”نعیم بھائی کی باتیں“

255

نعیم بھائی ویسے تو پرنٹنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں، لیکن ان کی باتیں کمال کی ہوتی ہیں، پریشانی بھی اس انداز میں بیان کرتے ہیں جیسے مزاحیہ پروگرام چل رہا ہو۔ آج کئی روز بعد ملے اور اپنے مخصوص انداز میں علاقے کی ابتر صورت حال کچھ یوں بیان کرنے لگے:
”پچھلے دنوں کراچی شدید سردی کی جھپیٹ میں جبکہ ہمارا محلہ سیوریج کے پانی کی لپیٹ میں رہا جس کی وجہ سے علاقے میں سردی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ موسم سرد ہوتے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں بچے آگ تاپتے اور ہماری گلیوں میں گندے پانی کی نالیاں ٹاپتے دکھائی دیے۔ رہی سہی کسر بلدیہ کراچی کی جانب سے نالوں کی صفائی کے نام پر پوری کردی گئی۔ اس بے موسم راگنی کی بات ہی نرالی تھی، میرے کہنے کا مطلب ہے عموماً ایسے کام برسات کی آمد پر کیے جاتے ہیں، جبکہ پیش گوئی نہ ہونے کے باوجود علاقے کی سڑکوں پر نالوں سے نکالی گئی گند کے ڈھیر لگا دیے گئے جس سے نہ صرف گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر ہوئی بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ اس صورت حال کا سامنا کب تک کرنا پڑے، خدا جانے۔“
اور پھر اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے یہ قصہ سنانے لگے:
”ہمارے ایک دوست ہر سال چھٹیاں گزارنے شمالی علاقہ جات جایا کرتے ہیں، ہمشہ اُن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بھی اُن کے ساتھ چلیں۔ بہتے دریا اور آبشاروں سے گرتا پانی بچپن سے ہی اُن کی کمزوری رہا ہے، جب بھی واپس اتے ہیں ہمیں وہاں کی کسی نہ کسی جھیل کے متعلق ضرور بتاتے ہیں۔ اِس مرتبہ تو وہ بہت ناراض ہوئے، کہنے لگے ”کیا کنجوس بنے ہوئے ہو! پیسے نہیں ہوتے تو مجھ سے لے لیا کرو۔ وہاں پہاڑوں اور چشموں سے آتے پانی کو دیکھ لو تو تمہاری طبیعت خوش ہوجائے“۔ خاصی دیر لیکچر سننے کے بعد میں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے اُن سے اپنی جان چھڑائی۔ اب یہ بات میں کیسے اپنے دوست کو بتاؤں کہ جن جھرنوں اور جھیلوں کے نظاروں کا ذکر وہ میرے ساتھ کرتے ہیں میں تو ایسے مناظر ہر روز اپنے محلے میں ابلتے گٹروں سے بہتے پانی کی صورت دیکھتا رہتا ہوں، شاید یہی وجہ ہے کہ میرے اندر اب جھیلیں اور جھرنے دیکھنے کی کوئی خواہش نہیں۔ ظاہر ہے سال کے بارہ مہینے جب کسی کو اپنے ہی علاقے میں جوہڑ دیکھنے کو مل جاتے ہوں تو اس کے لیے اتنی دور جاکر پیسوں کو آگ لگانے کی کیا ضرورت! اور پھر صاف شفاف جھرنوں سے گرتے پانی کا استعمال شدہ سیوریج کے پانی سے کیا مقابلہ! گندے پانی کے اپنے ہی رنگ ہوا کرتے ہیں، محلے میں کسی نے واشنگ مشین لگالی تو گٹر سے سرف ملا سفید، روزمرہ کے گھریلو استعمال کے مطابق کالا، اگر ایک دو روز بہاؤ میں کمی آجائے تو کائی جم جانے پر یہ پانی ہرا ہوجاتا ہے۔ اب مختلف رنگ لیے گندے پانی کے پاس کھڑے ہوکر موبائل سے سیلفیاں بناو اور مختلف جگہوں کے نام سے دوستوں کو سینڈ کرکے ڈھیروں لائیک حاصل کرو… اور پھر ٹک ٹاک بنانے کے لیے اس سے زیادہ آئیڈیل جگہ اور کیا ہوسکتی ہے! اپنے علاقے کی حالت دیکھ کر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ محلے کے چیدہ چیدہ نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا کر گلیوں میں کاشت کاری شروع کردوں۔ سنا ہے سیوریج کا پانی فصلوں کے لیے بڑا ہی مفید ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں گٹر سے ابلتے پانی میں اعلیٰ قسم کی کھاد شامل ہوتی ہے، اس لیے اِس کام میں نقصان کا کوئی خدشہ نہیں۔ ویسے تو واٹر بورڈ کی جانب سے شہریوں کو پینے کے لیے جو پانی سپلائی کیا جاتا ہے اُس میں بھی ایسے تمام اجزاء شامل ہوتے ہیں، یعنی اس میں انسانی فضلے سمیت زندگی کے لیے مضر وہ تمام ایٹم موجود ہیں جو فی زمانہ کاشت کاری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔“
نعیم بھائی کے دلکش اندازِ بیاں سے کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میری اُن سے خاصی محبت ہے، اس لیے دورانِ گفتگو اُن کی جانب سے چند لمحوں کی خاموشی اختیار کرنے پر مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے فوراً کہا ”نعیم بھائی کچھ اور سنائیں“۔ وہ بھی شاید میرے اس جملے کے ہی انتظار میں تھے، فوراً بولے:
”یہ بات کون نہیں جانتا کہ موسم سرما آتے ہی سارے شہر میں خشک میوہ جات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں مونگ پھلی بیچتے ریڑھی والوں کی آوازیں ہوں اور بچے مونگ پھلی نہ کھائیں تو تشنگی رہ جاتی ہے۔ چاہے آپ بازار سے اعلیٰ معیار کی اشیائے خورونوش خرید کر لے آئیں، بچوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے خریدی ہوئی چیزیں کھانا پسند کرتے ہیں۔ شاید یہ ہر گھر کے بچے کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ ایسی ہی حقیقت کا سامنا ہمیں یوں کرنا پڑا کہ ہمارے علاقے میں آتی سڑک پر جگہ جگہ نالوں سے نکالی گئی غلاظت کے باعث ریڑھی والوں نے ہماری گلیوں کا بائیکاٹ کردیا، یوں اس سال گھر کے بچے خشک میوہ جات کھانے سے اب تک محروم ہیں۔ ویسے یہ بات تو ماننے کی ہے کہ اس ناگفتہ بہ صورت حال کے باعث علاقے کے لوگوں کو ایک قطار میں چلنے کا سلیقہ آگیا ہے۔ ظاہر ہے گندے پانی سے بچنے کے لیے جب دن بھر ایک پگڈنڈی پر چلا جائے تو یہ ہنر سیکھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، یہ بات سچ ہے کہ سڑکوں پر بہتے سیوریج کے پانی سے بچتے بچاتے گزرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے خاصے تجربے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ کیچڑ کے درمیان ایک ترتیب کے ساتھ اینٹیں لگاکر راستہ بنانا بچوں کا کھیل نہیں۔ میں نے جہاں جہاں بھی اس طرح سے بنی راہداریاں دیکھیں، داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ بنائے گئے ایسے راستوں پر چلنے والوں کی صلاحیت بجا طور پر فنکارانہ ہوا کرتی ہے۔ اپنے جسم کے توازن کو برقرار رکھ کر اٹھنے والے قدم کو اگلے بلاک پر رکھتے ہوئے بارہ سے پندرہ فٹ چوڑی اوپن سیوریج لائن کامیابی سے عبور کرنا بڑے دل والوں کا کام ہے۔ حکمرانوں نے کراچی کے عوام کو ترقی کے نام پر کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو، لیکن ان کے اقدامات کی بدولت کراچی کے عوام نے کچرے کے ڈھیروں، ابلتے گٹروں، ٹوٹی سڑکوں اور وبائی امراض سے لڑنے کا فن ضرور سیکھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا جیسا جان لیوا وائرس بھی اس شہر کے باسیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ جس شہر کے رہنے والے کچرے سے اٹھنے والے تعفن کے باعث پیدا ہونے والے لاتعداد خطرناک قسم کے وائرسوں سے صبح سے لے کر شام تک لڑتے ہوں، ان پر کورونا بلکہ اومی کرون جیسے وائرس کیا اثر کرسکتے ہیں!“
نعیم بھائی کی باتیں بلکہ گلے شکوے سن کر حکمرانوں کی کارکردگی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف یہ صورت حال ہے، اور دوسری جانب سندھ حکومت پاکستان بھر کے عوام کو یہ بتانے میں مصروف ہے کہ سندھ ترقی میں سب سے آگے ہے… جی ہاں، ”سندھ ترقی میں سب سے آگے“۔ یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ وہ اشتہارات اور بڑھکیں ہیں جنہیں سن کر صوبہ سندھ خاص طور پر کراچی میں سب اچھا دکھائی دینے لگتا ہے۔ تشہیری مہم میں جس طرح میگا پراجیکٹ، سیکڑوں کلومیٹر سڑکوں کی تعمیرِ، کشادہ کھیل کے میدانوں سمیت کراچی کے لیے پینے کے صاف پانی کے منصوبے، آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ، صحت کی سہولیات سے لے کر نئی یونیورسٹیوں کے قیام تک کا سفر کامیابی کے ساتھ طے کرتے بتایا جاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ وزیروں اور مشیروں کے دعوے کے مطابق اگر کسی کو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مکمل کیے گئے عوام دوست کامیاب منصوبے نظر نہیں آتے تو وہ اپنی آنکھوں کا علاج کروالے۔ میرے نزدیک سندھ میں جنگی بنیادوں پر ہونے والی خیالی ترقی پر آپ پیپلز پارٹی، خاص کر حکومتِ سندھ کی کم از کم اس بات کو ضرور ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ واقعی بھٹو زندہ ہے۔ ظاہر ہے جن منصوبوں کی تکمیل پر سندھ حکومت یہ نعرہ مارتی ہے یعنی سندھ ترقی میں سب سے آگے ہے، وہ کہیں نہ کہیں تو مکمل ہوئے ہوں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ترقی جانچنے کا جو چشمہ سائیں سرکار نے لگا رکھا ہے وہ ہمارے پاس نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری آنکھ دورِ حاضر کے مطابق ترقی کرتے جدید سندھ خاص طور پر کراچی کو بھی کھنڈرات بناکر دکھاتی ہے، ورنہ تصویر کا دوسرا رخ ایسا نہیں سارا مسئلہ ہماری آنکھوں کا ہی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم وہ آنکھیں لگوا لیں جن سے کراچی سمیت سندھ بھر میں ہر طرف ترقی، خوشحالی اور ”بھٹو زندہ ہے“ دکھائی دے۔
اگر غیر جانب داری سے اصل حقائق کی جانب نظر دوڑائی جائے تو سندھ کی حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے ترقی کے دعوے زبانی گولہ باری کے سوا کچھ نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ان کے نزدیک ترقی کیا ہے! ماضی کی بات ایک طرف، مسلسل 13سال سے سندھ میں حکومت کرتی اس جماعت نے کراچی سے گھوٹکی تک بسنے والوں کو کیا دیا؟ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بدترین طرزِ حکمرانی، کرپشن، بدانتظامی، اداروں کی بدحالی، اقرباپروری, سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں راشی اور نااہل افسران کی تعیناتی، نوکریوں کی خرید و فروخت، بلدیاتی اداروں پر قابض ہونے کی آرزو ان کی جانب سے کی جانے والی عوامی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میری تحریر کی سچائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دنوں جس طرح بھونڈے انداز میں سندھ اسمبلی سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ منظور کروایا گیا وہ ان کی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ نئے بلدیاتی نظام کے نام پر جس ہوشیاری سے کراچی میٹروپولیٹن کوآپریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، لیپروسی سینٹر اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دے دیا گیا ہے، وہ آمریت سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ پیدائش اور اموات کے سرٹیفکیٹس جاری کرنے اور انفیکشنز ڈیزیز سمیت تعلیم اور صحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کرکے صوبائی حکومت کے ماتحت کیا جانا طاقت کے نشے میں اندھے ہوجانے کے مترادف ہے۔ جبکہ میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے کروانے جیسے اقدامات ہارس ٹریڈنگ یعنی منتخب ہونے والوں کی خریداری جیسے مکروہ دھندے کی ابتدا نہیں تو اور کیا ہے؟ آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ خدارا سندھ سرکار کراچی کو بھی صوبے کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے اسے لاوارث چھوڑنے کے بجائے اس شہر کو اس کا جائز حق دے، بصورتِ دیگر محرومیوں کے باعث سلگنے والی چنگاری کہیں آتش فشاں نہ بن جائے۔

حصہ