میں بھی ٹریفک میں پھنس گیا

200

’’عجیب شہر ہے نہ گھر میں سکون اور نہ ہی باہر پانی، بجلی اور گیس پہلے ہی ناپید تھے اب تو سڑکوں پر بھی برا حال ہے میرا مطلب ہے ایک نیا مسئلہ ٹریفک جام کی صورت مزید کھڑا ہو گیا ہے اب تو بروقت گھروں کو لوٹنا بھی کوئی آسان کام نہیں‘‘
’’عارف بھائی آپ لمبے سفر پر کبھی کبھار نکلتے ہیں اس لیے آپ کو اندازہ نہیں یہ روز کا معمول ہےاس شہر میں ٹریفک جام ہونا کوئی نئی بات نہیں،کراچی کی سڑکوں پر سفر کرنے والا ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ٹریفک جام کراچی کے شہریوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں بلکہ یہاں کے رہنے والے کئی برسوں سے اس عذاب کو جھیلتے آرہے ہیں اور یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ سڑکوں کے دونوں اطراف غیر قانونی طور پر کھڑی کی گئی گاڑیاں،ٹھیلوں،پتھاروں سے بنے بازاروں،فٹ پاتھوں پر قبضہ مافیا کا کنٹرول اور انتظامیہ کی لاپروائی کا اس خرابی میں بڑا حصہ ہے۔صبح سویرے گھر سے نکلنے والوں کو نہیں معلوم کہ وہ کب اپنی منزل پر پہنچے گے رات گئے سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب کسی کے کنٹرول میں نہیں،اور ہو بھی کیسے سکتا ہے! جن کی ذمے داری ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانا ہوتا ہے،وہ کسی بھی اہم شاہراہ پر چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے،شاید وہ خود ٹریفک میں پھنسنے سے پہلے اپنے اپنے گھروں میں جانے کو ہی غنیمت جانتے ہیں۔ ظاہر ہے ٹریفک پولیس کے اہل کار کیوں کر آنے والے اس سیلاب کا سامنا کریں! کیا بہتر نہیں کہ سڑکوں سے سائیڈ پکڑلی جائے۔۔۔! عقل مندی بھی یہی ہے کہ وقت سے اپنے گھر پہنچا جائے،کوئی سڑک جام ہوتی ہے تو ہو جائے ان کی بلا سے،پھر جو ہو سو ہو کل کی کل دیکھی جائے گی،ابھی تو پتلی گلی پکڑنے میں ہی فائدہ ہے۔یہ کوئی لطیفہ نہیں حقیقت ہے مجھے خود متعدد بار ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جب جب میرے ساتھ ایسا ہوا میری آنکھوں نے ہمیشہ یہی کچھ دیکھا کہ سڑکوں سے پولیس اہل کار غائب اور ٹریفک بری طرح جام تھا۔اس قسم کی بدترین صورتحال کسی خاص شاہراہِ کی نہیں بلکہ یہ حالت تو کراچی کی ہر دوسری سڑک پر دیکھی جا سکتی ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے مجھے اپنی فیملی کے ساتھ اپنی کزن کی تقریب سعید میں شرکت کے لیے امریکن ایمبسی سے متصل پاکستان نیوی آفیسر ہائٹس جانا پڑا ڈیفنس سگنل پر شدید ٹریفک جام ہونے کے باعث میں نے اپنے تئیں عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے آئی آئی چندریگر روڈ کا انتخاب کر لیا۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی فقط چند کلومیٹر راستہ طے کرنے کے بعد یہ چالاکی میرے گلے پڑنے والی ہے میں ابھی بمشکل حبیب بینک پلازہ تک ہی پہنچا تھا کہ کنٹینرز سے لدے ٹرکوں سے پالا پڑا گیا گویا میں لوہے کی ایسی دیواروں کے درمیان جا پھنسا جن سے رہائی جہاد سے کم نہ تھی جہاں گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں نے برا حال کردیا تھا میری تو خیر تھی ظاہر جس شخص نے دن بھر سڑکوں کی خاک چھاننی ہو اس کے اعصاب اتنے مضبوط تو ہو چکے ہوں گے کہ وہ اتنی آلودگی برداشت کرسکیں۔ لیکن میرے گھر والے نیم بے ہوشی کی حالت میں جا چکے تھے بس اسی کیفیت میں ہم جہاں تھے وہیں گھنٹوں پھنسے رہے، کئی گاڑیوں کا پیٹرول ختم ہوچکا تھا،لوگ بند گاڑیوں کے ساتھ سڑک پر کھڑے تھے اور سڑک پر کھڑی گاڑیوں کی ترتیب بگڑی ہوئی تھی،اس صورت میں یہاں سے نکلنا مشکل ترین لگ رہا تھا۔میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ہماری گاڑی کا ڈرائیور کبھی کسی گلی میں جانے کی کوششں کرتا تو کبھی اسی سڑک پر ہی چلتے رہنے کو بہتر جانتا۔میں دل میں دعائیں کرتا رہا کہ خدایا،ہمیں اس مشکل سے نجات دے،ہمیں ہماری منزل تک بخیریت پہنچا۔اس بدترین صورتحال میں مجھے اپنی دعاؤں پر تو یقین تھا لیکن ٹریفک پولیس و انتظامیہ پر کسی قسم کا کوئی یقین نہ تھا،اور ہوتا بھی کس طرح! اگر انتظامیہ موجود ہوتی تو اعتبار کرتا۔یہاں تو دور دور تک کوئی بھی اہل کار نظر نہ آتا تھا۔میرے ساتھ اگر کچھ تھا تو خدا پر یقین اور ایمان تھا،میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہی ہے جو ہمیں یہاں سے نکالے گا۔۔۔ وقت بڑی تیزی سے گزرتا جا رہا تھا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے سے زیادہ کا وقت ٹریفک جام میں پھنسے ہوچکا تھا اور میری کزن کی رخصتی کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔میں اب اس تقریب میں اپنے ماموں اور آنے والے مہمانوں کے سامنے پیش ہو کر اپنی شرکت کی سچائی یعنی حاضری لگانا چاہتا تھا جو ہمارے انتظار میں گھنٹوں سے بیٹھے تھے۔۔۔ پھر وہ لمحہ آیا جب میرا خدا پر ایمان اور دعائیں رنگ لائیں، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک کنٹرول کرنا شروع کردیا عوامی کاوشیں رنگ لانے پرکچھوے کی رفتار سے گاڑیاں نکلنا شروع ہوئیں۔ہماری گاڑی بھی آہستہ آہستہ سرکنے لگی،گاڑی کو رینگتا دیکھ کر دل کو سکون ملا۔خیر، ٹریفک میں پھنستے پھنساتے تقریباً رات دس بجے ہم نیوی ہائیٹس جا پہنچے ٹریفک جام کی وجہ معلوم کرنے پر خبر ہوئی کہ سڑک کی بندش گھروں میں گیس نہ آنے باعث سراپائے احتجاج لوگ کی جانب سے کی جانے کاروئی تھی‘‘۔
خیر اس روز اپنی چھوٹی کزن کی رخصتی سے چند منٹ قبل جیسے تیسے میں تو وہاں پہنچ گیا لیکن سڑکوں پر پھنسے ہزاروں شہری نہ جانے کب اور کتنی اذیت سے دو چار ہو کر اپنے اپنے گھروں کو پہنچے ہوں گےکتنے افسوس کی بات ہے کہ سندھ حکومت نے گزشتہ تیرا برس سے حکمرانی کے مزے لوٹنے کے باوجود کوئی بھی عوامی مسئلہ حل نہیں کیا،بلکہ ان کو تو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ دو کروڑ سے زائد آبادی والا شہر اس عرصے میں نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ جیسی سہولت سے محروم ہوگیا ہے بلکہ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی میں،جہاں سارے پاکستان سے سفری یا گڈز ٹرانسپورٹ کا سیلاب امنڈ آتا ہے کے لیے کراچی سڑکوں سے گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر سے باہر کوئی سگنل فری شاہراہ تک نہ بنا سکا جبکہ اس شہر میں 40 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اور روزانہ آٹھ نو سو گاڑیاں مزید رجسٹرڈ ہورہی ہیں۔اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں بنائے جانے والے منصوبے سندھ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے فائلوں کی صورت ریکارڈ روم کی زینت بنےہوئے ہیں۔جبکہ صوبے کے ان حکمرانوں کے بلند وبانگ دعوے اخبارات تک محدود ہیں،کراچی شہر میں سرکلر ریلوے جیسے منصوبے پر بھی سیاست ہی کی جا رہی ہے دوسری جانب وفاقی حکومت بھی نامکمل گرین لین منصوبے پر دھمال کرتی دکھائی دیتی ہے اور اس لولی پاپ کے نام پر اگلا الیکشن جیتنے کی باتیں کررہی ہے۔ہمارے حکمرانوں کو خاص طور پر سندھ سرکارکو سوچنا ہوگا کہ لاہور میٹرو، پنڈی میٹرو ملتان میٹرو بس سروس جبکہ اورنج لائن جیسے بین الاقوامی معیار کی سہولتیں کراچی کے شہریوں کے نصیب میں کب آئیں گی؟ کیونکہ کراچی والے پاکستان کے دوسرے حصوں میں ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کو دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ کب سندھ حکومت اس شہر میں عوام کو بہترین سفری سہولتیں کب فراہم کرے گی اورٹریفک جام جیسے عذاب سے انہیں کب چھٹکارا ملے گا۔

حصہ