آپ اسلام کے نمائندے ہیں

449

آپ کی زندگی میں ہزار کوتاہیاں سہی‘ لیکن اسلام بہرحال آپ کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے اور آپ کو بجا طور پر فخر ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ بے شک آپ کے لیے فخر کی بات یہ نہیں ہے کہ آپ عالی شان کوٹھی میں رہتے ہیں‘ لاکھوں اور کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں‘ کاروں میں گھومتے ہیں‘ آپ اونچے عہدے پر فائز ہیں اور ہزاروں انسانوں پر آپ حکومت کرتے ہیں۔ فخر کی بات یہ بھی نہیں ہے کہ آپ عالمی شہرت کے مالک ہیں اور ہر جگہ آپ کی رسائی ہے۔ فخر کی بات اگر ہے تو صرف یہ کہ اللہ نے آپ کو اسلام کی دولت سے نوازا ہے اور آپ مسلمان ہیں۔
…٭…
کیا آپ نے بھی یہ بھی سوچا کہ جب آپ مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں تو دراصل آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں اسلام کا نمائندہ ہوں اور میری زندگی اسلام کی ترجمان ہے۔ آپ کو اپنی اس حیثیت کا احساس ہو یا نہ ہو بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلمان چاہے وہ سرمایہ دار ہو یا مزدور‘ عرب کا رہنے والا ہو یا عجم کا‘ صاحبِ علم ہو یا اَن پڑھ‘ کالا ہو یا گورا‘ عربی زبان بولتا ہو یا دنیا کی کوئی دوسری زبان‘ جب وہ مسلمان ہے تو اسلام کا نمائندہ ہے۔ آپ اسلام کے نمائندے ہیں‘ آپ کی زندگی صحیح یا غلط اسلام کی ترجمانی کر رہی ہے اور آپ اللہ کی راہ میں بیٹھ کر اللہ کے بندوں کو یا تو اللہ کی طرف بلا رہے ہیں یا اللہ کی راہ سے روک رہے ہیں۔ آپ کو دیکھنے والا‘ آپ کو سننے والا‘ آپ کو برتنے والا اور آپ سے معاملہ کرنے والا صرف آپ کے بارے میں ہی رائے قائم نہیں کرتا‘ بلکہ اس دین کے بارے میں بھی رائے قائم کرتا ہے جس سے آپ کا تعلق ہے۔ آپ کی گفتگو‘ آپ کا طرزِ عمل‘ آپ کا سلوک‘ آپ کا لین دین‘ آپ کا طرزِ رہائش‘ آپ کا کھانا پینا‘ غرض آپ کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ایسی نہیں ہے جس کو دیکھ کر لوگ اسلام کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرتے ہوں۔
چھوڑیے اس بحث کو کہ پچھلی صدیوں کے مسلمانوں نے کیا طرز عمل اختیار کیا اور اپنی اس حیثیت کا کہاں تک پاس و لحاظ رکھا‘ اسے بھی چھوڑیے کہ خود آپ کے ملک میں سات سو سال عزت و عظمت کی زندگی گزارنے والوں نے اسلام کی نمائندگی کس طرح کی‘ اسے بھی جانے دیجیے کہ خود آپ کے باپ دادا کی زندگیاں کس طرح اسلام کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔ اللہ ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ آپ ان کے حساب کتاب کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیں۔ وہ اپنے رب کے پاس پہنچ چکے‘ اُن کا حساب چکانے کے لیے اُن کا رب کافی ہے‘ نہ وہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ آپ تو اپنی فکر کیجیے کہ آپ کس طرح اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں اور آپ کی زندگی سے اسلام کی کیا ترجمانی ہو رہی ہے۔
…٭…
اگر آپ نے اب تک اس طرح نہیں سوچا تھا اور لاابالی کی زندگی ہی گزارتے رہے تو ذرا غم نہ کیجیے اور مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دیجیے۔ آپ کا معاملہ جس عظیم اللہ سے ہے وہ کبھی اپنے پیارے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔ آپ کا اللہ کبھی آپ کو اپنی رحمت سے مایوس نہ کرے گا۔ وہ آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں لینے اور زندگی بھر کی کوتاہیوں کو معاف کرنے کے لیے خود آپ کو آواز دے رہا ہے‘ بشرطیکہ آپ سننا چاہیں۔
’’(اے رسولؐ!) کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ نہایت بخشنے والا اور انتہائی رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الزمر۔ 53:39)
اگر آپ کو یقین ہے کہ یہ اللہ ہی کی آواز ہے اور اللہ آپ ہی کو پکار رہا ہے تو مایوسی کا کیا سوال؟ مایوس تو وہ ہوں جن کو اللہ پر یقین نہ ہو‘ اس کتاب پر یقین نہ ہو اور کتاب لانے والے پر یقین نہ ہو۔ جنہیں یقین کی یہ دولت حاصل ہے ان کے پاس مایوسی کا کیا گزر۔
’’اللہ کی رحمت سے تو وہی مایوس ہوتے ہیں جو اُس پر یقین نہیں رکھتے۔‘‘ (یوسف۔ 87:12)
جو کچھ ہو چکا ‘ ہو چکا‘ زندگی کے جو دن برے یا بھلے بیت گئے‘ بیت گئے۔ ماضی کے جنازے پر بیٹھ کر آنسو بہانے اور بین کرنے سے کیا حاصل؟ ہوش کی آنکھیں کھولیے زندگی کے جو لمحات باقی ہیں ان کی فکر کیجیے۔ مستقبل پر نظریں جما کر اسے تابناک بنانے میں لگ جایئے۔ جو کچھ ہو چکا اس پر آپ کا کوئی قابو نہیں لیکن جو کچھ آگے ہونے والا ہے وہ آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ نیکی کا جو قدم بھی اٹھائیں گے اللہ آپ کو ہرگز مایوس نہ کرے گا۔
…٭…
آپ مسلم ہیں اور اس عظیم رہنما کی دعائوں کا نتیجہ ہیں جس کو اللہ نے ’’امامِ انسانیت‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے اور جس نے اپنے رب سے یہ عہد کیا تھا کہ میںنے اپنی زندگی تیرے حوالے کر دی ہے اور میں تیرا مسلم اور فرماں بردار ہوں۔
’’ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں رب العالمین کا مسلم اور فرمانبردار ہوں۔‘‘ (البقرہ۔ 131-2)
آپ ملتِ ابراہیم علیہ السلام کے پیرو ہیں۔ آپ نے اسلام قبول کرکے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر دیا ہے اور اس سے یہ عہد کیا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں صرف اسی کی بندگی کریں گے۔ اس کے عہد کا کھلا ہوا تقاضا ہے کہ آپ کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی ترجمانی اور نمائندگی کرے اور آپ کی کوئی بات اور کوئی عمل ایسا نہ ہو جس سے اسلام کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم ہو۔
آپ کو احساس ہو یا نہ ہو‘ آپ کی ہر بات اور ہر عمل اپنا اثر کر رہا ہے۔ آپ کا کوئی غلط طرزِ عمل ہزاروں انسانوں کو اللہ کی ہدایت سے دور کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے اور کوئی ایک نیک عمل ہزاروں زندگیوں میں خوش گوار انقلاب پیدا کرکے آپ کی رشک انگیز کامرانی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے زندگی کے آخری ایام میں اپنے ایک عزیز کو قبولِ اسلام کے واقعات جمع کرنے اور کتاب ترتیب دینے کا مشورہ دیا اور پھر خود ہی دو نہایت مؤثر واقعات بھی سنائے۔
’’بمبئی میں کسی خوش حال مسلمان نے اپنے حلقۂ تعارف کے کچھ اونچے لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ ان میں ایک عیسائی انگریز بھی تھا۔ دستر خوان پر طرح طرح کے کھانے چنے ہوئے تھے اور قاب میں پلائو بھی تھا۔ عیسائی انگریز نے پلائو نہایت شوق سے کھایا‘ کھانے سے جب سب فارغ ہو گئے اور گفتگو چھڑی تو انگریز عیسائی نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ صاحبِ خانہ سے درخواست کی کہ مجھے کلمۂ توحید پڑھا کر دائرۂ اسلام میں شامل کر لیجیے۔
صاحبِ خانہ حیران تھے کہ اس عام قسم کی دعوت میں کس چیز نے اس انگریز کے دل کی دنیا بدل دی اور اس نے حیرت و مسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سوال کیا ’’آپ کو کس چیز نے اس وقت متاثر کیا؟‘‘
’’پلائو نے… پلائو کھاتے وقت میرے ذہن نے یہ سوچا کہ جس قوم کا ذوق کھانے کے معاملے میں اتنا اچھا اور اونچا ہے‘ دین کے معاملے میں اس کا ذوق کتنا حسین اور بلند ہوگا اور میرے دل نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ انگریز نے جواب دیا۔
حاضرین کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ’’سبحان اللہ‘‘ کی صدائیں بلند ہوئیں۔ صاحبِ خانہ نے خوشی میں کہا ’’پلائو زندہ باد…!‘‘
انگریز نے جواب دیا ’’نہیں اسلام زندہ باد…!‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’جس نے سچے دل سے کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ اور یہ بھی آپؐ کا فرمان ہے کہ ’’بھلائی کی طرف متوجہ کرنے والے کو ان تمام انسانوں کے برابر اجر و انعام ملے گا جو قیامت تک اس بھلائی کو اختیار کرتے رہیں گے۔‘‘ کلمہ پڑھنے والا اگر جنت کا مستحق ہے تو اللہ کے فضل و کرم سے یہی توقع ہے کہ کلمہ پڑھنے کا سبب بننے والا بھی جنت کا مستحق قرار پائے۔
…٭…
دراصل آپ کی زندگی کی ایک ایک چیز دوسرں پر اچھا یا برا اثر ڈال رہی ہے۔ آپ کی گفتگو‘ آپ کا سلوک‘ آپ کا لین دین‘ آپ کے معاملات‘ آپ کی نشست و برخواست‘ آپ کا رہن سہن‘ حد یہ کہ آپ کا دسترخوان بھی اچھا یا برا اثر ڈال رہا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں اللہ کے وہ بندے جن کو اس حقیقت کا شعور بھی ہے اور جو اپنی زندگی کی ایک ایک حرکت پر اس پہلو سے نگاہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے بندے اس سے کیا اثر قبول کر رہے ہیں؟ اور اسلام کے بارے میں ان کی رائے کیا بن رہی ہے؟ اسلام کا اعلان کرکے دراصل آپ نے سوسائٹی کے سامنے اپنے آپ کو اس حیثیت سے پیش کر دیا ہے کہ آپ کی پوری زندگی سے لوگ اسلام کو سمجھیں اور آپ کو دیکھ کر آپ کے بارے ہی میں رائے قائم نہ کریں بلکہ اسلام کے بارے میں بھی رائے قائم کریں۔
…٭…
اسلام انہی لوگوں کا دین نہیں ہے جو عالم‘ فاضل‘ لیڈر‘ پیشوا اور پیر و مرشد ہیں‘ نہ یہ صرف ان لوگوں کا دین ہے جو جماعت بن کر دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ اسلام ہر مسلمان کا دین ہے چاہے وہ کسی مل کا مالک ہو یا مل میں مزدور ہو‘ چاہے وہ زمین دار ہو یا ہل جوتنے والا کاشت کار‘ وہ کسی کوٹھی میں رہنے والا سرمایہ دار ہو یا معمولی مزدوری کرنے والا غریب اور نادار‘ کار میں گھومنے والا ہو یا رکشہ کھنچنے والا‘ عدالت کی کرسی پر عزت سے بیٹھنے والا جج ہو یا دفتر کا معمولی قاصد‘ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ‘ کوئی بھی ہو‘ جب وہ مسلمان ہے تو اسلام اس کا دین ہے اور وہ اسلام کا نمائندہ اور ترجمان ہے۔ اس کی زندگی سے لازماً لوگ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور اسلام سے یا تو قریب ہوں گے یا دور بھاگیں گے۔ اگر اس کی زندگی اسلام کی نمائندگی میں کامیاب ہے تو لوگ محض اس لیے ہرگز اسلام قبول کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے کہ اسلام اور ان کے قاصد کا بھی دین ہے یا ان کے میلے کپڑے دھونے والی غریب دھوبن کا بھی۔
…٭…
علامہ اقبالؒ نے اپنے عزیز کو اسی سلسلے کا دوسرا واقعہ سناتے ہوئے کہا:
’’ایک غیر مسلم کسی اونچے عہدے پر فائز تھے‘ گھر میں عیش و عشرت اور آرام و آسائش کا ہر سامان موجود تھا‘ اونچی سوسائٹی میں عزت تھی۔ ایک دن یہی افسر گھر آئے تو ان کی بیوی نے کہا ’’میں نے تو اسلام کا کلمہ پڑھ لیا‘ آپ بھی پڑھ لیجیے اور اپنے اللہ ہی کی بندگی کا عہد کیجیے۔‘‘
آفیسر دیر تک بیوی کا منہ تکتے رہے‘ پھر بولے ’’آخر کیوں؟ اس انقلاب کی وجہ؟‘‘
بیوی نے کہا ’’ہمیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہے‘ نہ زیور کی کمی ہے‘ نہ زرق برق لباس کی‘ پھر جن لوگوں سے ہمارا ربط ہے‘ وہ بھی خوش حال اور دولت مند ہیں‘ میں جس تقریب میں بھی گئی بے فکری کے قہقہے سنے‘ زرق برق لباس دیکھے‘ سونے کے زیور دیکھے‘ عیش کے نغمے سنے‘ لیکن یہ عجیب و غریب بات ہے کہ پھٹے کپڑوں اور ٹوٹی چپلوں میں آنے والی غریب دھوبن کی زندگی میں جو اطمینان‘ جو سکون اور خوشی میں نے دیکھی وہ مجھے کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ میں اس سے اس کی پریشان حالی کی بات کرتی ہوں اور وہ نہایت اطمینان کے ساتھ مسکرا کر جواب دیتی ہے ’’اللہ مالک ہے‘ اس کا بڑا شکر ہے‘ وہ بڑا مہربان ہے‘ اس کے شکر کا حق ادا نہیں ہوتا‘ بی بی کوئی فکر کی بات نہیں‘ سب کا اللہ مالک ہے۔‘‘ اور میں سوچنے لگتی ہوں کہ جو خوشی اور اطمینان اس غریب اور خستہ حال دھوبن کو حاصل ہے دنیا کی ہر چیز ہوتے ہوئے بھی مجھے وہ حاصل نہیں ہے۔ ضرور یہ اُس کے دین کی برکت ہے اور اس کا دین واقعی اللہ کا سچا دین ہے۔ اسی لیے میں نے اپنے اللہ کا کلمہ پڑھا اور اس پر ایمان لائی۔ آپ بھی اپنے اللہ کا کلمہ پڑھیں اور اس پر ایمان لائیں۔‘‘
…٭…
آپ نے دیکھا‘ پھٹے پرانے کپڑے پہننے والی ایک غریب دھوبن بھی کوٹھیوں میں رہنے والوں کو اسلام کی دولت سے مالا مال کر سکتی ہے۔ اسلام اللہ کا دین ہے‘ اس میں بڑی کشش ہے‘ بے پناہ تاثیر ہے اور جذب کرنے کی غیر معمولی قوت ہے۔ سوچیے کہ آپ کس طرح اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کر رہے ہیں اور آپ کی زندگی سے اسلام کی کی ترجمانی ہو رہی ہے؟

حصہ