افواہ سازی کردار سازی کی ہر تمنا کو فراموش کردیتی ہے

395

’’ہوا میں تیری پھرتی ہیں کتنی افواہیں
دکھائی دیتی نہیں اور خبر میں رہتی ہیں‘‘
ایک افواہ جب اُڑتی یا اُڑائی جاتی ہے تو بھیڑ سے چلی ہوئی ایک بے بنیاد بات، ہر دلیل کو دہلاتے ہوئے پورا معاشرہ اچھال دیتی ہے۔ اس حماقت پر پورے شہر کے دانش کدے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ چند زبانی افواہ گر پھیری والے پورے سماج کو اپنے ذہنی وائرس سے درہم برہم کر دیتے ہیں۔ جب کبھی کسی ملک شہر یا بستی پرکوئی شر پسند ٹولہ اپنی افواہوں سے راج کرتا ہے تو سمجھ لیں کہ بلندیوں سے ہر دلیل نیچے گرچکی ہے۔ عقل و دانش کو چوٹیوں سے دھکیل کر نیچے گرا دیا جا چکا ہے۔
افواہ نہ کوئی واقعہ ہوتا ہے اور نہ اس کی حقیقت میں کوئی تحقیق ہوتی ہے۔ بس یہ کسی ابہام کو امکان بنا کر، اسے کہانی میں ڈھال کر، افسانے کو فسوں دے کر، جھوٹ فروغ ٹولہ جو بظاہر سماجی ہمدردی کا حیلہ گھڑ کر اپنے خدشات کو واقعات سے جوڑ کر معاشرے میں ایک کھوٹا سکہ چلادیتا ہے۔ انہی سرغنوں نے کبھی موسمی بارش کو طوفان بنا دیا، کسی جھڑپ کو جنگ سے جوڑ دیا اورکہیں رائی کو پربت اور تنکا کو شہتیر بنا دیا۔ افواہیں قبول کرنے والے بھی کمزور سماج کی اجتماعی نفسیات کے مالک ہوتے ہیں ۔ہر غبی کو غیب کی خبر دینے والا اور ہر غیر ذمے دارکو اعتبار دینا والا بنا دیتی ہے۔ ذہنی سرگوشی کو زبانی چیخ بنانے والے سلسلہ وار بولنے کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے بہتر سماج کی خبر اُڑائی ہو‘ کسی نے مشکلوں کے حل پا جانے کی بات پہنچائی ہو اس لیے اس تخیل کو جی چاہتا ہے کہ کاش کوئی جھوٹی خبر یہ بھی اڑا دے کہ:
ہم نے انسانوں کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا
کیا برا ہے جو یہ افواہ اُڑا دی جائے
(جاں نثار اختر )
افواہ گر ٹولے ہمیشہ اپنی بات کو دل چسپ بنانے کے لیے، اپنی طرف سے سنی سنائی باتوں میں فسانے کا تخیل یا تڑکا ڈال کر اسے چٹخارے دار بنادیتے ہیں تاکہ اس سے مزید سنسنی پیدا ہوجائے۔ ایسا اعتراض کرو تو وہ منہ توڑ جواب دینے کے لیے اپنی ذاتی گواہی افواہ میں جوڑ دیتے ہیں۔ جب جب انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ساکھ کھو رہی ہے تو من گھڑت مشابہت کو اپنی ذاتی مشاہدات سے جوڑ کر جذباتی کہرام مچا دیتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ’’افواہ انسانی شعور کا ایک بچہ ہے جسے کوئی بھی اپنانے کو تیار نہیں ہوتا اور وہ اوروں سے منسوب ہوتا رہتا ہے۔‘‘
افواہ سازی کردار سازی کی ہر تمنا کو فراموش کردیتی ہے۔ کبھی یہ شدتِ غم میں ادھوری خبروں کے سبب بھی ہوجاتا ہے۔ جیسے کہ غزوۂ اُحد میں بھی ایک افواہ اڑی تھی حضورؐ حیات نہیں رہے۔ جس کا سبب آپؐ کے روپ رنگ کی شباہت تھی جو حضرت مصعب بن عمیرؓ کے مٹی میں رل مل گئے جسدِ پاک کے نقوش نے صحابہ اکرامؓ کو پل بھر کے لیے دہلا دیا تھا۔ وہ بڑی مشکل گھڑی تھی۔ جنگ کا ہنگام تھا۔ چاروں طرف گرد و غبار، چیخ و یلغار میں یہ ہوگیا اور کچھ دشمنوں نے بھی بات کو ہوا دی تھی لیکن چند حوصلہ مندوں نے اسی خوں آشام تلواروں کے باڑھ میں وہ خوش خبری بھی پہنچا دی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں اور پہلی خبر افواہ تھی۔ پھر معرکے کا منظر نامہ بدلا۔ یہ تربیت کی گھڑیاں ان سب کو میسر آئیں کہ افواہ ذہانت اور حوصلوں کی ساکھ اُڑا دیتی ہے۔ اس لیے یہ سکھایا گیا کہ افواہ کو مارا بھی جاسکتا ہے۔ بدگمانی کو ہرایا جاسکتا ہے۔ یقین کے اثاثے کو لٹنے سے بچایا بھی جاسکتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا گھائو سچائی کو لگتا ہے۔
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
(کرشن بہاری نور)
اب تو عکس و آواز کے بازی گر افواہوں کو خبروں کی طرح اُڑاتے ہیں، تجزیوں اور تبصروں کی طرح گھڑتے ہیں۔ اب افواہ سازی، ورقی، برقی، اداراتی، حکومتی انتظامیہ کی شراکت سے جہانوں کی سیر پر ہے۔ ویسے افواہوں پر اداروں کا ہی اجارہ نہیں بلکہ ہمارے گھروں، خاندانوں میں، بچے، بوڑھے، اداروں سے جڑے لوگوں اور سماج کے ہر حصہ میں اس کے رضا کار پائے جاتے ہیں۔
سرسری طور پر آئیے چند ایک اڑائی گئی خبریں اور ان کا انجام دیکھیں۔ ایک افواہ جو 11/9 میں اسامہ بن لادن کے بارے میں آئی کہ ’’اسامہ بن لادن سٹی بینک کا مکمل مالک ہے۔‘‘ ایک اورتجارتی افواہ دیکھیں ۔ ’’پروکٹر اینڈ گیمبل کے مالکان نے شیطانی گرجا گھر کو لاکھوں کا چندہ دیا۔‘‘ اس خبر نے سادہ ذہن شہریوں کو ان کے پروڈکٹ خریدنے سے دور رکھا۔ مدتوں مالکان اس کی صفائی پیش کرتے رہے۔ ایک اور مذہبی افواہ سنیں۔ اگست 2005 میں ایران میں امام موسیٰ کاظم ؒ کی مزار مبارک کی زیارت میں بم نصب ہونے کی غلط خبر سے جو بھگڈر مچی اس میں 950 لوگ روندے جانے کے سبب ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکت اتفاق سے زیادہ سازشی ٹولوں کی منظم سرگرمی ہوتی ہے جو عالمی اداروں کے منصوبوں پر ہلاکت خیزیاں تیار کرتے رہتے ہیں۔
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
(افتخار عارف)
اس لیے نبیٔ رحمتؐ نے فرمایا ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات (بلا تحقیق) بیان کردے۔‘‘ (مسلم)۔
مسلمان کی شان یہ ہے کہ ’’نہ وہ دھوکا دیتا ہے اور نہ دھوکا کھاتا ہے۔‘‘ سورہ حجرات کی آیت نمبر 6 کا مفہوم ہے ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلو، کہیں تم کسی قوم سے نادانی میں نہ الجھ جائو پھر تمہیں بعد میں اپنے اقدامات پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔‘‘ اس کا حل بھی یہی ہے کہ اسے دہرائے بغیر روک دیں۔ اس افواہ پر اپنی طرف سے تبصرہ نہ کریں۔ ہم نے اذیتوں کو آسانیوں کے عوض اپنایا ہے۔ اگر کوئی افواہ ملے تب بھی یہ مان کر چلیں کہ اس کی زد میں آپ نہیں ہوں گے۔ بقول غالبؔ
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

حصہ