المیہ سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون؟سقوط مشرقی پاکستان،اسباب و اثرات

328

جسارت: 1970ء کے انتخابات کی طویل ترین انتخابی مہم ہو چکی تھی دو پارٹیاں، پھر رہی تھیں، مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ ، جس کا مغربی پاکستان میں کوئی موثر نمائندہ موجود نہ تھا اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی، جس کا کوئی امیدوار مشرقی پاکستان میں نہیں تھا، عقل و فہم رکھنے والوں نے اس وقت خدشات کا اظہار شروع کر دیا تھا کہ یہ صورت حال خطرناک سیاسی نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ لبنان میں مقیم پاکستان نژاد ایک صحافی جو ’’نوائے وقت‘‘ کو کالم بھیجتے تھے وہ ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ فروری مارچ 1970ء کا ذکر ہے لاہور میں نواب مشتاق احمد گورمانی کے گھر ایک نشست تھی جس میں مجید نظامی اور مرحوم شورش کاشمیری بھی موجود تھے۔ اس صحافی نے اس نشست میں بتایا کہ اسرائیل کے بانی بن گوریان نے فرانس کی سوربون یونیورسٹی کے بند کمرے میں ایک لیکچر میں کہا ہے کہ پورے خطہ ارض پر اگر کوئی ملک اپنی نظریاتی قوت کے لحاظ سے اسرائیل کے لیے چیلنج بن سکتا ہے تو وہ پاکستان Cut to Sale کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پاکستان میں یہی سیاسی رجحان رہا تو بن گوریان کی خواہش پوری ہونے کے امکانات بہت نمایاں ہیں اس لیے انہوں نے تجویز دی کہ محب وطن اور اسلام پسند جماعتیں اکٹھی ہو جائیں اور ملک کو تقسیم ہونے سے بچانے کی جدوجہد کریں وہ متحد ہو کر مشرقی اور مغربی پاکستان میں مشترکہ طور پر قابل ذکر تعداد میں نمائندے منتخب کرانے میں کامیاب ہوں تاکہ دونوں صوبوں میں متصادم لہروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے سے روکیں تاکہ اس کے نتیجے میں ملک کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔
آج 25 سال بعد منعقد ہونے والی اس نشست میں روزنامہ جسارت کے اس دور کے کچھ شمارے بھی ہم نے لا کر رکھے ہیں جن میں 1970-71 میں قوم کو قدم قدم پر متنبہ کیا گیا تھا کہ کس اقدام کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا اس دور میں محترم عبدالکریم عابد ’’جسارت‘‘ کے ایڈیٹر تھے ان کی ملک میں اٹھنے والی مختلف تحریکوںپر گہری نگاہ ہے۔ عابد صاحب نے سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
عبدالکر یم عابد: مشرقی پاکستان کے سانحے کے بارے میں آج ہر ایک یہ اعتراف کر رہا ہے کہ فوجی کارروائی کی بجائے سیاسی تصفیے کی راہ اختیار کی جانی چاہیے تھی لیکن جب یہ کارروائی ہو رہی تھی اس وقت پنجاب کی نمائندہ قیادت یعنی بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی نے اس فوجی ایکشن کی حمایت کی اسے ملک بچانے والی کارروائی قرار دیا گیا لیکن جماعت اسلامی نے خاص طور پر سیاسی تصفیے کے حق میں آواز بلند کی 25 سال پہلے جماعت کے ترجمان ’’جسارت‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے میرے مقالہ خصوصی میرے دستخطوں سے صفحہ اول پر شائع ہوا کرتے تھے مارچ 1971ء کے خونی مہینے کے مقالات خصوصی کے چند اقتباسات پیش ہیں جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نہ صرف بھٹو صاحب بلکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یحییٰ خان اور فوجی قیادت پر بھی بے رو رعایت اور بے خوف و خطر شدید تنقید کی گئی تھی۔
مارچ 1971ء کے بحرانی دور میں جو مقالات خصوصی لکھے گئے ان میں سے یکم مارچ کے مقالہ خصوصی میں لکھا گیا تھا۔ ’’ذوالفقار علی بھٹو نے تو یہ کہا تھا کہ وہ دہلی پہنچ کر شوکت اسلام کا علم لہرائیں گے لیکن فی الحال ان کی کوششیں ڈھاکا پر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو سرنگوں کرنے کی ہیں۔ یہ بات اب صاف نظر آ رہی ہے کہ مسٹر بھٹو مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ سب کس کی تحریک پر کر رہے ہیں طاقت کا وہ کون سا سرچشمہ ہے جس نے علیحدگی کے اس منصوبے کے لیے مسٹر بھٹو کو اپنا آلہ کار بنایا ہے، اس اداریہ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ’’جمہوریت کے قیام کی یقینی صورت حال اگر نظر آئے تو مجیب الرحمن کا رویہ بدل سکتا ہے اور وہ مرکز کو ضروری اختیارات دینے پر رضا مند ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مرکز کی کاغذی حیثیت خواہ کچھ اور اس کی عملی حیثیت ہمیشہ مضبوط رہی ہے اور مضبوط رہے گی کیوں کہ مرکز کے پاس فوج ہے اور فوج جب چاہے اسمبلی توڑ سکتی ہے اس لیے سمجھوتے میں مرکز کی مضبوطی کا وہ تصور مانع نہیں ہونا چاہیے جو غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ’’مرکز‘‘ کے عنوان سے دراصل پاکستانی آمریت اپنا جواز پیش کرتی ہے اور مضبوط مرکزکا یہ خیال علاقوں اور لسانی گروہوں گے جمہوری حقوق کی نفی کرتا ہے۔‘‘
6 مارچ 1971ء کے مقالہ خصوصی میں لکھا گیا تھا: ’’ملک کی سالمیت کے خلاف، جمہوریت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی سازش قریب قریب مکمل ہو چکی ہے اس گول میز کانفرنس سے لے کر جس میں شیخ مجیب نے شرکت کی تھی اس گول میز کانفرنس تک جس میں مجیب شرکت نہیں کریں گے، سازشوں کا ایک طویل اور ناپاک سلسلہ ہے انتخابات کے فوراً بعد میں نے اپنے ایک مضمون میں جو ’’جسارت‘‘ میں شائع ہوا تھا، لکھا تھا جمہوریت آئی ہے مگر سوئے مقتل روانہ ہونے کے لیے اور اب آپ نے دیکھ لیا کہ جمہوریت کو مشرقی پاکستان کے راستے سوئے مقتل لے جایا جا رہا ہے لیکن صدر یحییٰ جمہوریت کے گلے پر کند چھری پھیرنے سے پہلے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں‘‘ اس مقالے میں بھٹو صاحب کی سیاست کا تجزبہ کرتے ہوئے لکھا گیا تھا ’’مسٹر بھٹو نے بڑی عیاری کے ساتھ بنگال کے مقابلے میں پنجابیت کی رگ کو ابھار اور پنجاب کو فریق بنا کر نکال کے مقابلے پر لے آئے مسٹر بھٹو کی کوششوں کے نتیجے میں پنجاب کے وہ تمام پرانے سیاست دان جو پنجاب اور بنگال میں تصادم کی بجائے مفاہمت کے حامی تھے؟ انتخابات ہو گئے۔ یہ خیال کہ مشرقی پاکستان کو اس کے منتخب نمائندوں کے بجائے خرچ کے ذریعے پاکستان سے وابستہ رہنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ایک احمقانہ خیال ہے، بنگال کے مسلمان وہ ہیں جو انگریزوں کے مقابلے میں آزادی کے لیے لڑتے رہے اور تحریک آزادی میں بنگال کا کردار ارفع و اعلیٰ ہے۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے چالیس نشستیں حاصل کی تھیں اس تاریخی پس منظر کی موجودگی میں کوئی مشرقی پاکستان کو غدار اور اپنے آپ کو پاکستانیت کا ٹھیکیدار قرار دے کر فوج کے ذریعے مشرقی پاکستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسا نہیں کر سکے گا فوجی غلبہ اگر ہو بھی جائے تو مستقل نہیں رہے گا اور جتنا عرصہ بھی رہے گا وہ اقوام عالم میں پاکستان کے لیے رسوائی کا باعث ہوگا۔‘‘
8 مارچ کے مقالہ خصوصی میں لکھا گیا تھا: ’’قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے لیکن بعد از خرابی بسیار۔ اگر یہ اجلاس 3 مارچ ہی کو ہو جاتا تو مشرقی پاکستان کو خاک و خون میں نہانے کی ضرورت نہیں تھی۔ معلوم نہیں صدر یحییٰ کو اسمبلی کے اجلاس کے التواء کا عظیم بگاڑ پیدا کرنے والے اقدام کا مشورہ کس کم بخت نے دیا تھا اور اپنے مشیروں کے غلط مشوروں کے نتائج آتے دیکھ کر بھی صدر یحییٰ نے اپنی نشری تقریر میں شیخ مجیب کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ لیکن مسٹر بھٹو کے رویے کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا مجیب پر نکتہ چینی کے بغیر بھی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جا سکتا تھا۔‘‘
3 مارچ 1971ء کے مقالہ خصوصی میں لکھا گیا تھا: ’’پاکستان کے لیے اول تو یہ بات بہت شرم ناک ہے کہ وہ اپنی کثیر آبادی کے ایک علاقے پر اس طرح سے حکومت کرے جیسے پرتگال اپنے مقبوضات پر حکومت کرتا ہے پھر پاکستان اس شرمناک حرکت کا ارادہ کر لے تب بھی عملاً پاکستان کی حکومت اور فوج کے لیے نا ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامیاب سامراج ثابت کر سکے ایک ایسا ملک جو اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کا محتاج ہو اور سر سے پیر تک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو جس کی گزر بسر بیرونی امداد پر ہو اور جو دائیں بائیں دیکھ کرادر پھونک پھونک کر چلنے کے لیے مجبور ہو وہ اگر سامراج بننے کے خبط کا شکار ہو جائے یا سامراجی ملکوں کے طور طریقے کو اپنے ملک میں قابل عمل سمجھے گا تو اسے شکست ہو گی اور ذلت اٹھانی ہو گی۔‘‘
20 مارچ کے مقالہ خصوصی کا عنوان تھا ’’پاکستان چاہیے یا بھٹو چاہیے‘‘ اس عنوان کے تحت لکھا گیا تھا ’’مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کے خیالات اگر غلط ہیں تو ان کی اصلاح بعد میں ہو سکتی ہے لیکن ملک ایک بار ٹوٹ گیا تو پھر یہ قیامت تک ایک ہونے کا نہیں۔ اگر شیخ مجیب کے خیالات غلط تھے تو انہیں ان غلط خیالات کے ساتھ الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں دی گئی اور ان خیالات پر اب مشرقی پاکستان کی صد فیصد رائے عامہ نے اپنی مہر توثیق ثبت کر دی ہے تو نہ یہ مناسب ہے کہ مشرقی پاکستان کو چھوڑ دیا جائے اور نہ یہ مناسب ہے کہ مشرقی پاکستان کی رائے عامہ کو زبردستی اپنے خیالات کا غلام بنایا جائے اگر مرکز میں شیخ مجیب وزیر اعظم بنتے ہیں اور مسٹر بھٹو قائد حزب اختلاف ہوتے ہیں تو اس کے نفسیاتی اثرات مشرقی پاکستان پر بہت اہم ہوں گے اور اس وقت مشرقی پاکستان میں جو عام انداز فکر ہے اسے تبدیل کرنے میں بلآخر مسٹر بھٹو کو کامیابی ہو گی اگر مجیب الرحمن وزیر اعظم بننے کے بعد واقعی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو ملکی مفادات کے خلاف ہوں تو ان حرکتوں کے خلاف خود مشرقی پاکستان کی رائے عامہ میں رد عمل پیدا ہو گا اس کے بعد فوج کی کسی کارروائی کی گنجائش بھی ہوگی اور جواز بھی۔‘‘
مجیب الرحمن کو جب گرفتار کیا گیا تو 29 مارچ کے مقالہ خصوصی میں لکھا گیا ’’پاکستان کی تاریخ میں جب پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو منحوس ثابت ہوئے اس میں قصور جمہوریت کا ہے، جمہور کا یا رہنمائوں کا؟ کیا ہمیں جمہوریت کے تصور کو خیر باد کہہ دینا چاہیے؟ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ جمہوریت فساد کی جڑ ہے لیکن جمہوریت کا متبادل کوئی دوسرا نظام نہیں جو پاکستان کی طرح کے مختلف نسلوں، زبانوں اور علاقوں کے لوگوں کو مطمئن کر سکے مگر یہ ضروری ہے کہ ہمارے عوام اجتماعی اور سیاسی معاملات میں اپنے اسفل وارزل جذبات پر قابو پانا سیکھیں اور سیاست کی بنیاد شریفانہ اقدار و احساسات پر رکھی جائے اس سے جو جمہوریت پیدا ہو گی وہ نہ مسلکی ہو گی اور سفلی نتائج کی حامل ہو گی نہ اس سے ارزل اور اسفل حالات پیدا ہو سکیں گے۔ دراصل ہمارے رہنمائوں نے جمہوریت کو مسائل کے حل کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے مسائل کے الجھانے کا ذریعہ بنا لیا اور ایسا الجھا دیا ہے کہ بس اللہ کی پناہ۔
یہ اداریے جن دنوں لکھے گئے اُن دنوں جسارت میں میرے اداریوں اور مقالات پر سنسر کے لیے ایک خصوصی سنسر افسر صاحب کی مہربانی تھی کہ وہ کانٹ چھانٹ کا اختیار اس طرح استعمال کرتے تھے کہ میرا مفہوم باقی رہ جاتا تھا ان دنوں میں مجھے روزانہ مارشل لاء کے کراچی ہیڈ کوارٹر پر بھی طلب کیا جاتا تھا اور دو دو گھنٹے مارشل لاء افسر دروازے کے باہر کھڑا رکھتے تھے تاکہ میں اپنی توہین محسوس کروں جو جرائم پیسہ لوگ آتے تھے ان کے لیے کرسی بچھا دی جاتی تھی مگر مجھے خاص طور پر کھڑا رکھا جاتا تھا اور طرح طرح کی دھمکیوں سے الگ واسطہ پڑتا تھا ایک بار پیپلز پارٹی کے انقلابی گروپ نے ایک حملہ آور گروپ ’’جسارت‘‘ بھیجا جس نے توڑ پھوڑ کی ایک کارکن کے پاس دستی بم تھا لیکن یہ کارکن سی آئی ڈی کا آدمی تھا اس نے بم استعمال کرنے کے بجائے سی آئی ڈی کو دے دیا۔
جسارت: آج بھی پاکستان پریشان ہے کراچی میں ایک جماعت آج کی حکومت سے برسرپیکار ہے اس صورت حال میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہیں دوبارہ 1971ء والے حالات تو پیدا نہیں کیے جا رہے؟
عبدالکریم عابد: آج کی صورت حال 1971ء سے زیادہ خطرناک ہے کیوںکہ ایک تو اس وقت مشرقی پاکستان ہم سے بہت فاصلے پر تھا لیکن اب جو کچھ کراچی میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کے یکسر خاتمے کا سبب بن سکتا ہے یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی کارروائی امریکا کی حمایت سے اور بھارتی فوجی مداخلت کے نتیجے میں ہوئی تھی اور امریکہ بھارت دونوں اپنے اس رویئے کا اعادہ کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے خطرہ داخلی بھی ہے اور خارجی بھی ہے۔ عوام کو مطمئن کئے بغیر طاقت کا اندھا استعمال سانحہ مشرقی پاکستان سے بدتر نتیجہ پیدا کر سکتا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ تمام رہنما بیٹھ کر متفقہ تجاویز تیار کریں باہمی جھگڑے ختم کریں اور ملک کو بچانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کے لیے پیش رفت کریں ورنہ ملک کو انارکی اور زوال و ادبار کا ایک دور دیکھنا پڑے گا۔ (جاری ہے)

حصہ