دھنک رنگ

360

نہ جانے اس خستہ حال بچے کے اداس چہرے میں ایسا کیا تھا کہ اُسے دیکھ کر بے اختیار میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کسی مشین کی مرمت کررہا تھا۔ مجھے دکان کی سمت آتا دیکھ کر وہ ایک لمحے کو رکا اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوگیا۔ تپتی گرم دوپہر میں جب کہ چرند پرند بھی سستا رہے ہوتے ہیں، وہ کام کررہا تھا۔ گرمی دانوں سے بھرا چہرہ اور پسینے سے تر کپڑے… کون ہے جو اسے دیکھ کر ترس نہ کھائے!
اس روز گھر کی اکلوتی استری جو خراب ہوئی تو مرمت کروانے مجھے خود ہی دکان پر لی جانی پڑی۔ یوں تو میرے شوہر راشد صاحب کی چھٹی شام چھ بجے ہوجاتی ہے، پَر کراچی کے ٹریفک کی مرہون منت نو بجے سے پہلے گھر لوٹ نہیں پاتے۔ بیٹے بھی کوچنگ سینٹر سے دیر سے لوٹتے تھے، اور استری کے بغیر ایک دن بھی گزارا محال ہے۔
دکان مالک ایک بھاری بھرکم درمیانی عمر کا پستہ قد شخص تھا جو دکان کے اندر کرسی سے ٹیک لگائے تقریباً نیم دراز تھا۔ پیڈسٹل فین برق رفتاری سے اُس کی جانب تیز ہوا پھینک رہا تھا، لاغر جسم اور گہری بھوری رنگت والا وہ بچہ دکان کے سامنے لگے کپڑے کے چھپر تلے چٹائی پر بیٹھا تھا، اس کے سامنے ایک چھوٹا سا لکڑی کا بکس تھا جس میں مختلف چھوٹے بڑے اوزار رکھے تھے، اور وہ غالباً کسی ٹرانزسٹر نما چیز کی مرمت کررہا تھا۔
سخت گرمی اور حبس زدہ سہ پہر تھی، وقفے وقفے سے اِکا دُکا گاڑیاں دکھائی دیتیں اور تپتی تارکول کی سڑک پر فراٹے بھرتی نظروں سے اوجھل ہوجاتیں۔ بچے کی عمر بہ مشکل آٹھ یا نو سال کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ گاہے بہ گاہے چہرے پر ابھرتے پسینے کو اپنی میلی اور بد رنگ آستین سے پونچھتا جاتا، جب کہ دکان کے اندر بیٹھا اس کا مالک ٹھنڈی ہوا میں پُرسکون بیٹھا تھا۔
یہ منظر میری طبع نازک پر بے حد گراں گزرا۔ جن ننھے ہاتھوں میں قلم، کتاب ہونی چاہیے وہ پلاس اور پیچ کس تھامے جانفشانی سے مشقت کررہے تھے۔
آہٹ سن کر دکان دار میری طرف متوجہ ہوا ’’بولیں باجی! کیا کام ہے آپ کو؟‘‘
میں اپنے خیالوں کے نگر سے نکل آئی اور استری تھیلے سے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا ’’بھائی! استری کو نہ جانے کیا ہوا ہے، کل رات تک بالکل درست کام کررہی تھی لیکن ابھی چلائی توگرم نہیں ہورہی… آپ چیک کرلیں تو ٹھیک سے معلوم ہوجائے گا۔‘‘
اس شخص نے کہا ’’آپ فکر نہ کریں، ابھی دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد اُس نے تیز درشت لہجے میں اس بچے کو آواز لگائی ’’اوئے چھوٹے! ٹیسٹر نکال کر لا جلدی سے، دیکھ نہیں رہا باجی کب سے کھڑی ہیں۔‘‘
وہ ننھا بچہ اچھل کر کھڑا ہوا اور ’’ابھی لے کر آتا ہوں‘‘ کہہ کر دکان کے اندر گھس گیا اور لکڑی کی چھوٹی سی الماری سے ایک پرانا سا ٹیسٹر نکال لایا۔
ٹیسٹر دیکھ کر دکان دار کو سخت غصہ آیا، اس نے اگلے ہی لمحے زوردار تھپڑ اس بچے کے گال پر رسید کردیا اور چلّا کر کہا ’’اندھا ہوگیا ہے کیا! یہ کون سا ٹیسٹر دے رہا ہے، جلدی سے نیا ٹیسٹر نکال کر لا… پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ تو کام نہیں کرتا۔‘‘
بھاری بھرکم ہاتھ کا تھپڑ پڑتے ہی بے چارے ’’چھوٹے‘‘ کی آنکھیں درد کی شدت سے ڈبڈبا گئیں۔ دکان دار کا یہ سنگ دلانہ رویہ دیکھ کر میرے دل کو ٹھیس لگی، میں ابھی اس بے رحم شخص سے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ وہ بچہ دوبارہ سرعت سے دکان میں گھس گیا اور الماری سے نسبتاً ایک نیا ٹیسٹر نکال لایا، شاید وہ ’’چھوٹا‘‘ اس سلوک کا عادی ہوچکا تھا۔ اس ذلت آمیز سلوک کو سہہ کر بھی وہ مستعدی سے کام کررہا تھا۔
دکان دار استری کی مرمت کا آغاز کرچکا تھا۔ اس دوران وہ بچہ مسلسل اُسے اُس کے مطلوبہ پرزے دکان سے نکال کر دیتا رہا۔ میں بوجھل دل کے ساتھ کھڑی کن اَنکھیوں سے اس ننھے بچے کو جھڑکیاں کھاتے اور کام کرتے دیکھتی رہی۔ قدرت نے ہر عورت کو مامتا کا انمول جذبہ دیا ہے، اسے کسی بھی بچے کی تکلیف دیکھنا برداشت نہیں ہوتا۔ اسی جذبے کے تحت اس ’’چھوٹے‘‘ کی حالتِ زار دیکھنا میرے لیے ناقابل بیان اذیت ثابت ہورہا تھا۔ میری آنکھیں برس رہی تھیں۔ ایسے میں نقاب کی آڑ بہت کام آئی اور میرے آنسو بھی اس میں جذب ہوتے گئے۔
دکان دار خاصا ماہر کاریگر تھا، دس منٹ میں استری مرمت کرکے میرے حوالے کردی۔
’’یہ لیں باجی! تار شارٹ ہوگیا تھا، اسے تبدیل کردیا ہے، زیادہ خرچے والا کام نہیں نکلا، آپ بس دو سو روپے دے دیں۔‘‘
دکان دار کو اجرت دیتے ہوئے میرے دل نے کہا کہ اس بے چارے بچے کو بھی کچھ دے دینا چاہیے۔ میں نے سو روپے بچے کو دیے، اُس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ٹوٹی پھوٹی سی شبیہ ابھری اور آنکھوں میں حیرت اور خوشی کی تیز چمک کوند گئی۔ ابھی وہ غیر یقینی کے عالم میں کھڑا اس نوٹ کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دکان دار نے وہ نوٹ اُس کے ہاتھوں سے اچک لیا اور مجھے واپس دیتے ہوئے کہا ’’باجی! آپ جیسے لوگ مفت کے نوٹ دے کر بلاوجہ نکما بنا دیتے ہیں۔ یہ بچہ میرا بھانجا ہے۔ اس کا باپ نشے کا عادی تھا، کچھ کماتا نہیں تھا۔ ایک دن نشے میں دھت ٹرک کے نیچے آکر مارا گیا۔ اس کا بڑا بھائی آوارہ گردی کرتے کرتے چور بن گیا اور اب جیل کی ہوا کھا رہا ہے، اور میری بہن گھروں کے کام کر کرکے ٹی بی کی مریضہ ہوگئی ہے، وہ خود اسے میرے حوالے کر گئی ہے تاکہ اسے کام سکھا کر انسان بناؤں، ورنہ تو اس کی نسل ہی خراب ہے… یہ بھی ان جیسا نکلا تو اس بے چاری کا کیا بنے گا!‘‘
اس تند مزاج دکان دار کی بات سن کر اس چھوٹے سے ہمدردی دوچند ہوگئی۔ میں نے کہا ’’بھائی آپ اسے تعلیم دلوا کر بھی تو ماں کا سہارا بنا سکتے تھے۔‘‘
وہ بولا ’’ہم غریب مزدور پیشہ لوگ ہیں، اس مہنگائی کے دور میں بہ مشکل اپنے تین بچوں کے اسکول کی فیس جوڑتا ہوں، اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘
اتنے میں دو گاہک اور آگئے اور وہ اُن سے بات کرنے لگا۔ چھوٹا پھر سے سر جھکائے دوڑ دوڑ کر دکان دار کی معاونت میں مصروف ہوگیا۔ میں ذہن میں اَن گنت الجھے خیالات لیے گھر کی جانب چل پڑی۔
…٭…
’’کام چور، نکمی! دیکھ نہیں رہی ہے برتنوں کا کتنا ڈھیر لگا ہے، اور یہ نواب زادی یہاں کھیل رہی ہے۔‘‘ تائی خورشید کی گرج دار آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو جیسے اُس کی سانس ہی اٹک گئی ہو۔ مڑ کر دیکھا تو تائی خورشید شعلہ بار نظروں سے اُسے گھور رہی تھیں۔
’’وہ … وہ… تائی جی! میں تو نہیں کھیل رہی تھی، پَر شازیہ نے ضد کرکے روک لیا۔‘‘ ڈر کے مارے برا حال تھا، وہ بہ مشکل اتنا ہی بول پائی۔
’’جھوٹی! میں نے کیا بندوق تانی تھی تیرے اوپر؟ منع کردیتی تُو مجھے، کون سا تیرے پاؤں پکڑے تھے!‘‘ شازیہ نے تنک کر کہا۔
شازیہ کی بات سن کر تائی کا پارہ اور چڑھ گیا، اور اس بے چاری کو کان سے پکڑ کر باورچی خانے کی جانب ہانک دیا۔ صحن میں کھیلتی سب لڑکیاں ہنسنے لگیں اور شازیہ اس کو منہ چڑانے لگی۔
زور سے کھینچنے سے اس کا کان سرخ ہوگیا لیکن وہ خاموشی سے سارے کے سارے برتن دھوتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے برتن نہ دھوئے تو تائی امی اسے رات کھانا نہیں دیں گی۔
ابا کے انتقال کو تین سال ہوچکے تھے، اُن کے انتقال کے بعد دادا نے بیوہ بہو اور یتیم پوتیوں کی ذمے داری سنبھال لی۔ دادا کے اس فیصلے سے انہیں ایک محفوظ سائبان تو مل گیا، پَر وہ تائی خورشید کے زیر عتاب آگئیں۔ تائی امی کو مفت کی تین نوکرانیاں مل گئیں، اور اب جب کہ دادا بھی طویل بیماری کے بعد چل بسے تو تائی امی کھل کر ان پر دھونس جماتیں…آخر وہ ان کے ٹکڑوں پر جو پل رہی تھیں۔
تائی امی کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ تایا مسقط میں نوکری کرتے۔ وہ ایسے سنگ دل نہ تھے بلکہ وہ ان کا بہت خیال رکھتے، لیکن وہ سال میں ایک بار ہی پاکستان آتے۔ اس کے بعد تو تائی امی ساری کسر نکال لیتیں اور خوب کام کرواتیں۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک کانچ کا گلاس اس کے ہاتھوں سے نہ جانے کیسے پھسل کر نیچے جاگرا اور کرچی کرچی ہوگیا۔
آواز سن کر تائی امی فوراً باورچی خانے میں آدھمکیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی صفائی میں کچھ بولتی، تائی امی کا زناٹے دار تھپڑ اُس کے گال پر پانچوں انگلیوں کے نشان ثبت کرچکا تھا۔ درد کی شدت سے اس کے منہ سے کراہ نکلی اور گرم گرم آنسو اُس کی آنکھوں سے لڑھکتے ہوئے گالوں سے ڈھلک گئے۔
…٭…
’’امی… امی…!کیا ہوا آپ کو؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟‘‘
بچوں کے کوچنگ سینٹر سے لوٹنے کے انتظار میں نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور ماضی کے دریچے کھل گئے۔ آج اُس چھوٹے کے دکھ کو دیکھ کر میرے زخم پھر سے ہرے ہوگئے تھے۔ میرے دونوں بیٹے رافع اور عمر میرے پاس پریشان کھڑے تھے ۔
’’کچھ نہیں بیٹا! فکر کی کوئی بات نہیں، بس کچھ یاد آگیا تھا۔‘‘ میں نے اپنے آنسو پونچھے اور مسکرا کر انہیں ڈھارس دلائی۔
بچے مطمئن ہوگئے۔ وہ جانتے تھے کہ اکثر ان کی مرحوم نانی امی کو یاد کرکے میں اسی طرح دکھی ہوجاتی تھی۔
میرے شوہر راشد میری تائی امی کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ تائی خورشید جتنی سنگ دل تھیں، اُن کے بیٹے اتنے ہی نرم دل نکلے۔
میری بڑی بہن رمشا کی شادی خالہ کے گھر ہوگئی… سسرال میں سب اس پر جان چھڑکتے ہیں۔ وہ بے حد خوش ہیں۔ میری شادی خورشید تائی نے اپنے بیٹے سے کروائی تو کسی اور مقصد سے تھی، پَر اللہ پاک بہت کارساز ہے، اُس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ راشد فرشتہ صفت شریکِ حیات ثابت ہوئے۔ انہوں نے گھر کے ماحول کو بہتر کرنے اور تائی امی کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پَر تائی امی اپنی عادت اور خصلت سے مجبور تھیں۔ تلخیاں بڑھنے لگیں تو بالآخر تایا ابو نے ہمیں الگ کردیا۔
آج چودہ برس بیت گئے، میرے بیٹے نویں اور دسویں کلاس میں پہنچ گئے۔ ہم نے دور رہ کر بھی اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتی، تایا ابو اور تائی امی کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ بڑھاپے میں کئی بیماریوں کا شکار ہوکر اب تائی امی کا پہلے والا جاہ و جلال نہیں رہا۔ اب گھر پر بڑی بہو صفیہ کا سکہ چلتا ہے اور ماحول میں خاصی تبدیلی آچکی ہے۔
راشد دفتر سے لوٹے تو میری متورم آنکھیں اور اداس چہرہ دیکھ کر بے حد فکرمند ہوئے۔ رات کھانے کے بعد چائے کے دوران اُن کے استفسار پر میں نے انہیں ’’چھوٹے‘‘ کی دکھ بھری داستان سنا ڈالی۔ راشد بھی بہت رنجیدہ ہوئے اور گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
…٭…
’’ارے راشد آپ آفس سے اتنی جلدی کیسے آگئے؟‘‘ دوپہر کے دو بجے راشد کو گھر دیکھ کر میں نے حیرانی سے پوچھا۔
راشد مسکرائے اور کہنے لگے ’’میں آج آدھی چھٹی لے کر اس ’’چھوٹے‘‘ سے ملنے آیا ہوں جس نے میری بیگم کو اتنا غمگین کردیا ہے۔ آپ مجھے اُس استری والے کی دکان پر لے چلیں۔‘‘
راشد کے جواب سے میری حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔ خیر کھانا کھا کر ہم دونوں دکان پر پہنچے۔کل کی طرح آج بھی وہ معصوم دکان سے باہر چٹائی پر کچھ کام میں مصروف تھا۔ ماتھے پر گرمی دانے اور پسینے سے تر چہرہ… میلے کچیلے کپڑے۔
راشد کا دل موم سے بھی زیادہ نرم ہے۔ انہوں نے تپتی دوپہر اس یتیم و یسیر بچے کی حالت دیکھی تو روہانسے ہوگئے۔
دکان دار مجھے دیکھ کر بولا ’’باجی کیا ہوا، آپ کی استری تو فرسٹ کلاس کردی تھی میں نے… کیا آج کسی اور چیز کی مرمت کروانے آئی ہیں؟‘‘
میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی راشد بول پڑے۔ راشد نے دکان دار سے جو کہا اُسے سن کر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا اور میرے دل کی تمنا رب کریم نے پوری کی۔
راشد نے ’’چھوٹے‘‘ کے تمام تعلیمی اخراجات اپنے ذمے لینے کا وعدہ کیا اس شرط پر کہ وہ چھوٹے کو دکان پر شام میں ہنر سکھائے گا اور دن میں اسے اسکول بھیجے گا۔
چھوٹے کی گم شدہ مسکراہٹ لوٹ آئی۔ اس کے چہرے پر ابھرتے خوشیوں کے دھنک رنگ دنیا کے کسی بھی انمول خزانے سے کم نہ تھے۔

حصہ