قیصر وکسریٰ قسط (31)

182

’’تم مجھے اپنی سرگزشت سنا سکتے ہو؟‘‘
وطن سے نکلنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا جو عاصم کو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اب اُسے اپنی نیند یا تھکاوٹ کا کوئی احساس نہ تھا۔ ’’اُس نے احسان مندی کی نطر سے فرمس کی طرف دیکھا اور کسی توقف کے بغیر اپنی سرگزشت سنانی شروع کردی۔
جب وہ سمیرا اور عدی اور اُس کے بیٹوں کی موت کے واقعات سنا رہا تھا تو اُس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے پھر جب اُس نے اپنا قصہ ختم کیا تو فرمس نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’عاصم! تم آلام و مصائب کی اس دنیا میں تنہا نہیں ہو۔ آج پوری انسانیت اپنے مقدر کی تاریکیوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھاگ رہی ہے۔ میں دس برس کا تھا جب میرے باپ کو اسکندریہ کے راہبوں نے صرف اِس لیے زندہ جلادیا کہ اُس نے عیسائی ہوتے ہوئے رہبانیت کی مخالفت میں آواز بلند کی تھی۔ دو سال بعد میرے بڑے بھائی کو رومی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں، بابلیون کے ایک چوراہے پر پھانسی دی گئی۔ اس کے بعد میں قریباً آٹھ سال کبھی مصر، کبھی شام اور کبھی آرمینیا کی خاک چھانتا رہا۔ میرا دل نفرت و انتقام کے جذبات سے لبریز تھا لیکن رفتہ رفتہ زندہ رہنے کی خواہش میرے جذبات پر غالب آگئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں ایک بے بس انسان ہوں اور زمانے کی گردش کا رُخ بدل دینا میرے اختیار میں نہیں۔ ‘‘ میں صرف کلیسا کی فرمانبرداری اور حکومت کی اطاعت کرکے زندہ رہ سکتا ہوں، پھر میں نے اسکندریہ کی ایک سرائے میں ملازمت کرلی۔ سرائے کا مالک ایک شریف آدمی تھا اُس نے میری محنت اور دیانتداری کی قدر کی اور دو سال بعد مجھے اپنے کاروبار میں حصہ دار بنالیا۔ اسی سال ایک شریف خاندان کی لڑکی سے میری شادی ہوگئی۔ اگلے سال سرائے کا مالک مرگیا چونکہ اُس کے کوئی اولاد نہ تھی اِس لیے اُس کے بھائی اُس کی جائیداد کے وارث بن گئے۔ اور میں نے اُن سے اُلجھنے کے بجائے علیحدہ تجارت شروع کردی۔ میرے پاس زیادہ سرمایہ نہ تھا لیکن میری بیوی کے بھائی نے میری مدد کی اور میں جلد ہی اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا۔ پھر ایک سال مجھے تجارت کے سلسلہ میں یروشلم آنا پڑا۔ ہمارا قافلہ گرمیوں کی دوپہر گزارنے کے لیے اس جگہ اُتر پڑا۔ ان دنوں یہ پرانی عمارت خالی پڑی تھی اور سڑک کے دوسری طرف صرف نانبائی کی ایک دکان تھی۔ ہم نے وہاں کھانا کھایا اور نانبائی سے گفتگو کے دوران میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ عمارت ایک قدیم سرائے ہے جو کئی بار اُجڑی اور کئی بار آباد ہوئی ہے۔ چند سال قبل ڈاکوئوں نے یہاں ایک قافلے کو لوٹ کر سرائے کے مالک کے ایک بیٹے کو قتل کردیا تھا۔ اُس وقت سے یہ سرائے بند پڑی تھی اور اس کا موجودہ وارث جو اب یروشلم کا ایک بہت بڑا تاجر ہے اس کے قریب سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ مجھے یہ جگہ پسند آگئی اور میں نے نانبائی سے اس کے مالک کا پتا پوچھ لیا۔
اگلے ہی دن اس کے مالک سے میرا سودا ہوگیا۔ اُس نے جو قیمت مانگی وہ میری توقع سے بہت ہی کم تھی۔ اس عمارت کی حالت بے حد خراب تھی۔ لیکن مجھے توقع تھی کہ اس کی مرمت پر جو رقم صرف ہوگی وہ رائیگاں نہیں جائے گی۔ یہ کمرہ میں نے بذاتِ خود بڑی حیثیت کے لوگوں کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ میں ایک سال تک اسکندریہ نہ جاسکا لیکن اس عرصہ میں میرا کاروبار اس قدر ترقی کرچکا تھا کہ پڑوس کے نانبائی نے اپنی دکان بند کرکے میرے ہاں ملازمت کرلی۔ لیکن اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے صرف ایک منفعت بخش تجارت ہی کافی نہ تھی۔ میں یہ جانتا تھا کہ ماضی کے تاریک سائے اب بھی میرا پیچھا کررہے ہیں اور حکومت کے کسی ادنیٰ عہدہ دار کلیسا کے کسی معمولی راہب کی ناراضگی میری تباہی کا باعث ہوسکتی ہے۔ میرے خلاف ان دو جابر اور بے رحم طاقتوں کو حرکت میں لانے کے لیے کسی دشمن کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ میرا باپ کلیسا اور میرا بھائی حکومت کا باغی تھا۔ چنانچہ میں اپنی کمائی کا ایک حصہ حکومت کے اہل کاروں اور کلیسا کے اکابر کی دوستی خریدنے پر صرف کیا کرتا ہوں۔ اگر وہ اس طرف سے گزریں تو میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ چند ساعت وہ میرے پاس قیام کریں اور میں اُن کی خدمت کروں۔ اگر وہ میرے پاس نہیں آتے تو میں خود تحائف لے کر اُن کی خدمت میں پہنچ جاتا ہوں۔ ایک مرتبہ یروشلم کا بشپ صرف پانی پینے کے لیے یہاں رُکا تھا لیکن میں نے چاندی کے برتنوں میں اُسے کھانا کھلایا اور پھر یہ برتن اُسے بطور نذرانہ پیش کردیے۔ دوسری مرتبہ وہ یہاں آیا تو میں نے عرض کیا کہ میرا آبائی وطن بابلیون ہے لیکن میں وہان صرف اس لیے نہیں جاسکتا کہ میرے باپ اور بھائی کی بعض غلطیوں کے باعث وہاں کلیسا اور حکومت سے میری وفاداری کے متعلق بھی شکوک پیدا ہوچکے ہیں۔ میرے حال پر وہ اِس قدر مہربان ہوا کہ مجھے بابلیوں کے بشپ کے نام ایک خط لکھ کر دے گیا۔ اس خط کا مفہوم یہ تھا کہ ہم نے کسی مصری کو فرمس سے زیادہ رومی سلطنت کا وفادار اور کلیسا کا جان نثار نہیں دیکھا۔ اگر بابلیوں میں اس نیک مخلص اور ایثار پیشہ آدمی کے متعلق کوئی غلط فہمی پائی جاتی ہے تو اسے دور کرنا آپ کا فرض ہے۔ پھر میں بابلیون گیا اور وہاں کے بشپ کو یہ خط اور اپنی طرف سے سونے کا ایک پیالہ پیش کیا۔ اور اس کے بعد میری ماضی کی ساری سیاہی دُھل چکی تھی۔ میرا آبائی مکان جو حکومت نے ضبط کرلیا تھا مجھے واپس مل چکا ہے۔ پطیوس کو میں نے اچھی قسم کی شراب پیش کی تھی اور اس کے بعد سے وہ میرا دوست ہے۔
تم مجھے ایک دوست سمجھ کر یہاں آئے ہو اور میں تم سے یہ باتیں اس لیے کررہا ہوں کہ تمہیں میرے متعلق کوئی خوش فہمی نہ رہے۔ ظاہری اعتبار سے میں ایک کامیاب آدمی ہوں لیکن امن اور سکون کی زندگی اختیار کرنے کے بعد میں نے ہر قدم پر یہ محسوس کیا ہے کہ میرا ضمیر مرچکا ہے۔ میں نے صرف اپنے جسم کی آسائش کے سامان فراہم کیے ہیں لیکن میری روح تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔ میں ظلم، جہالت،سفاکی اور بربریت کے خلاف اپنے ضمیر کی چیخیں سنتا ہوں لیکن ظالموں کو خوش رکھنے کے لیے مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب میں مرنا چاہتا تھا تو میری روح زندہ تھی۔ میں نیک و بد کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرسکتا تھا۔ اور جب میں نے زندہ رہنا ہی زندگی کا مقصد بنالیا تو میں اس دنیا میں ایک انسان کا حقیقی مقام کھو چکا تھا۔
میں رومیوں کی غلامی کو ایک لعنت سمجھتا ہوں لیکن میں نے ہر رومی کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ میں تمہیں انسانیت کا محسن خیال کرتا ہوں۔ مجھے کلیسا کے اُن خدائوں سے نفرت ہے جنہوں نے خانقاہوں کو زندہ انسانوں کا قبرستان بنادیا ہے لیکن مجھ میں یہ حوصلہ نہیں کہ اُن کے خلاف زبان کھول سکوں۔
میں نے یہ راستہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ میں ایک کمزور انسان تھا لیکن تم مجھ سے مختلف ہو۔ تمہارے متعلق میں یہ جانتا ہوں کہ تم طوفانوں سے لڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہو۔ تم زیادہ عرصہ ایک خاموش اور پرسکون زندگی پر قانع نہیں رہ سکو گے۔ پچھلی مرتبہ جب تم اِس سرائے میں اُس دیوقامت شامی پر ٹوٹ پڑے تھے تو میں بار بار یہ سوچتا تھا کہ کاش میری زندگی میں بھی چند ایسے لمحات آسکتے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں خونخواری کو پسند کرتا ہوں۔ مجھے خون بہانے سے نفرت ہے لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جب کسی ظالم کی مخالفت یا کسی مظلوم کی حمایت میں اپنا خون اور گوشت پیش کردینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے تو ایک انسان کے لیے اس سے بڑی ذلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اُس کا ہاتھ اپنی تلوار کے قبضے تک نہ پہنچ سکے اور اُس کے ضمیر کی آواز اُس کے ہونٹوں تک نہ آسکے لیکن میں کئی بار اس قسم کی ذلتیں دیکھ چکا ہوں۔ اور آج جب میں اپنے سامنے ایک ایسے نوجوان کو دیکھتا ہوں جس کے ضمیر کی آواز نے اُسے اپنے دشمنوں کی حمایت میں تلوار اٹھانے پر آمادہ کردیا تھا تو مجھے اپنی کمزوری پر شرم و ندامت محسوس ہوتی ہے۔ عاصم! تم بہت بڑا صدمہ اٹھا چکے ہو لیکن تم کمزور یا بے بس نہیں ہو۔ تم نے کوئی جرم، کوئی غلطی یا کوئی گناہ نہیں کیا۔ صرف اپنے لیے ایک نیا راستہ تلاش کیا تھا، اگر تمہارے پائوں زخمی ہوگئے ہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ راستہ غلط تھا۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ایک اولوالغرم انسان میرے پاس آیا ہے اور میں تمہیں یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ تم پامال شدہ گزرگاہوں پر چلنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے… تم عام انسانوں سے مختلف ہو۔
اب تم آرام سے سوجائو۔ جب تمہاری تھکاوٹ دور ہوجائے گی تو ہم اطمینان سے باتیں کریں گے۔ ممکن ہے میں تمہارے لیے کوئی ایسا مشغلہ سوچ سکوں جو تمہاری طبیعت کے موافق ہو‘‘۔
فرمس عاصم کے کندھے پر تھپکی دے کر اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
O
عاصم گہری نیند سو رہا تھا۔ فرمس اور اُس کا نوکر ایک معمر عورت اور ایک دوشیزہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ نوکر نے ایک گٹھڑی جس سے ان خواتین کے لباس کی طرح پانی ٹپک رہا تھا۔ ایک کونے میں رکھ دی اور انگیٹھی میں بجھتے ہوئے انگاروں پر چند لکڑیاں رکھ کر آگ جلانے میں مصروف ہوگیا۔
فرمس نے رومی زبان میں کہا۔ ’’مجھے دوپہر کے وقت پطیوس کا پیغام مل گیا تھا۔ لیکن یہ توقع نہ تھی کہ آپ اس موسم میں یروشلم سے نکلنا پسند کریں گی۔ میں ابھی آپ کا کمرہ خالی کرادیتا ہوں‘‘۔
عورت نے جس کی شکل و صورت اُس کے عالی نسب ہونے کی گواہی دیتی تھی، کہا ’’یہاں کسی غیر معتمد آدمی کو ہماری آمد کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کون ہے؟‘‘
’’یہ ایک مصیبت زدہ انسان ہے، میں اسے جانتا ہوں اور آپ اس پر اعتماد کرسکتی ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر فرمس نے عاصم کو جگانے کی کوشش کی لیکن اُس نے آنکھیں کھولنے کے بجائے کچھ بڑبڑا کر کروٹ بدل لی۔
عمر رسیدہ عورت نے کہا۔ ’’ٹھہرو! اسے جگانے کی ضرورت نہیں۔ ہم بہت جلد یہاں سے نکل جانا چاہتے ہیں۔ خدا کرے بارش تھم جائے۔ ہم دمشق پہنچنے سے پہلے اطمینان کا سانس نہیں لے سکتے‘‘۔
فرمس نے قدرے پریشان ہو کر پوچھا۔ ’’آپ تنہا دمشق کا سفر کرنا چاہتی ہیں؟‘‘
’’اگر تم کوئی قابل اعتماد آدمی نہ دے سکے تو پھر ہمیں تنہا ہی سفر کرنا پڑے گا۔ ہمارے نوکر ہمارے ساتھ نہیں آسکے‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’آپ بہت پریشان ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی مصیبت میں گرفتار ہیں‘‘۔
’’پطیوس نے تمہیں کچھ نہیں بتایا؟‘‘
’’انہوں نے مجھے صرف یہ پیغام بھیجا تھا کہ یروشلم سے دومعزز خواتین رات کے وقت یہاں پہنچیں گی۔ اور مجھے اُن کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پطیوس کا معمولی سا اشارہ بھی میرے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے اور آپ مجھ پر اعتماد کرسکتی ہیں۔ لیکن میں حیران ہوں کہ انہوں نے رات کے وقت آپ کو تنہا کیسے بھیج دیا‘‘۔
عمر رسیدہ عورت نے جواب دیا۔ ’’اُس نے اپنے دو سپاہی ہمارے ساتھ روانہ کیے تھے اور وہ ہمیں تمہارے سرائے کے باہر چھوڑ کر واپس چلے گئے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ انہیں یہاں کوئی ہمارے ساتھ دیکھ لے۔ شاید صبح ہوتے ہی یروشلم میں ہماری تلاش شروع ہوجائے۔ اُن ظالموں ے ہمارے ایک نوکر کو ہلاک کردیا ہے اور دوسرے کو گرفتار کرکے لے گئے ہیں۔ وہ اُن سے یہ کہلوانا چاہتے تھے کہ میں اور میری بیٹی یروشلم میں ایرانیوں کی جاسوسی کررہی ہیں۔ یروشلم کے حاکم کو، تو ہم پر دست درازی کی جرأت نہیں ہوئی لیکن اُس کا اشارہ پا کر بعض راہبوں نے عوام کو ہمارے خلاف بہت مشتعل کردیا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ اگر ایرانی لشکر دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد یروشلم کی طرف بڑھا تو وہ ہماری بوٹیاں نوچ ڈالیں گے۔ یروشلم کا حاکم اِس بات پر تُلا ہوا تھا کہ ہم وہاں سے زندہ بچ کر نہ نکل سکیں‘‘۔
فرمس نے پوچھا۔ ’’وہ آپ کا دشمن کیوں تھا؟‘‘
’’وہ میرے والد کے ماتحت ایک نہایت معمولی افسر کی حیثیت سے کام کرچکا ہے۔ اور اُسے وہ زمانہ نہیں بھلا جب میں نے اُس کے منہ پر تھپڑ لگائے تھے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ