سوشل میڈیا دکانیں

452

سماجی میڈیا پر رابطے استوار ہونے کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی استوار ہو رہےہیں، سرمایہ دارانہ نظام کی یہی اک نشانی ہے کہ وہ سب دائروں کو معاشی دوڑ میں لگادیتا ہے ۔بہرحال اس ہفتہ سو شل میڈیا پر حریم شاہ کے نوٹوں کی گڈیاں چھائی رہیں۔ مری میں ہونے والے دلخراش واقعہ کا نزلہ بھی سوشل میڈیا پر بدستور جاری رہا،مری، بائیکاٹ مری، نتھیا گلی، سانحہ مری کے ٹوئٹر ٹرینڈ تین دن چلتے رہے۔ اس دوران کرپٹو کرنسی پر پابندی کا عندیہ سامنے آیا تو ٹیکنالوجی موومنٹ پاکستان کے سربراہ وقار ذکا میدان میں کود گئے ۔ انہوں نے ڈی چوک اسلام آباد میں نوجوانوں کے دھرنے کا اعلان کر دیا۔ان کی ٹوئٹر پر بڑی فالوونگ ہےاس لیے با آسانی تو ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ میں آگئے۔دوسری جانب کراچی میں جماعت اسلامی کا سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا 15 دن مکمل کر گیا ، سوشل میڈیا پر مستقل کراچی کے سندھ اسمبلی دھرنے کو نمایاں کیا جاتا رہا۔ کراچی میں مدینہ مسجد مسماری کےحکم کا شور تو ٹھنڈا پڑگیا البتہ پھراسلام آباد کے مونال ریسٹورنٹ کو بچانے کی مہم چل پڑی جسے سیل کر دیاگیاتھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ مارگلہ نیشنل پارک میں موجود مونال ریسٹورنٹ اور سیکٹر E-8 میں واقع پاکستان نیوی کے زیر انتظام چلنے والے گالف کورس کو فوری طور پر سیل کیا جائے۔یہ احکامات اسلام آباد ہائی کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں قائم تجاوزات کے خلاف ایک کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دیےتھے۔اسی طرح منی بجٹ منظوری سیشن کے لیے اپوزیشن نے منی بجٹ کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنا نے میں کامیاب رہے ۔
بات کاروبار کی ہو رہی تھی تو چلتے ہیں دو دن قبل ایک ملاقات کے احوال کی طرف ۔ جو اس جملے سے شروع ہوئی ۔’سلمان یہ جیکٹ فریش کرالو ، کب تک چلاؤ گے ؟‘میں نے جواب کے بجائے مزید سوال کردیا کہ ’یہ تو چمڑے کی ہے اسکو کیسے فریش کراؤںگا؟ جواب ملاکہ ، کیوں نہیں ہو سکتی، استری ، پالش ہوکر بالکل نئی ہوجائیگی ۔میں خوش ہوگیا اور پھر سوال کر دیا کہ ،مگر کہاں سے ہوگی؟جواب میں پھر ایک سوال آگیا کہ ، ’ـسلمان تم نے میری وڈیو نہیں دیکھی ؟ ‘ اس پر میں نے بھی ایک حکمیہ سوال دا غ دیا کہ ،’کون سی وڈیو، بھیجیں ذرا؟‘تو انہوں نے جھٹ سے میرے موبائل پر یو ٹیوب کھلوایا اور کہا ، ’اس میں دیکھو ‘تو شروع میں ہی ایک وڈیو نظر آگئی۔ ’’پرانی جیکٹ کونیابنوائیںــ‘‘۔ اس کے آس پاس کی وڈیوز بھی انتہائی دلچسپ اور متاثر کن کیپشن کے ساتھ تھیں ۔’کراچی میں ویسٹ کوٹ کی 50سال پرانی دکان‘، ’کراچی میں 1200روپے کی لیدر جیکٹ ‘، ’کراچی میں فینسی دوپٹہ کی ہول سیل دکان‘ ،’ یورپ کی امپورٹڈ چاکلیٹس کراچی میںکہاں سے ملیں گی‘ ،’پسند کے آرڈر پر بننے والے لیڈیز چمڑے کے جوتوں کی منفرد دکان‘،’ کراچی میں ناٹو سپلائیز کے سامان کی فروخت کا مرکز‘،’یو پی موڑ کا اتوار بازار‘ ، ’صرف 350میں مردانہ شلوار سوٹ‘، امیزن کے اصل کاٹن کی پہچان کیا ہے؟‘، ’شیر شاہ مارکیٹ کے گوداموں کا تفصیلی دورہ، کاسمیٹکس‘، ’ڈی ایچ ایل کے پارسل‘، ’باورچی خانے کے سامان ‘، ’گل پلازہ ‘، عبایا، 450کے لیڈیز بیگ، پانی کی بوتلیں، اسکول بیگز، امریکا ، جرمنی کے جوتے ، ہول سیل پرفیوم،ون ڈالر شاپ، کپڑوں کی لاٹ، قالین، الیکٹرانک مصنوعات، پردے، چھوٹا کاروبار کیسے شروع کریں، سفری بیگ، کراچی میں 400روپے کلو کھلونے ، یہ اور اس جیسی کوئی 120وڈیوزنظر آئیں۔
اب میں جیکٹ کی پالش تو کیا کراتا میں اِن کے چینل میں ہی گھومتا رہ گیا۔ میں نے پوچھا کہ بھائی آپ یہ مستقل نوکری کرتے ہوئے کیسے کر لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ بھائی وقت نکالنے سےنکلتا ہے ۔ میں نے پوچھا کہ کتنی ٹیم ہے تو جواب ملا کہ ابھی تو اکیلا ہی کرتاہوں۔ اب میری دلچسپی مزید بڑھ گئی تو سوالات کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیااور میں وہیں انکے ساتھ بیٹھ گیااور اس چینل پر تفصیلی گفتگو کی۔ارے تعارف تو رہ گیا۔ یہ تھے ’’بِز وِز پاکستان ‘‘کے یو ٹیوب چینل کے بانی ، سینئر صحافی و سابق سیکریٹری کراچی پریس کلب ارمان صابر سے تازہ ملاقات کا احوال ۔ان کے دلچسپ چینل کے حوالے سے کچھ اہم معلوماتی گفتگو ہوئی جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
جنوری2021میں مطلب سال بھر پہلے ہی انہوں نے اس چینل کا آغاز کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں جس طرح صحافیوں کو فارغ کرنے کا رحجان چل رہا تھا ، وہ بہت سوں کے لیے شدید مشکلات کا باعث تھا ، اس لیے اپنے پیشے میں رہتے ہوئے ، اپنی صلاحیت واستعداد کے مطابق کچھ کام کا سوچنا شروع کیا۔سوشل میڈیا ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت تیزی سے فروغ پا رہا تھا، کورونا لاک ڈاؤن کے بعد تو اس کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ اس لیے اس جانب ہی توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔چینل کانام انہوں نے اپنےطے شدہ مقاصد کے مطابق رکھا کہ اس کے ذریعہ وہ اپنے ناظرین میں کاروباری رحجان کو فروغ دینے کے ساتھ مختلف کاروبار سے متعلق مفید معلومات چاہتے ہیں۔ایک سال کے تجربہ کی روشنی میں وہ سمجھتے ہیں کہ بڑی حد تک اس مقصد میں کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ہم نے بھی چینل کا جائزہ لیا تو واقعی کراچی میں رہنے کے باوجود ایسی منفردمعلومات ، جگہیں اور کاروباری رازوں سے پردہ اٹھا کہ اس کے سنڈے میگزین کے قارئین تک پہنچانا ضروری محسوس ہوا۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ لوگ کاروباری آئیڈیاز بتانا پسند نہیں کرتے لیکن اگر اسکو سنت نبوی ﷺ کی ترویج کی نیت سے بتایا جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور طرفین میں برکت دے گا۔ویسے بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رزق کے معاملے میں کوشش کے بعد اس بات کا ایمان ویقین ہونا چاہیے کہ ہر قسم کارزق من جانب اللہ ہے اور وہ ہر حال میں مل کر رے گا۔
بز وز پاکستان کے بانی ، ارمان صابر نے چینل پروموشن کے بارے میں بتایا کہ ، وڈیوز کے فروغ اور ناظرین پانے کے لیے سب سے زیادہ واٹس ایپ پر لنک بھیج کر، ایس ای او کر کے اور متعلقہ گروپس سے مدد لی جاتی ہے ۔وڈیوز کے اثرات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ،اس چینل کی وڈیوزکے نتیجے میں متعلقہ دکان دار جس کی وڈیوز بناتے ہیںان کے پاس بے شمار لوگ رابطہ کرتے ہیں۔ایک اور دلچسپ بات انہوں نے یہ بتائی کہ ، ’وڈیو کے بالکل شروع میں کوئی ایک منٹ کی اہم جھلکیاں ڈالتے ہیں ، اس کے بعد چینل کا تعارف آتا ہے اسکے بعد وڈیو باقاعدہ شروع ہوتی ہے ۔صارفین کی اکثریت صرف ابتدائی جھلکیاں دیکھ کر ہی فون گھمانا شروع کر دیتے ہیں۔اس بات کا اندازہ ان کو خود یوں بھی ہوا کہ ہر وڈیو میں جو رابطہ نمبر انہوں نے اپنادیا ہے ، اس وضاحت کے ساتھ کہ وڈیو بنوانے کے لیے ہم سے رابطہ کریں ، اس نمبرپر بھی لوگ آدھی آدھی رات کو فون کرکے کپڑوں کی قیمت و ڈیزائن کے سوالات کی بھرمار کرتے ہیں ۔ان کالز سے جہاں ویور شپ کا اندازہ ہوتا ہے وہاں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ پوری وڈیو دیکھے بغیر کال کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے وڈیو میں متعلقہ دکاندار کا مکمل پتا بلکہ اس کا نام و فون نمبر دیا ہوتا ہے ، ساتھ ساتھ وڈیو ڈسکرپشن میں بھی لکھا ہوتا ہے مگر لوگوں کا اُن کو فون کرنا یہی ظاہر کرتا ہے کہ لوگ یا تو اب بھی یو ٹیوب سے نابلد ہیں یا وڈیو مکمل دیکھے بغیر ہی کال کر دینے کی زحمت اٹھا لیتے ہیں۔ بہرحال یہ انکو آگے رہنمائی کر دیتے ہیں۔انکے چینل کے صارفین کی وڈیو نفسیات کے بارے میں سوال کیا تو انکا کہنا تھا کہ 37فیصد لوگ مکمل وڈیو نہیں دیکھتے۔بیرون ملک سے افراد بھی دیکھتے ہیں۔وڈیو میں آپ دیکھیں گے کہ دکاندار سے یا کاریگر سے مکمل ایک گاہگ کی نفسیات کے مطابق معلومات لی جاتی ہے ، یہی نہیں کئی دکانداروں سے جنہوں نے وڈیو کا خیر مقدم کیا تو انہوں نے اعلان بھی کیا کہ اگر کوئی بز وز چینل کی وڈیو دیکھ کر آئے گا تو اسکو مزید ڈسکاؤنٹ دیا جائے گا۔
میں نے پوچھا کہ کیا اب تک کسی دکاندار نے وڈیو سے اپنی فروخت کے اثرات بتائے یا آپ نے جاننے کی کوشش کی ؟تو انہوں نے ایک وڈیو دکھائی ، ’500روپے میں نئی ایکسپورٹ کوالٹی جینز، ‘اور بتایا کہ ’اُن کی دکان کی وڈیو ہم نے 9ماہ قبل بنائی تھی اس وقت یہ ایک ہی دکان تھی ، جینزکی پینٹ بیچتے مگر ، دکاندار کا کہنا ہے کہ اس وڈیو کے بعد جو آرڈرز کا سلسلہ شروع ہوا تو اب آج وہ ایک پورا گودام چلا رہے ہیں اور ایک دکان سے بڑھتے بڑھتے پورے ملک میں سپلائی کر چکے ہیں۔اس کے بعد اب اسی دکان دار نے ان کو الگ سے بلوایا اور خصوصی پروموشنل وڈیو بھی بنوائی۔ اس قسم کی وڈیو کے لیے وہ اپنے چینل کی ہر وڈیو کی ابتداء میں ہی وضاحت کر دیتے ہیں کہ اگر آپ اپنی مرضی کی پروموشنل طرز کی وڈیو بنوانا چاہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔ اس کام کے وہ دکاندار سے معاوضہ بھی لیتے ہیں جبکہ دیگر وڈیوز کے لیے انکو دکانداروں سے درخواست کرنی پڑتی ہے۔ اس تجربے کا نچوڑ انہوں نے یہ بتایا کہ ’ لوگ سمجھتے تو ہیں کہ یوٹیوب، سوشل میڈیا ، فیس بل وغیرہ مگر انکی اولین خواہش یا سوال یہ ہوتا ہے کہ انکو کیا فائدہ ہوگا۔اکثر افراد منع کردیتے ہیں کہ و ہ وڈیو نہیں بنوانا چاہتے خواہ اس سے گاہگ آئے یا نہ آئے ۔ دوم یہ کہ دکاندار قیمتیں بتانے گریز کرتے ہیں ، اس لیے جو دکاندار اشیاء کی قیمت نہیں ظاہر کرنا چاہتا تو اسکی وڈیو وہ نہیں بناتے کیونکہ اس سے ناظرین کو گمراہ کرنا یا بہلاپھسلا کر دکاندار تک لانا مقصود نہیں ۔اس کے برعکس ناظرین کو ایسی کاروباری معلومات دینا مقصد ہوتا ہے کہ لوگ وہاں سے اپنے نئے کاروبا رکی بنیاد رکھ سکیں ۔فی زمانہ یہ انتہائی مقبو ل اصطلاح ہے جسے انٹر پرینیور شپ کہتے ہیں۔
جس دکان پر جاتے ہیں اس کی مصنوعات کی تیاری ، خصوصیات، قیمت، گارنٹی سمیت تمام معلومات وہ اِس میں ڈالتے ہیں۔کوشش کرتے ہیں کہ ڈیمانڈ کے مطابق خریدی جانے والی اشیاء کو توجہ میں رکھیں ، جیسے سرد موسم کے حساب سے گیزر، جیکٹس، جینز ودیگر پر کام کرتے ہیں۔چینل کو باآسانی سمجھنے کے لیے کئی پلے لسٹ بھی بنا رکھی ہیں، مطلب صارف کی آسانی و دلچسپی کےلیے ایک ہی موضوع سے متعلق وڈیوز جمع کر دی ہیں ۔ ان میں کپڑے، جیولری، جوتے، موبائل فون، کراکری، کھلونے، بیگز کی کیٹیگری شامل ہیں۔ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ پاکستان کا مجموعی معاشرہ آج بھی مذہبی ہے ، مذہب سے انتہائی گہری وابستگی ہے ، اس کے وجہ برصغیر میں صوفیا کے ہاتھوں اسلام کا فروغ بتاتے ہیں جس نے لوگوں میں اسلام کی بنیاد عشق پر رکھی ہے دلائل پر نہیں اور عشق کب جنون میں تبدیل ہو جائےگا اس کچھ کہہ نہیں سکتے ۔جس معاشرے میں اتنا مذہبی عشق پایا جاتا ہے اور حساسیت پائی جاتی ہے تو اس جذبے کو تعلیمات ، تزکیہ و تطہیر کے ذریعہ دینی شعورمیں ڈھالنا،وقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ حد اعتدال و دینی جذبہ عمل صالح کی جانب معاشرے کو لے کر چل سکے اور کلیتا پورا معاشرہ اس کا مظہر بنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں ’ترکھان کا بیٹا‘بننے کے لیے آپ کو ہر جانب لوگ از خود مل جائیں گے ۔اس عشقیہ ایمانی کیفیت کا ایک اظہارمجھے یوں بھی محسوس ہوا جب اس چینل میں مجھے وہی جیکٹ ریپئر والی دکان کی وڈیو میں سے نکالا گیا ایک اہم کلپ نظر آیا ۔کلپ کا ٹائٹل تھا کہ ’خبردار ،لنڈا کے مال میں سور کی کھال سے تیار کردہ لیدر جیکٹ سے ہوشیار۔‘ یہ جاننے کے لیے میں نے بھی وڈیو دیکھی تو اس میں جیکٹ کے ماہر کاریگر نے ایسی جیکٹ کی نشانی بتائی کہ اس کا دانہ بہت موٹا ہے اور اس میں باریک باریک سوراخوں کی تشبیہہ ہوتی ہے اور اس کا دانہ موٹاہوتاہے، بہت اچھی حالت میں ہوتی ہیں ، ٹھیلو ں پر زیادہ ہوتی ہیں، جنہیں گاہگ یہ سوچ کر لیتا ہے کہ یہ تو اچھی حالت میں ہیں۔مجھے اہم بات یہ نہیں لگی بلکہ مجھے اہم بات یہ لگی کہ وہ شخص جس کے پاس مہنگی چمڑے کی جیکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی اور سردی سے بچنے کی خاطر وہ اپنی ضرورت کے تحت کسی ٹھیلے سے چمڑے کی جیکٹ پسند کرتا ہے اورخریدتا ہے ، وہاں جس لمحے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ خنزیر کی کھال ہے تو وہ اس کو اپنے جسم پر برداشت نہیں کرتا اور فوراً پھینک دیتا ہے ، نہ پیسے کی پرواہ، نہ سردی کی پرواہ کرتا ہے ۔ کاریگر ظہیر الدین نے وڈیو میں بتایا کہ یہ کام صرف وہ گاہگ نہیں بلکہ حاجی کیمپ کے بازار سے پوری لاٹ اٹھانے والاتاجر بھی یہ ساری جیکٹس اپنی لاٹ میں سے الگ کر کے پھینک دیتے ہیں ۔ اس کچرے سے چُن کر ٹھیلے والے لے آتے ہیں ، اب انکو معلوم ہوتا ہے یا نہیں یہ ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو کچرے سے اٹھا کر لاتے ہیں ، اس لیے انہوں نے پیغام دیا کہ ایسی جیکٹس کو بلیڈ سے کاٹ کر ضائع کرنا چاہیے نہ کہ پھینکنے پر تسلی کر لی جائے ۔

حصہ