ازدواجی زندگی کی الجھی ڈور کیسے سلجھائی جائے

374

کہتے ہیں اختلاف رشتوں کا حسن ہے۔ دنیا کے ہر رشتے میں کم یا زیادہ، اختلافات کا ہونا صحت مند رشتے کی نشانی ہوتی ہے۔
ازدواجی زندگی میں بھی اختلافات کا ہونا کوئی حیران کن بات نہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ یعنی دن رات کا ساتھ، ہر مسئلے کی شراکت اور ایک گھر کی مشترکہ ذمے داری… ان امور کی انجام دہی میں اختلاف ہونا بھی لازمی ہے۔
عمومی طور پر چھوٹے موٹے جھگڑے آپس میں روٹھ کر، منا کر، کبھی ضد سے اور کبھی تھوڑا سا جھک کر یا سمجھوتے سے سلجھا لیے جاتے ہیں، لیکن کہیں کہیں یہ معاملہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور لڑائی جھگڑا روز کا معمول بننے لگتا ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ روز کی چیخ پکار سے کوئی مثبت نتیجہ تو برآمد نہیں ہوتا البتہ رشتے کی خوبصورتی ماند پڑنے لگتی ہے اور دل میں ایک دوسرے کے لیے عزت ہر گزرتے روز کے ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آخر ان سب سے کیسے بچا جائے؟ یہی اس مضمون کا موضوع ہے۔ اہم مسئلہ اختلافات کا ہونا نہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اختلافات یا جھگڑے کو ہینڈل کس طرح کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جو کسی بھی اختلاف کی بنیاد ہے۔ کہا جاتا ہے کسی جھگڑے کو سمجھنے کے لیے آپ ایک پیاز کی مثال لیں۔ عموماً میاں بیوی جس بات پہ جھگڑا کرتے ہیں اس کی مثال پیاز کی بیرونی سطح کی طرح ہے، جبکہ اصل مسئلہ اس بیرونی سطح سے کئی تہوں کے نیچے چھپا ہوتا ہے، یعنی جھگڑا عموماً جس بات پر ہوتا ہے وہ اصل مسئلے کا نتیجہ ہوتی ہے اصل مسئلہ نہیں۔
یاد رکھیے! آپ کے شریکِ حیات آپ کا ذہن پڑھنے پر قادر نہیں۔ وہ آپ کے بتائے بغیر جان بھی نہیں سکتے کہ آپ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ اس لیے بے حد ضروری ہے کہ آپ انہیں اُس بات سے آگاہ کریں جو آپ کو ناگوار گزرتی ہے۔ آپ کو کہنا پڑتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کون سی بات آپ کو پریشان کررہی ہے۔ محض اندازہ لگانا کہ آپ کے شوہر یا بیوی کو آپ کے مسئلے کا لازمی ادراک ہے، اور پھر اس مفروضے کی بنیاد پہ نتائج بھی اخذ کرلینا عقل مندی نہیں۔
اگر آپ اور آپ کے شریکِ حیات میں اکثر جھگڑا رہتا ہے اور اس کی وجہ بھی کم و بیش ایک ہی ہو تو آپ کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اصل بات یا وجہ کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کسی اور بات پہ پریشان ہوں اور لاشعوری طور پر دوسری بات یا وجہ کو بنیاد بنا کر اپنے پارٹنر سے جھگڑا کرتے ہوں، یعنی فرسٹریشن کی وجہ کچھ اور ہی ہو۔ مثال کے طور پر آپ کے سسرالی رشتوں سے تناؤ، خواتین کے میکے کا کوئی مسئلہ، کوئی معاشی پریشانی وغیرہ۔
جھگڑوں کی ایک اور وجہ ایک دوسرے کو ’’کوالٹی ٹائم‘‘ نہ دینا بھی ہوسکتا ہے۔ کوالٹی ٹائم سے مراد خالص وہ وقت ہوتا ہے جب آپ ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے ہیں، مثلاً ایک دوسرے سے بات کرنا، ایک ساتھ چائے پینا، واک کرتے ہوئے اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں، خواہشات اور مسائل شئیر کرنا ہے۔ کچھ وقت ضرور نکالیں جب آپ صرف اپنے حوالے سے بات کریں۔ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی، بچوں کے معمول، ان کی شرارتوں پر گفتگو کرنا، پرانے دوستوں اور بچپن کی باتیں وغیرہ۔ اس طرح کی خوشگوار باتیں میاں بیوی کے تعلقات کو مضبوط کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی عادت کو مضبوط کرتی ہیں۔
جھگڑوں کو کم کرنے کے لیے دوسرا اہم کام جو کیا جاسکتا ہے وہ ہے بات چیت سے مسئلے کو حل کرنا، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے اپنے جذبات پر کنٹرول کریں اور بات چیت اُس وقت کریں جب آپ دونوں ہی غصے یا جذباتی کیفیت میں قطعی نہ ہوں۔ اچھے موڈ اور مناسب وقت اور جگہ پر بات کریں۔ عموماً ہمارے ہاں مسائل کو نمٹانے کے لیے بات چیت کا آغاز ماضی کی کسی ناخوشگوار بات، سلوک یا واقعے سے کیا جاتا ہے جو جھگڑے کو سلجھانے کے بجائے کئی اور مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ اپنے ماضی کے جھگڑوں یا ناگوار باتوں کو بار بار نہ دہرائیں۔
اگر آپ واقعی شریکِ حیات سے ہونے والے جھگڑوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بات کا آغاز کسی طنز اور طعنے سے نہ کریں، بلکہ ’’میں اور مجھ سے‘‘ کے جملے سے کریں، یعنی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تعلقات کچھ عرصہ پہلے تک ٹھیک تھے لیکن اب ہم دونوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں جنہیں ہم دونوں مل کر سلجھا سکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ جملے میں ’’تم‘‘ یا ’’تمہیں‘‘ استعمال نہ کریں۔ اس سے شریکِ حیات کچھ سننے اور غور کرنے کے بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کرلیتا ہے کیونکہ اُسے لگتا ہے کہ صرف اُسے موردِ الزام ٹھیرایا جارہا ہے، اور آپ اپنی غلطیوں کے لیے بھی اسے ذمہ دار قرار دیتے/ دیتی ہیں۔
اپنے مسائل پر بات کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے شوہر یا بیوی کے نقطہ نظر سے سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنیں اور سمجھیں۔ ممکن ہے آپ جس معاملے پر جو بھی سوچ رکھتے ہوں، شریکِ حیات کی نظر میں وہ معاملہ قطعی مختلف ہو۔ مثال کے طور پر آپ شادی کے بعد محسوس کرتی ہیں کہ آپ کے شوہر ویسے تو آپ کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ میں پیسے نہیں دیتے، یا بہت لگی بندھی رقم دیتے ہیں اور گھر کے مالی معاملات انہی کے ہاتھ میں ہیں۔
اب اگر آپ اس پر خود ہی منفی سوچنا شروع کریں کہ آپ کے شوہر ظالم ہیں یا کنجوس ہیں وغیرہ۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ ان سے بات کریں اور پوچھیں کہ اس رویّے کی وجہ کیا ہے؟ ہوسکتا ہے اس رویّے کی وجہ صرف اتنی سی ہو کہ انہوں نے اپنے والد کو خوش اسلوبی سے ایسا ہی کرتے دیکھا ہو اور وہ سمجھتے ہوں کہ یہی بہتر طریقہ ہے۔ ممکن ہے آپ ان کی ذمہ داری شیئر کرنے کے فوائد اور اپنے احساسات بتائیں اور وہ اس سلسلے میں آپ کی بات مان کر آپ کا مان بڑھا دیں۔
میاں، بیوی دونوں کبھی انتہائی غصے میں ایک دوسرے سے بحث میں نہ الجھیں یا بات نہ بڑھائیں۔ کوشش کریں کہ خود کو وقت دیں اور غصے اور جذبات پر قابو پاکر ایک دوسرے سے آرام سے بات کریں اور اپنا اختلاف واضح کریں۔ ممکن ہے آپ کے منہ سے غصے یا اشتعال میں کوئی ایسی بات نکل جائے جس پر آپ بعد میں بہت پچھتائیں، آپ نہ چاہتے ہوئے بھی شریک ِ حیات کو تکلیف پہنچانے کا باعث بن جائیں۔ ہم باہمی جھگڑوں میں کئی ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو مسئلہ حل کرنے کے بجائے مزید سنگین بنادیتی ہیں۔
اگر واقعی اپنے عموماً بے مقصد قسم کے جھگڑوں کو کم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو آپ کو درج ذیل چند باتوں پر سختی اور سنجیدگی سے عمل کرنا ہوگا:
٭ انداز گفتگو بہتر بنائیں۔ اگر آپ عموماً شریک ِحیات پر طنز کرنے اور طعنے دینے کے عادی ہیں تو یہ آپ کے رشتے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اچھا اندازِ گفتگو اور اچھے الفاظ کے استعمال سے آپ کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ عزت کرنا اور ایک دوسرے سے عزت سے پیش آنا اس رشتے کی پہلی شرط ہے۔ یاد رکھیے! عزت کا درجہ محبت سے کہیں بلند ہے۔ اس لیے اگر آپ واقعی شریکِ حیات سے محبت کے دعویدار ہیں تو اسے اپنے رویّے، انداز و الفاظ سے ظاہر کرنے کی عادت ڈالیے اور محبت سے پہلے ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھیے۔
٭ہر بات پر اور ہر وقت تنقید یوں تو کسی بھی رشتے کے لیے مناسب نہیں، لیکن میاں بیوی کے رشتے کے لیے تو بہت ہی نقصان دہ ہے۔ جب آپ ہر بات پر یہ کہیں کہ یہ بات تم کبھی یاد نہیں رکھتے یا نہیں رکھتیں… یا یہ کہ کبھی مجھے اہمیت نہیں دیتے یا دیتیں… تو آپ سامنے والے کے بارے میں پہلے ہی منفی فیصلہ صادر کردیتے ہیں، اور یہ بات ایک نئے جھگڑے کا نقطہ آغاز بن جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاشعوری طور پر یا ضد میں آپ اسی طرح کا رویہ رکھنا شروع کردیتے/کردیتی ہیں جس کا شکوہ آپ بڑھا چڑھا کر کرتے ہیں۔
٭ایسی بات مذاق میں بھی نہ کریں جس سے مخاطب کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ مثال کے طور پر آپ خود کو بہت چالاک سمجھتے/ سمجھتی ہیں؟ یا تم میرے گھر والوں سے کبھی سیدھے منہ بات نہیں کرتے/ کرتیں۔ ایسی گفتگو سے مخاطب شرمندگی اور توہین محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح دفاعی پوزیشن میں رہ کر بات کرنا بھی اپ کے لائف پارٹنر کی بے عزتی یا اسے کمتر سمجھنے کا باعث ہوسکتا ہے۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں مرد بیوی سے اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ تمہیں کیا پتا ہمیں باہر کیا کچھ کرنا پڑتا ہے، تمہیں تو گھر بیٹھے سب کچھ مل جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ بیگمات بھی کبھی اپنی ذمے داریوں کا احسان جتانا نہیں بھولتیں۔
٭میاں بیوی ایک دوسرے کے کام اور ذمے داریوں کو منطقی طور پر سمجھیں۔ دونوں ہی کا کام اپنی اپنی جگہ اہم بھی ہے اور ذمے داری والا بھی۔ کوئی کسی سے کمتر یا برتر نہیں، بلکہ کئی صورتوں میں خواتین زیادہ مشکل اٹھاتی ہیں خصوصاً ماں بننے کے مرحلے میں۔ چھوٹے بچوں کی پرورش انتہائی محنت طلب معاملہ ہوتا ہے۔
اگر آپ نے ایک مرتبہ بات چیت سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ جھگڑوں سے بچنے کے لیے آپ دونوں کو اپنے رویوں اور عادتوں میں کچھ تبدیلی لانا لازم ہے تو دیر نہ کیجیے۔ اپنی خامیوں کو پہچانیے اور ان سے اچھی نیت کے ساتھ چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ یہ آسان کام نہیں، لیکن مثبت تبدیلی کے لیے بعض اوقات مشکل مراحل سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ آہستگی سے ہی سہی لیکن آپ دونوں کے رویّے کی تبدیلی آپ کی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گی۔ لیکن یہ زندگی کے اچھے مرحلوں میں سے ایک مرحلہ ہے۔ ازدواجی زندگی ایک مسلسل سفر ہے جس میں اونچے نیچے راستے آتے رہتے ہیں اور آپ کا مثبت رویہ ہی آپ کی رفاقت کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔
حرفِ آخر
معاف کرنا سیکھیے، یہی ازدواجی زندگی کا سب سے سنہرا اصول ہے۔ شریکِ حیات کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا سیکھیے، ان کے سمجھنے اور تبدیل ہونے پر ان کی حوصلہ افزائی کیجیے، اور جس بات پر انہیں ایک مرتبہ معاف کردیں اسے کبھی نہ دہرائیں۔

حصہ