پارکنسن جان لیوا نہیں۔مگر۔۔۔!

223

پارکنسن(رعشہ)اس مرض کو پہلی بار 1817ء میں جیمز پارکنسن نے بیان کیا اسی لیے اس بیماری کا نام ان کے نام سے منسوب ہے۔ پاکستان میں اس بیماری کے حوالے سے کوئی مستند اعدادو شمار موجودنہیں ہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اس مرض میں مبتلا تقریباً چھ لاکھ نفوس ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں خدشہ یہی ہے کہ درست تشخیص نہ ہونے کے باعث تعدا د اس سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں رعشہ کے مرض میں مبتلا مریضوں کی زیادہ تر عمر 60سال سے زائد ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں 40,50سال کی عمر میں بھی اس بیماری کی علامات شروع ہوجاتی ہیں۔ اگر چہ زیادہ تر متاثرہ افراد کی عمر 55 سال سے زیادہ ہوتی ہے۔
یہ ایک اعصابی مرض ہے جس میں دماغ کا اہم کیمیکل ڈوپامین بنانے والے خلیے تباہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں چونکہ ڈوپامین جسم کی حرکات و سکنات کے لیے بنیادی جز و اہمیت کا حامل کیمیکل ہے اس ہی لیے اس کی کمی کی صورت میں مختلف علامات ظاہر ہونا شروع ہوجایا کرتی ہیں۔ اس حقیقت کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ رعشہ(پاکنسنز)ایک پیچیدہ مرض ہے مگر بروقت ودرست تشخیص اور ادویات کے موزوں استعمال سے اس کی علامات کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے اس بیماری کا کوئی مستقل و دائمی علاج نہیں مگر مناسب استعمال کے ذریعے مریض سالہا سال مؤثر زندگی گزارسکتے ہیں۔
پارکنسنز کا مرض عمومی طور پر آہستگی سے بڑھتا ہے اگر چہ یہ بیماری جان لیوا نہیں مگراس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیاں اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں بد قسمتی سے پاکستان میں رعشہ کی بیماری کے حوالے سے معلومات میں کمی ہے اور نہ صرف عام افراد بلکہ طب کے شعبے سے وابستہ افراد بھی اس کی علامات و تشخیص کے حوالے سے نا بلد ہے۔
پاکنسنز کے مرض کی خاص علامات میں روز مرہ زندگی کی حرکات و سکنات کی رفتار میں آہستگی کا ہوجانا ، رعشہ کاہونا (بالخصوص جب جسم کے اعضاء حرکت میں نہ ہوں)، عضلات میں لچک کا ضیاع ، توازن برقرار رکھنے ،میں دشواری، پٹھوں میں تناؤ ، چلنے کی رفتار میں کمی ،چھوٹے چھوٹے قدم کے ذریعے چلنا اور چلتے وقت مڑنے میں دشواری و آہستگی کا شامل ہونا ہے۔
پارکنسنز کی بیماری کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے مزید علامات ظاہر ہوتی رہتی ہیں جس میں چہرے کے تاثرات میں کمی ، چہرے کا اترنا ، رال ٹپکنا، چال کا منجمد ہونا، گرنا، تھکاوٹ، ہاتھ کی لکھائی کا چھوٹا ہوجا نا ، قبض کا ہونا ، ذہنی تناؤ /دباؤ ، جنسی نظام میں کمزوری، مثانہ میں کمزوری، چکر آنا اور جلد کاخشک ہونا وغیرہ شامل ہے۔
اس مرض کی جلد تشخیص ، مریض کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے تاکہ مریض کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جاسکے یہ بیماری قطعاً بڑھاپے کا رد عمل نہیں ہے بلکہ قابل علاج مرض ہے ۔پارکنسنز کے مرض کی درست تشخیص ماہر امراض و دماغ واعصاب (نیورولوجسٹ)طبی معائنے سے کرتے ہیں اس کی تصدیق کے لیے کسی قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہواکرتی۔
پارکنسنز کے مرض کا علاج بنیادی طور پر ادویات اور فزیوتھراپی سے کیاجاتا ہے ۔بیماری کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ادویات میں ترمیم ضروری ہوجاتی ہے ۔ بعض اوقات نیوروسرجری کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے ۔مریض کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ اپنی بیماری کے متعلق مکمل اور ٹھیک معلومات حاصل کرے۔ باقاعدگی کے ساتھ اپنے معالج کو دکھائے ۔نیز اپنی علامات کی تبدیلی پر کڑی نظر رکھے اور علامات کی تبدیلی کی نتیجے میں فوری معالج سے رجوع کرے۔ ہرمریض کے علاج کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ صحت مند غذا، ورزش اور ادویات کا بروقت استعمال علاج کی بنیادی کنجی ہے۔زیادہ سے زیادہ پانی، سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے مریض بہتر محسوس کرتا ہے۔پارکنسنز ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ادویات اور مثبت رویے سے ممکن ہے۔

حصہ