زندگی ،ڈراما اور اداکاری

433

عسکری صاحب نے کہیں انسانوں کو دیا گیا آندرے ژید کا یہ مشورہ نقل کیا ہے کہ اپنا ملک چھوڑ دو، اپنے خیالات چھوڑ دو، اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنا کمرہ ہی چھوڑ دو۔ آندرے ژید کے اس مشورے کی پشت پر مغرب کی قرونِ وسطیٰ کی اُس تہذیب کے خلاف پیدا ہونے والا ردعمل موجود ہے جس میں مذہبی عقائد سے وابستگی ہی سب کچھ تھی۔

وہ مذہبی عقائد جنہیں جدید مغرب Dogma یا منجمد جذبہ قرار دے چکا تھا۔ بہرحال مغربی دنیا نے آندرے ژید کے اس مشورے پر لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے اتنا زیادہ عمل کیا کہ بات عقائد و خیالات سے ہوتی ہوئی ماں باپ اور بیوی بچوں کو چھوڑنے تک آپہنچی ہے، بلکہ مغرب میں پھیلے ہوئے خودکشی کے رجحان کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ نوبت اپنی زندگی کو چھوڑنے تک آپہنچی ہے۔ ایک بے لگام ذہنی آزادی کی انسان کو اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی شاید آندرے ژید نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

مغرب کے ذہنی آزادی کے تصورات نے جو دنیا پیدا کی ہے… تضاد، تصادم اور آویزش اس کا ’’طرۂ امتیاز‘‘ ہیں۔ ان کے بغیر یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ موجودہ عہد میں ڈرامے، فلم اور اداکاری کے ’’فن‘‘ کو بے پناہ ’’ترقی‘‘ حاصل ہوئی ہے۔ ان عناصر کی ترقی کا ’’راز‘‘ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں عصرِ حاضر کے مزاج، روح اور تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔

ولیم شیکسپیئر نے دنیا کو ایک اسٹیج سے تشبیہ دی تھی، اور کہا تھا کہ انسانوں کی حیثیت اُن اداکاروں سے زیادہ نہیں جو اس اسٹیج پر آکر اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شیکسپیئر جدید اور قدیم کے سنگم پر کھڑا ہوا ایک انسان ہے، اور ایک اعتبار سے اس کی حیثیت وہی ہے جو اردو ادب میں غالب کی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ شیکسپیئر نے یہ بات ایک تشبیہ کے طور پر کہی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کا یہ تبصرہ تقدیر و تدبیر کے باہمی تعلق اور اس سے ظہور پذیر ہونے والے مظاہرِ حیات کی نشاندہی کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس میں موجود آفاقیت کو صاف طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ہماری دنیا شیکسپیئر کا اسٹیج بھی نہیں ہے۔

ہماری دنیا ہالی ووڈ کی فلم کا پردہ اور عام تھیٹر کا اسٹیج بن چکی ہے اور انسانوں کی بہت بڑی تعداد کی حیثیت عام اداکاروں کی سی ہوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری زندگی میں ڈرامائی عنصر اور اداکاری کے مزاج کی کارفرمائی بہت بڑھ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں یعنی تضاد، تصادم اور آویزش سے بھرپور ماحول۔ تاہم دوسری وجہ یہ ہے کہ اس ماحول سے جو تقاضے ابھرتے ہیں وہ انسان کو مسلسل یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ جو کچھ اور جیسا کچھ ہے، ٹھیک اور کافی نہیں۔ ٹھیک اور کافی ہونے کے لیے اسے اور کچھ ہونا چاہیے۔ کیا ہونا چاہیے؟ اس کا کوئی واضح تصور انسانوں کے ذہن میں موجود نہیں، اور یہ ایک فطری بات ہے۔

ہر آن بدلتے اور بگڑتے ہوئے ماحول میں اس قسم کے تصور کا کوئی واضح تعین ہو ہی نہیں سکتا۔ انسان چونکہ جو کچھ اور جیسا کچھ ہے اس سے مطمئن نہیں ہوتا، اور وہ کچھ اور بننا چاہتا ہے، اس لیے اسے محسوس ہوتا ہے کہ زبان و بیان اور اظہار کے طریقے بھی ’’کچھ اور‘‘ ہونے چاہئیں۔

ابھی چند روز پیشتر میری بڑی بیٹی نے جس کی عمر صرف چھ سال ہے، مجھے نہایت جوش و خروش کے ساتھ بتایا کہ اس نے آج کمال کردیا۔ اس نے بتایا کہ آج اس کی خالہ دوسرے بچوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں اور اس پر توجہ نہیں دے رہی تھیں تو اس نے پانی کے قطرے اپنی آنکھوں کے نیچے گرا لیے اور یہ تاثر دیا کہ گویا وہ رو رہی ہے، اس حرکت کے ذریعے وہ اپنی خالہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

ظاہر ہے کہ یہ محض ٹیلی ویژن کا اثر نہیں ہے، یہ محض ذہانت بھی نہیں ہے، یہ ڈرامے اور اداکاری کے اس رجحان کا شاخسانہ ہے جو عہدِ حاضر کا مجموعی مزاج اور رُوح بن کر ہمارے سامنے آرہا ہے اور جس سے صرف بچے ہی نہیں جوان اور بوڑھے بھی متاثر ہورہے ہیں۔

کیا آپ یہ بات محسوس نہیں کرتے کہ انسانوں کے مابین عمومی بات چیت کی زبان تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ بدلنے کا مفہوم یہاں یہ ہے کہ اس پر ڈرامے اور اداکاری کے اثرات غالب آتے جارہے ہیں۔ ہم اکثر لوگوں کو باتیں کرتے دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ باتیں نہیں کررہے ہیں، ’’مکالمے‘‘ بول رہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ اندیشہ ہے کہ ہم بات کو سیدھے سادے انداز میں کہیں گے تو وہ مؤثر نہیں ہوگی، لوگ اس پر توجہ نہیں دیں گے۔ یہ اندیشہ غلط نہیں ہے۔ نرم لہجے، دھیمے الفاظ متروک اور فنا ہورہے ہیں۔

یہاں نرمی اور دھیمے پن سے مراد وہ لہجے اور الفاظ نہیں ہیں جو کسی کمزوری یا خوف کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ذرا اخبارات کی زبان اور خاص طور پر ان کی سرخیوں کو دیکھیے۔ یہ ادبی معنی میں ڈرامے کی زبان نہ سہی لیکن بہرحال ہے ڈرامے کی زبان… بلند آہنگ، آویزش کا سراغ دیتی ہوئی۔

دنیا بھر میں ٹیلی ویژن پر حکمرانوں اور سیاست دانوں کا انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ٹیلی ویژن کی رسائی زیادہ لوگوں تک ہوتی ہے اور اس کے ذریعے حالات و واقعات براہِ راست انداز میں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

یہ دونوں باتیں درست ہیں، لیکن ٹیلی ویژن پر حکمرانوں اور سیاست دانوں کے بڑھتے ہوئے انحصار کا بنیادی سبب اور کچھ ہے۔ دراصل یہ لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر عام چیز بھی میڈیم یعنی خود ٹیلی ویژن کے سبب اور کچھ ٹیلی ویژن پر نمودار ہونے والی متحرک تصویر کے سبب ’’ڈرامائی‘‘ ہوجاتی ہے اور اس آلے کے ذریعے انسان وہ کچھ بنتا نظر آتا ہے جو وہ نہیں ہوتا اور جو کہ وہ بننا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن سے ناظرین گہرا اثر قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ خود انہی عناصر کے زیراثر ہوتے ہیں۔

ڈرامے اور اداکاری کے ان رجحانات نے زندگی کے ہر گوشے اور شعبے پر اثر ڈالا ہے۔ یہ الگ بات کہ کہیں ان میں سے ایک رجحان موجود ہے اور کہیں دوسرا، اور کہیں بیک وقت دونوں۔ ڈراما زندگی اور کائنات میں شامل ہے مگر اس کا تناظر سراسر آفاقی یا Cosmic ہے۔ میرؔ کا مشہور شعر ہے:

وجہِ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

اس شعر میں جو کچھ بھی ہے وہ آفاقی ڈرامے کا حصہ ہے۔ غالب کے یہاں زمینی ڈرامے کا عنصر بڑھا ہوا ہے۔ اردو کا سب سے بڑا ڈراما نگار اقبال ہے جس کے یہاں آفاقی ڈرامے کے ساتھ ساتھ تہذیبی، تاریخی، سماجی اور سیاسی ڈرامے کے بھی کمیاب اور نایاب عناصر ملتے ہیں۔

برصغیر کے مسلمان جس تہذیبی اور تاریخی ڈرامے کا حصہ رہے ہیں اس کے بعض عناصر اور اس کی بعض جہتیں اور گوشے ہیں جو صرف اکبر الٰہ آبادی کی زبان اور اسلوب میں بیان ہوسکتے تھے، اور بعض پہلو، گوشے اور جہتیں ایسی تھیں جن کے اظہار کے لیے صرف اقبال جیسا بڑا ذہن اور اس ذہن سے پیدا ہونے والا اسلوب ہی کفایت کرسکتا تھا۔ اقبال کے بعد اردو شاعری میں خواہ وہ غزل کی شاعری ہو یا نظم کی شاعری… ڈرامے کا عنصر بڑھا ہے۔ اجمل سراج کا ایک شعر ہے ؎

دیکھ رفتار عالم ایجاد
نیند میں چل رہی ہے دنیا دیکھ
عباس عالم کا شعر ہے ؎
بند ہوتے ہوئے بازار کا منظر ہے یہاں
ایک دو پل کا تماشہ ہے ٹھہر جاتے ہیں

ان دونوں شعروں میں آپ ڈرامائی عنصر کی بھرپور کارفرمائی دیکھ سکتے ہیں۔ ظفر اقبال کا ایک شعر ہے ؎

درِ امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں
تو یاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے

یہ ایک اور طرح کا ڈراما ہے جس میں اداکاری کا عنصر بھی بالکل واضح ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ نے پروین شاکر کی یہ

نظم پڑھی ہو:
میں تو وہ لڑکی ہوں
جسے کوئی پہلی رات ہی
گھونگھٹ اٹھا کے یہ کہہ دے
کہ میرا سب کچھ تیرا ہے
دل کے سوا

اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک پست درجے کا ڈراما اور اس سے کہیں زیادہ پست درجے کی اداکاری ایک دوسرے سے گلے ملتے نطر آتے ہیں۔ جدید شاعری کی ہزاروں نظموں اور اس سے زیادہ غزل کے شعروں میں اس نوعیت کے ڈرامے اور اداکاری کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔

بلاشبہ قرۃ العین حیدر اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں، مگر ان کے ناولوں میں آفاقی، تہذیبی اور تاریخی و سیاسی ڈرامے کا عنصر غالب ہے۔ منٹو کے افسانے میں افسانہ کم اور ڈراما زیادہ ہے۔

بات آندرے ژید سے شروع ہوئی تھی اور منٹو تک آپہنچی ہے، اور یہ بات بجائے خود ایک ڈرامائی صورتِ حال کی عکاس ہے۔ آخر میں کہنا یہ ہے کہ فی زمانہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے عہدہ یا پیشہ اور رہائشی علاقہ پہلے پوچھتے ہیں۔ معاف کیجیے گا ہمیں تو اس قسم کے سوالات اور ان کے جوابات میں بھی ڈرامے اور اداکاری کے جراثیم نظر آتے ہیں۔

حصہ