شعرو شاعری

581

میر تقی میر
پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہرِ گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
چارہ گری بیماریِ دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
ورنہ دلبرِ ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
…٭…
ریاضؔ خیرآبادی
درد ہو تو دوا کرے کوئی
موت ہی ہو تو کیا کرے کوئی
نہ ستائے کوئی انہیں شبِ وصل
ان کی باتیں سنا کرے کوئی
بند ہوتا ہے اب درِ توبہ
در مے خانہ وا کرے کوئی
قبر میں آ کے نیند آئی ہے
نہ اٹھائے خدا کرے کوئی
تھیں یہ دنیا کی باتیں دنیا تک
حشر میں کیا گلا کرے کوئی
نہ اٹھی جب جھکی جبینِ نیاز
کس طرح التجا کرے کوئی
بوسہ لیں غیر دیں سزا ہم کو
ہم ہیں مجرم خطا کرے کوئی
بگڑے گیسو تو بولے جھنجھلا کر
نہ بلائیں لیا کرے کوئی
نزع میں کیا ستم کا موقع ہے
وقت ہے اب دعا کرے کوئی
حشر کے دن کی رات ہو کہ نہ ہو
اپنا وعدہ وفا کرے کوئی
نہ ستائے کوئی کسی کو ریاضؔ
نہ ستم کا گلا کرے کوئی
…٭…
مصطفیٰ خاں شیفتہ
اٹھ صبح ہوئی مرغِ چمن نغمۂ سرا دیکھ
نورِ سحر و حسن گل و لطف ہوا دیکھ
دو چار فرشتوں پہ بلا آئے گی نا حق
اے غیرتِ ناہید نہ ہو نغمہ سرا دیکھ
منت سے مناتے ہیں مجھے میں نہیں منتا
اوضاعِ ملک دیکھ اور اطوارِ‌گدا دیکھ
گر بو الہوسی یوں تجھے باور نہیں آتی
اک مرتبہ اغیار کے قابو میں تو آ دیکھ
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اک دم کے نہ ملنے پہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے
اے شیفتہؔ مایوسیٔ امید فضا دیکھ
…٭…
عبد الحمید عدم
اتنا تو دوستی کا صلہ دیجئے مجھے
اپنا سمجھ کے زہر پلا دیجئے مجھے
اٹھے نہ تاکہ آپ کی جانب نظر کوئی
جتنی بھی تہمتیں ہیں لگا دیجئے مجھے
کیوں آپ کی خوشی کو مرا غم کرے اداس
اک تلخ حادثہ ہوں بھلا دیجئے مجھے
صدق و صفا نے مجھ کو کیا ہے بہت خراب
مکر و ریا ضرور سکھا دیجئے مجھے
میں آپ کے قریب ہی ہوتا ہوں ہر گھڑی
موقع کبھی پڑے تو صدا دیجئے مجھے
ہر چیز دستیاب ہے بازار میں عدمؔ
جھوٹی خوشی خرید کے لا دیجئے مجھے
…٭…
اجمل سراج
تیرے سوا کسی کی تمنا کروں گا میں
ایسا کبھی ہوا ہے جو ایسا کروں گا میں
گو غم عزیز ہے مجھے تیرے فراق کا
پھر بھی اس امتحان کا شکوہ کروں گا میں
آنکھوں کو اشک و خوں بھی فراہم کروں گا میں
دل کے لیے بھی درد مہیا کروں گا میں
راحت بھی رنج، رنج بھی راحت ہو جب تو پھر
کیا اعتبارِ خواہش دنیا کروں گا میں
رکھا ہے کیا جہان میں یہ اور بات ہے
یہ اور بات ہے کہ تقاضا کروں گا میں
یہ رہ گزر کہ جائے قیام و قرار تھی
یعنی اب اس گلی سے بھی گزرا کروں گا میں
یعنی کچھ اس طرح کہ تجھے بھی خبر نہ ہو
اس احتیاط سے تجھے دیکھا کروں گا میں
ہے دیکھنے کی چیز تو یہ التفات بھی
دیکھو گے تم گریز بھی ایسا کروں گا میں
حیران و دل شکستہ ہوں اس حالِ زار پر
کب جانتا تھا اپنا تماشا کروں گا میں
ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے
اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں
…٭…
افتخار عارف کے پسندیدہ اشعار
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
…٭…
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
…٭…
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
…٭…
خاک میں دولت پندار و انا ملتی ہے
اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے
…٭…
روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ
رزق برحق ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
…٭…
انور مسعود
جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلی سے بڑھ کے تھی
ہر ضرب کربناک پہ میں تلملا اٹھا
پانی رسوئی گیس کا بجلی کا فون کا
بل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اٹھا
…٭…

قابل اجمیری کے اہم اشعار

ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
…٭…

مشیرکاظمی
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
……
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
……
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
……
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارہ نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارہ نہیں
……
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
……
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارہ نہیں
……
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
قوم کی ماؤں بہنوں کی جو آبرو
نقشہ ایشیاءمیں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارہ نہیں
……
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
…٭…

افتخار عارف کے پسندیدہ اشعار
مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
…٭…
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
…٭…

حصہ