انتظار

418

آسمان پہ اُڑتے غول در غول پرندے اسے بہت بھاتے۔ جب شام کو پرندوں کے گروہ واپسی کے لیے رختِ سفر باندھتے تو وہ گھنٹوں بیٹھی ان کو تکا کرتی، دنیا سے بے گانہ ہوکر بس یہی دیکھتی اور سوچوں کا دھارا اسے کہیں سے کہیں لے جاتا۔
وہ سوچتی کہ سارا دن یہ پنچھی کہاں کہاں رزق کے لیے پھرتے ہیں۔ حالانکہ رزق کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے، کہیں بھی بیٹھے بیٹھے مل سکتا ہے، مگر تگ و دو، کوشش، جدوجہد سب ان کی سرشت میں ہے اور وہ دل و جان سے مگن ہیں۔ مگر واپسی کا راستہ کبھی نہیں بھولتے، اُنھیں ہر حال میں پلٹنا ہی ہوتا ہے۔
’’صابرہ اری او صابرہ…!‘‘ نیچے اماں آوازیں دے رہی تھیں۔
اس نے ایک آہ بھری اور پنچھیوں کو اللہ حافظ کہتے ہوئے نیچے چلی گئی۔
’’کتنی دفعہ سمجھایا ہے شام ڈھلے جوان لڑکیاں چھت پہ نہیں جاتیں، وقت اندر باہر ہوتا ہے بھلیے لوکے… کی کراں سنتی ہی نئیں۔‘‘ اماں سر باندھے بڑبڑا رہی تھیں اور وہ ہمیشہ کی طرح سنی اَن سنی کرتے ہوئے باورچی خانے میں جا گھسی۔ اماں نے مغرب کے فوراً بعد رات کے کھانے کا رولا ڈال دینا تھا اور پھر گیس کی لوڈشیڈنگ نے الگ تنگ کررکھا تھا۔ اِدھر روٹی ڈالنے کی تیاری کرو اُدھر گیس لاڈو روٹھ کے چل دیتیں، اور اماں تنور کی روٹیوں کے سخت خلاف تھیں کہ ’’نرا میدا ہوتا ہے، آٹا تو برائے نام ہی ہوتا ہے۔‘‘
صابرہ صرف نام کی ہی صابرہ نہ تھی بلکہ حقیقت میں بھی وہ بڑی صبر والی تھی۔ بچپن سے لے کر اب تک اُس نے اماں کی ہر بات بنا چوں چرا مانی تھی۔ ایک ماں ہی تو بچی تھیں اس کے پاس، بابا تو اللہ کے پاس جا بسے جب وہ ننھی سی تھی۔ بس اماں نے بیوگی کی چادر کیا اوڑھی سب اپنے، بے گانے ہوگئے۔ اماں نے اسے اپنے پَروں میں چھپا کر رکھا۔ زمانے کے سرد وگرم سے بچایا۔ وہ اس کے بارے میں اتنی وہمی تھیں کہ اسے کسی دور کے تعلیمی ادارے میں بھی نہ پڑھایا، بس گلی محلے کے اسکول میں پڑھایا اور بی اے تک اس نے پرائیویٹ ہی پڑھا، کیوں کہ اماں اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں۔ سو اس نے بھی کوئی ضد نہ کی۔ کرتی بھی تو کیسے! خود اسے بھی تو اماں کی عادت تھی، ایک پل بھی اُن کے بغیر نہ رہ پاتی۔
پھر ایک دن پڑوس کی خالہ مجیدن کو اماں سے کہتے سنا کہ ’’لڑکا سولہ جماعتیں پاس ہے، اپنا کاروبار ہے اس کا دبئی میں، نہ کوئی سسرال کا بکھیڑا، عیش کرے گی صابرہ۔‘‘
ہائیں یہ کیا کہہ رہی تھیں خالہ مجیدن! وہ اماں کے بغیر، اور اماں اس کے بغیر کیسے جی سکتی ہیں؟ اُس رات وہ اماں کی گود میں سر رکھ کر بلک بلک کر روئی، مگر اماں کٹھور بنی اس رشتے کے بارے میں ہی سوچتی رہیں اور اگلے دن انھوں نے ہاں کردی۔ اور یوں ایک ماہ میں ہی صابرہ بی بی سجاد احمد کے نکاح میں آگئیں۔ رخصتی ابھی نہ ہوئی کیونکہ ضروری کاغذات اور ویزا وغیرہ میں کچھ وقت درکار تھا، سو سجاد احمد دبئی سدھارے اور صابرہ انتظار کے جھولے پہ بیٹھ رہی۔ وہ سوچتی، نکاح کا بندھن اتنا خوب صورت ہوتا ہے کہ دو انجان محبت کے رشتے میں خود بہ خود جڑ جاتے ہیں۔
اس نے سجاد کے ساتھ محض پندرہ بیس دن ہی گزارے تھے مگر ایسا لگتا کہ برسوں سے اس کے انتظار میں تھی۔ اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ کیسے وہ اس کی اور اماں کی محبت میں شراکت دار بن گئے؟ اب اس کا روز شام کو پنچھیوں کی واپسی کا منظر دیکھنا معمول بن گیا۔
سجاد احمد کو دبئی گئے پورے دو سال ہوگئے تھے۔ شروع میں فون بھی آتا مگر اب نہ فون، نہ کوئی رابطہ… صابرہ یہی سوچتی کہ پنچھی تو واپس لوٹ آتے ہیں مگر انسان واپسی کا راستہ بھول جاتا ہے۔ شاید انسان کو پرندوں کی نسبت پلٹنا دشوار لگتا ہے۔

حصہ