ایک سال بیت گیا

207

ایک اور سال بیت گیا، نہ جانے ہم اللہ تعالیٰ کے مقرب بنے یا اللہ تعالیٰ کے غصے کا باعث ہیں؟ لیکن اندازہ لگایا جائے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اِس سال میں زیادہ ڈپریشن والا معاشرہ نظر آیا۔ مادّیت اور شہرت کے پیچھے ہر کوئی بھاگ رہا ہے چاہے بچہ ہو، جوان ہو، یا بوڑھا۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو شارٹ کٹ طریقے سے شہرت حاصل کرنے کا طریقہ کیا بتایا کہ وہ اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لیے ترس جاتے ہیں۔ اتنے قریب ہوکر بھی اپنوں کے درمیان بہت سارے فاصلے پیدا ہوگئے ہیں۔ مہنگائی کا طوفان، بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی، لاک ڈائون کے باعث بے روزگاری میں اضافہ، جرائم کی وارداتوں میں اضافہ، اس کے ساتھ مینارِ پاکستان کا واقعہ… ان میں بے حس معاشرے کی جھلک نظر آتی ہے۔ پولیس اسٹیشن کو جلانا، عدلیہ کے نظام سے عوام کا مطمئن نہ ہونا حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، سانحہ سیالکوٹ میں عورتوں کو مارا گیا، یہ جہالت کی ایک جھلک ہے۔ مجموعی طور پر یہ واقعات ایک ایسے معاشرے کی نشاندہی کررہے ہیں جہاں کوئی قانون، انصاف، عزت و مال کا تحفظ نظر نہیں آتا۔ سال گزرتے جائیں گے، خدا نہ کرے اس سے بدتر حالت ہو۔ جہاں اتنے واقعات ہوئے وہاں اصلاحی بیانات کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ انسان نیک فطرت ہوتا ہے اور نیکی کو پسند کرتا ہے۔ نوجوان ایسے پیج کو پسند کرنے لگے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب لوگ نیک قیادت کو ہی منتخب کریں گے۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری حقیقی فلاح اور نجات صرف اور صرف اسلامی نظام زندگی کے قیام میں ہے، اسی سے معاشرہ پُرامن اور پُرسکون ہوسکتا ہے۔ وقت اب دور نہیں ہے، فیصلے کا اختیار آپ کو ہے، اچھی ایمان دار قیادت کو سامنے لے کر آنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ آئیے مل کر اس کو اچھی طرح نبھائیں۔

حصہ