خالدہ حسین کا انٹریو

1200

غالباً 1970ء کی دہائی اس اعتبار سے اردو کی ادبی دنیا میں یاد رکھی جائے گی کہ ادب کی مختلف اصناف میں نئے تجربات کیے جارہے تھے۔ شاعری میں نثری نظم اور افسانے میں علامتی اور تجریدی اسلوب اختیار کیا گیا تھا۔ ہندوستان میں بلراج منیرا اور سریندر پرکاش اور پاکستان میں راولپنڈی گروپ کے افسانہ نگار، لاہور میں انور سجاد اور کراچی میں دیگر افسانہ نگاروں کے ساتھ خالدہ حسین نے توجہ حاصل کر رکھی تھی۔
خالدہ حسین نے جو شادی سے قبل خالدہ اصغر کے نام سے لکھتی تھیں، 1960ء میں لکھنے کی ابتداء کردی تھی، اسی برس ان کا اوّلین افسانہ ’’دل دریا‘‘ ’’ادب لطیف‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ 2 برس بعد ان کے افسانے ’’مُنّی‘‘ نے پرھنے والوں کو چونکایا۔ ’’ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر ناصر کاظمی تھے جنہوں نے اس افسانے کو اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ چھاپا تھا اور یہ کہہ کر افسانے کو داد دی تھی کہ یہ غیر روایتی افسانہ ہے اور تنہا روحوں کی کتھا ہے۔ ان کی شہرت ادبی دنیا میں اور بڑھ گئی جب ان کا افسانہ ’’ایک بوند لہو کی‘‘ میں انہوں نے بے پناہ غم سے بے حس ہوجانے والے ایک نو عمر کردار کی داخلی کیفیات کو افسانے کا موضوع بنایا۔ یہ تاثیر انگیز افسانہ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’’پہچان‘‘ میں شامل ہے۔ 1962ء سے 1965ء تک کے عرصے میں خالدہ حسین کی افسانہ نگاری کا فن اپنے جوبن پر رہا کہ اس دوران انہوںنے پے در پے ایسے افسانے لکھے جنہوں نے اپنے موضوعات اور اسلوب کی بنا پر اردو افسانے سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ باور کرایا کہ قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے فوراً بعد کی نسل میں ایک اور اچھے افسانہ نگار کا اضافہ ہوگیا۔ ’’ہزار پایہ‘‘، ’’سواری‘‘، ’’نام کی کہانی‘‘ اور ’’آخری سمت‘‘ ایسے افسانے تھے جن کی فضا دھندلی دھندلی، نامانوس اور کچھ کچھ آشنا سے کردار، کہانیاں داخلیت لیے لیکن معنویت کے ابلاغ اور احساسات کے ساتھ۔ ان افسانوں کو علامتی کہا جاسکتا ہے لیکن ان کی نوعیت قطعی وہ نہیں تھی جو علامت نگاری کے نام پر ستر کی دہائی میں افسانے کو ابلاغ سے تہی کرچکی تھی، جس کی وجہ سے افسانے اور قاری کا آپسی ربط ضبط ہی ختم ہوگیا تھا۔
ابھی خالدہ اصغر (خالدہ حسین) کا فن نکھر کر سامنے آنے ہی لگا تھا کہ افسانے کی یہ کھلتی ہوئی کلی سمٹ اور سکڑ کر ایسے لگا جیسے مرجھا گئی۔ خالدہ حسین پر خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا جس میں انہوں نے چپ سادہ لی۔ وجہ وہی تھی جو ہمارے معاشرے میں عورت کا المیہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد عورت عموماً آزادی سے محروم ہوجاتی ہے، گھریلو ذمہ داریوں، سماجی بندھنوں کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ عورت کی تخلیقی صلاحیت تو بسا اوقات ’’احساس جرم‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ خالدہ حسین کے ساتھ کیا ہوا، یہ تو وہی جانیں لیکن ادبی دنیا تو فقط اتنا جانتی ہے کہ تیرہ برس تک خالدہ حسین نے کچھ نہیں لکھا۔ وہ جو افسانے لکھ رہی تھیں، وہ تو خالدہ اصغر تھی، خالدہ حسین بنتے ہی ایسے لگا جیسے لکھتے رہنے کی اُپج اور صلاحیت منجمد ہوگئی اور فن کار کے اندرون پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔
1965ء میں افسانے کا جو سفر تھم گیا تھا۔ 1979ء میں جا کے بحال ہوا۔ جب اردو افسانے کے قاری کو یہ خوشگوار مسرت، قدرے حیرت کے احساس کے ساتھ ملی کہ خالدہ حسین کا افسانہ ’’آدھی عورت‘‘ چھپا ہے۔ افسانے کا عنوان، کچھ تعجب نہیں کہ تیرہ برس کی خموشی کا ترجمان ہو۔
جب ان کا افسانہ ’’ایک بوند لہو کی‘‘ میں نے پڑھا تو عجیب سی یاسیت مجھ پر طاری ہوگئی۔ کم ہی افسانوں نے ایسی کیفیت قلب کے اندر پیدا کی ہوگی۔ ان دنوں وہ پی اے ایف شاہین فائونڈیشن کالج میں پڑھاتی تھیں۔ کالج میں اساتذہ کے اسٹاف کے باہمی روابط ایک خاندان اور ماحول ایک گھر کا سا تھا جہاں خالدہ حسین کا احترام ایسا تھا جیسے کسی خاندان میں اس فرد کا ہوتا ہے جس نے اپنے کسی کارنامے سے خاندان کا نام اونچا کیا ہو۔ اسٹاف نے یہ سن کر کہ خالدہ حسین کا انٹرویو ہوگا مجھے بھی خاصی عزت دی۔ اور پھر ہماری یہ گفتگو دیر تک جاری رہی۔ وہ مجھے سلجھی ہوئی مگر کچھ اُلجھی ہوئی سی بھی لگیں۔ زندگی کے کچھ بنیادی مسائل جو آدمی کو کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے ہی تذبذب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ پھر ایک دن اطلاع ملی خالدہ حسین کے میاں کا اسلام آباد تبادلہ ہوگیا اور وہ اپنے اصل خاندان سے جدا ہو کر دارالحکومت جابسیں۔ اب بھی وہیں ہیں۔ درمیان میں انہوں نے پی ٹی وی کے لیے ڈرامے وغیرہ بھی لکھے۔ افسانوں اور ناول کی مل ملاکر چھ کتابیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ بلاشبہ خالدہ حسین کا تخلیقی سفر مائل بہ پیش رفت رہا ہے۔ انہوں نے افسانے کونئی جہتوں سے بھی آشنا کیا ہے لیکن اس کا قلق بہرحال رہے گا کہ ان کا جیسا آغاز تھا، جو اٹھان تھی ان کی افسانہ نگاری کی، جو امیدیں اور توقعات باندھی گئیں تھیں ان کے فن سے… وہ کچھ ادھوری سی رہ گئیں… کوئی بڑا ’’بریک تھرو‘‘ پھر ان کی جانب سے نہ ہوسکا۔ افسانوں کے مجموعے تو آئے لیکن وہ جو 1960ء میں جس طرح انہوں نے چونکایا تھا… مگر خیر، کسی فن کار کے لیے جتنی بلندی مقدر ہوتی ہے، کچھ یا بہت کچھ دخل اس کا بھی ہوتا ہے کہ نہیں پہنچ پاتا، فن کار وہاں تک جہاں تک پہنچنے کی اُمید ہوتی یا اندازہ ہوتا ہے، کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میںسانس اکھڑ جاتی ہے۔
خالدہ حسین لاہور میں 18 جولائی 1938ء کو پیدا ہوئیں۔ لاہور کالج برائے خواتین سے گریجویشن کیا اور پھر اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی سند لی۔
تصانیف:
افسانے اور ناول:
-1 پہچان (1981ء)
-2 دروازہ (1983ء)
-3 مصروف عورت (2014ء)
-4 ہیں خواب میں ہنوز
-5 میں یہاں ہوں
-6 کاغذی گھاٹ (ناول)
-7 مجموعہ (اس میں ان کی جملہ کتابیں شامل ہیں۔)
طاہر مسعود: آپ کی کہانیاں Introvert ہوتی ہیں اور زندگی کی داخلی اور مبہم تصویریں پیش کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ادب کے عام قاری کے لیے آپ کی کہانیوں کی تفہیم دشوار ہوجاتی ہے۔ کیا آپ وضاحت کرنا پسند کریں گی کہ ایسا کیوں ہے؟
خالدہ حسین: کہانی کی بنیادی ضرورت سچائی ہے، خلوص اور لکھنے والے کا تجربہ ہے۔ لکھنے والے کی شخصیت کے ساتھ زندگی کی زندگی کے تجربات کی نوعیت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ میں لکھتے وقت داخل اور خارج میں حد بندی نہیں کرتی ہوں، جو چیز خارج میں موجود ہے اس کا تجربہ کرنے سے وہ داخلی تجربہ بن جاتا ہے۔ ابہام ہر چیز میں موجود ہے۔ ہر چیز کسی نہ کسی صورت میں مبہم ہے۔ ادب کا مقصد ابہام کو سامنے لانا اور اسے منکشف کرنا ہے۔ اگر میری کہانیوں میں ابہام نظر آتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں جان کر ابہام پیدا کرتی ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پڑھنے والوں میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو اس ابہام کا تجزیہ کرسکیں۔ میں اپنے تجربے میں لوگوں کو شریک کرتی ہوں اور ان سے کہتی ہوں کہ کیا تم بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہو؟ زندگی مجھ پر جس طرح وارد ہوتی ہے میں لکھ دیتی ہوں۔ جو چیز مجھ تک جس طرح پہنچتی ہے میں ویسے ہی پہنچا دیتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگوں نے زندگی کو اسی طرح محسوس کیا ہوگا۔ میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو پڑھا ہے جنہوں نے دنیا کو اسی طرح محسوس کیا۔
طاہر مسعود: یعنی قاری آپ کے نزدیک ایک ایسا آدمی ہے جسے آپ نہیں جانتیں اور نہ ہی اہمیت دیتی ہیں؟
خالدہ حسین: لکھتے وقت قاری میرے ذہن میں نہیں ہوتا کہ کسی کے پڑھنے کی خاطر میں یہ لکھ رہی ہوں۔ ایک ہی احساس ہوتا ہے کہ جو چیز مجھ پر شدت سے طاری ہے اسے لکھ دوں۔ میں لوگوں کو ذہن میں رکھ کر نہیں لکھ سکتی اور نہ ہی یہ خطرہ درپیش رہتا ہے کہ پڑھنے والے اسے کیا محسوس کریں گے۔ البتہ لکھنے کے بعد قاری میرے لیے بہت اہم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے میری بہت جلد حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے۔
طاہر مسعود: حوصلہ شکنی کے اس احساس کے بعد جب آپ دوبارہ کہانی لکھنے بیٹھتی ہیں اس وقت آپ کے ذہن میں کیا ہوتا ہے؟
خالدہ حسین: پھر بھی قاری میرے ذہن میں نہیں آتا۔ بنیادی طور پر میں اپنے تجربات کو بدل نہیں سکتی۔ اگر میری تحریر میں کوئی تبدیلی آئے گی تو اپنے تجربات کی وجہ سے آئے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ صحیح ادب میں کوئی فارمولا نہیں بنایا جاسکتا۔ میں فارمولے کے تحت ادب نہیں لکھ سکتی۔ ادیب کی سب سے پہلے کمٹ منٹ خود ادب کے ساتھ ہوتی ہے۔ میری کہانیوں میں داخلیت بہت ہے۔ میری کہانیوں میں معاشرے کی پوری واردات اور تفصیلات موجود ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ داخلی کیسے ہیں؟ اگر داخلی ہوتی تو میں باہر کے ماحول کی بات نہ کرتی۔
طاہر مسعود: ایک نقاد نے مجھ سے کہا کہ خالدہ حسین کی کہانیوں کی زبان بوجھل ہے؟
خالدہ حسین: (ہنس کر) کیا رومینٹک ہونا چاہیے؟
طاہر مسعود: جی نہیں سہل! ان کا کہنا تھا کہ کہانیوں کی زبان کو سہل اور سادہ ہونا چاہیے جیسے منٹو کی نثر۔
خالدہ حسین: زبان اور تجربہ الگ نہیں ہے۔ ہر تجربہ اپنی زبان لے کر آتا ہے۔ وہ اپنی زبان کے ساتھ ذہن میں وارد ہوتا ہے۔ میں زبان کو خوب صورت یا شعوری طور پر رنگین بنانے کی کوشش نہیں کرتی۔ ہاں میرا دھیان لفظوں کی آوازوں کی طرف جاتا ہے۔ کسی لفظ کی آواز صحیح محسوس نہ ہو تو میں اسے بدل دیتی ہوں۔ میری کہانیوں میں شاعرانہ انداز بیاں اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاں تک منٹو کا تعلق ہے وہ اپنے تجربات کے لحاظ سے بالکل صحیح زبان لکھتا تھا۔ اگر میری زبان غیر مانوس یا بوجھل محسوس ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تجربہ ہی ایسا ہے۔ لفظوں کا اپنا احساس اور اپنے شیڈز ہوتے ہیں۔ میری کہانیوں میں آپ کو تشبیہیں نہیں ملیں گی۔ مجھے ان سے الرجی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تجربہ اپنی صحیح صورت میں پڑھنے والوں پر وارد ہوجائے۔ بہت سے افسانہ نگار اگر اداسی کی کیفیت کو بیان کرنا چاہیں گے تو تشبیہہ دیں گے کہ وہ ایسے اداس تھی جیسے کوئی شام۔ اس کے برعکس میں واقعے کے ذریعے اداسی کی کیفیت کو بیان کروں گی۔ اگر میں براہ راست لکھنے والے پر اپنا تاثر (Impact) نہ چھوڑ سکوں تو ظاہر ہے میرا تجربہ کمزور ہے۔ تجربے کی کمزوری لکھنے والوں کی کمزوری ہے۔
طاہر مسعود: مناسب ہوگا کہ اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کے ذہن میں ایک اچھی کہانی کی کیا تعریف ہے؟
خالدہ حسین: اچھی کہانی وہی ہے جس میں ایک خاص قسم کی شدید کیفیت اور تاثر ہو اور پڑھنے والا خود کو اس کے ساتھ آئیڈنٹی فائی کرسکے۔ کہانی پڑھ کر اسے محسوس ہو جیسے یہ اسکا اپنا تجربہ ہے اور اس میں وہی تاثر اور کیفیت منتقل ہوجائے۔
طاہر مسعود: اگر کسی اخباری کالم میں یہ وصف موجود ہو تو کیا وہ افسانے کے ذیل میں آئے گا؟
خالدہ حسین: جی نہیں، اس میں تخلیقی تجربہ شامل ہونا چاہیے۔ صحافت ادب نہیں واقعہ نگاری ہے۔ ادب وہ ہے جس میں زندگی کو کسی خاص انسان کی نظروں سے دیکھا گیا ہو۔ اس میں لکھنے والے کا اپنا تجربہ شامل ہوتا ہے۔ ادب میں بیان کردہ خارجی واقعات میں ادیب کی شخصیت شامل ہوتی ہے اور اس سے ادب میں دل کشی پیدا ہوتی ہے۔
طاہر مسعود: کہانی کی اس تعریف کی روشنی میں اردو کہانی کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
خالدہ حسین: Anti story element ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔ کہانی، انشائیہ یا نثری نظم کی صورت اختیار کرگئی ہے تاہم اب اس کے خلاف ردعمل شروع ہوگیا ہے۔ برصغیر میں لکھے جانے والے افسانے دنیا کے بہترین افسانے ہیں۔ دنیا میں ایسی شارٹ اسٹوری کہیں بھی نہیں لکھی جارہی جیسی افریشیائی ممالک میں۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ مختصر کہانی ہمارے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے حالات میں افسانے کا فارم بہت زیادہ مناسب ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ناول بہت ملیں گے۔
طاہر مسعود: آپ نے نہایت حیرت انگیز بات کہی۔ عام تاثر تو یہ ہے کہ چند ایک افسانہ نگاروں کے سوا ہمارے یہاں اچھے افسانے لکھے ہی نہیں جارہے۔
خالدہ حسین: آج یا کل پر نہ جائیں۔ اب تک جتنے افسانے لکھے گئے ہیں ان کا اوسط نکالیے۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے یہاں کتنے اچھے افسانے لکھے گئے ہیں۔ ہم ان افسانوں کو نہایت اعتمادکے ساتھ باہر کے ادب کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں۔ منٹو، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، سریندر پرکاش بہت سے نام ہیں۔
طاہر مسعود: اردو کے اچھے افسانوں میں تو مغربی افسانوں سے متاثر ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک صاحب نے تو غلام عباس صاحب کی ’’آنندی‘‘ تک کو چربہ قرار دے دیا لیکن آپ اس کے برعکس بات کہہ رہی ہیں۔
خالدہ حسین: کوئی بھی لکھنے والا مطالعے کے بغیر نہیں لکھ سکتا۔ عالمی ادب ہر ایک کی پہنچ میں ہے۔ اثر کی بات تو فروعی بات ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ تجربہ کتنا خالص ہے۔ اور اسے لکھنے والے نے کس طرح منتقل کیا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ