعے کا آغاز ناقدانہ انداز میں کیا۔ پھر رہ رہ کر مایوسی بھی آلیتی۔ دوسرے مذاہب کی طرح اس کے دامن میں بھی کیا خبر کچھ ملے گا یا نہیں؟ لیکن رفتہ فتہ مایوسی کی جگہ امید اور ناقدانہ انداز کی جگہ خوش گوار حیرت نے لے لی۔ علامہ یوسف علی کا ترجمۂ قرآن پڑھا تو مجھے اپنے نفس کی گرہیں کھلتی ہوئی دکھائی دیں۔ قرآن کے معانی دل کی گہرائیوں میں نقش ہوتے چلے گئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے میری فطرت اسی طریقِ زندگی کی تلاش میں تھی۔ قرآن کے مطالب پرغور و تدبر میں اضافے کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا چلا گیا کہ اسلام کی تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔
اب وقت کا زیادہ حصہ قرآن پڑھنے اور سمجھنے میں گزرنے لگا۔ میں نے دیکھا اس مقدس کتابِ ہدایت میں میری روح کی ہر احتیاج کا سامان موجود ہے۔ چنانچہ میں مسلمان ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اسلامی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔ یہ مطالعہ جیسے جیسے بڑھتا گیا‘ نئے‘ نئے حقائق منکشف ہوتے چلے گئے اور اسلامی نظامِ زندگی پر میرا یقین محکم ہو گیا۔ جس معاشرے میں پیدا ہوا اور پھر پروان چڑھا اس نے میری اخلاقی اور روحانی زندگی تباہ کرکے رکھ دی تھی‘ لیکن اسلام جو معاشرہ قائم کرتا ہے وہ نہ صرف روح کی احتیاج پوری کرتا ہے بلکہ مادّی زندگی کو بھی معقول‘ معتدل اور متوازن بنیادوں پر استوار کرتا ہے اور انسان کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے۔ اسلام کے اس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
میری والدہ نے جب سنا کہ میں مسلمان ہوگیا اور میں نے انہیں اسلامی تعلیمات بتائیں تو وہ الحمدللہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔‘‘
میں نے فارض بھائی سے پوچھا کیا وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو کوئی پیغام دیں گے؟
کہنے لگے میں انہیں صرف ایک بات کہوں گا کہ مادّی زندگی کی طرف دیکھنے کے بجائے اللہ نے ان کو دینِ حق کی صورت میں جو سرمایۂ حیات دیا ہے وہ اس کی طرف دیکھیں‘ اس کی تعلیمات اور احکام پر عزم و ثبات سے عمل پیرا ہوں اور اس کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ مادی زندگی اور اس پر مبنی تمام نظریۂ حیات ناپائیدار اور ستم کیش ہیں اور محض شیطان کی پیدا کردہ۔ جاز اور راک اینڈ رول کی موسیقی میں گم ہونے کے بجائے وہ اس مترنم آواز کی طرف متوجہ ہوں جو مؤذن دن رات میں پانچ مرتبہ بلند کرتاہے اور انہیں اللہ کی کبریائی اور فوز و فلاح کی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ حی علی الصلوٰۃ۔ حی علی الفلاح۔

حصہ