سمے کا سمندر

204

عجیب وحشت کا عالم تھا، لوگ آنکھوں پر پٹی باندھے قہقہے لگاتے دوڑ رہے تھے۔ اُنہیں لگتا تھا آنکھوں پر بندھی اس پٹی کے پیچھے ایک حسین دنیا ان کی منتظر ہے، پَر حقیقت میں تو وہاں آگ تھی۔ عمر اُن لوگوں کو لے جانے کے لیے وہاں پہنچا تھا۔مرد اور عورتوں کے چہروں پر ایک دوسرے کو دیکھ کر جو خبیث ہنسی ابھری تھی اُسے عمر نے دیکھا تھا، غم و غصے سے رگیں تن گئی تھیں۔ اس منظر کی وحشت اس پر طاری تھی۔
عمر آگے بڑھ کر ایک ایک کو روکنے کی کوشش کرتا، مگر لوگ ہاتھ چھڑا کر وہیں بھاگ رہے تھے۔ اس ہجوم کو لے جاتا ہوا ایک آدمی عمر کی طرف آیا اور کہا ’’کیوں اپنی جان ان لوگوں کے پیچھے کھپاتے ہو، ہم نے ان کا تعارف بہت رنگین دنیا سے کروایا ہے، تم کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘
عمر نے آگے بڑھ کر ایک زوردار مُکّا اس کے منہ پر مارا تھا، اس آدمی کے منہ سے خون بہنے لگا تھا، مگر وہ ڈھیٹ بنا ہنستے ہوئے واپس ان لوگوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔
پیچھے سے ایک عورت بھاگتی ہوئی عمر کے پاس آئی تھی ’’چلو عمر! جلدی چلو۔‘‘ عمر جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا، ماں کے الفاظ کان میں گونجے تھے ’’عمر میرے بیٹے! اپنے رب کی محبت کا مان رکھ لینا…‘‘ پھر سے کچھ لوگوں نے پکارا تھا ’’چلو عمر یہ راستہ ترقی یافتہ لوگوں کا راستہ ہے، نئی دنیا کا راستہ ہے۔ اس راستے پر کسی چیز کی فکر نہیں… بس آزادی ہی آزادی ہے۔‘‘
عمر اُن لوگوں میں سے نہیں تھا جو گناہوں کی لذت کو دیکھ کر اپنے ایمان بیچ ڈالتے ہیں۔ عمر نے تحمل سے سمجھانا چاہا ’’اپنی آنکھوں پر سے پٹی تو ہٹائو، آگے آگ ہے، جگہ جگہ فحاشی اور گندگی کے ڈھیر ہیں… آزادی کے نام پر یہ لوگ تمہیں استعمال کرنا چاہتے ہیں، تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ کر تمہیں دنیا کی سچائی سے دور لے جائیں گے۔‘‘
عمر کی بات سن کر وہ عورت زور زور سے ہنسنے لگی تھی، عمر کو غلط الفاظ کہتی وہ عورت آگے بڑھ گئی تھی۔ لوگوں کا یہ ہجوم ناچتا گاتا، قہقہے لگاتا، آزادی اور ترقی کے نعرے مارتا آگے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
عمر نے کرب سے آنکھیں میچی تھیں اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا۔ تکلیف کی شدت سے دل پھٹنے کو تھا۔ عمر کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تھا ’’کیا بات ہے بیٹے! کیوں اتنے پریشان ہو؟‘ بوڑھے شخص نے کہا تھا۔
’’امتِ مسلمہ ایک وجود کی مانند ہے، اور جب وجود کے ٹکڑے ہوجائیں تب تکلیف تو ہوتی ہے، ہمارا یہ راستہ تو نہ تھا جس پر یہ لوگ چل پڑے، دنیا کی محبت کب سے اِن کے دلوں میں بیٹھ گئی، یہ تو سوچی سمجھی سازش ہے۔‘‘
’’ایسے کیوں کہہ رہے ہو بیٹے؟‘‘
’’آج میں نے بہت عجیب خواب دیکھا یوسف بابا! جب اللہ ہم سے پوچھیں گے کہ تم نے کیا کِیا دنیا میں دینِ اسلام کو نافذ کرنے کے لیے؟ میں نے تمہیں اپنا نائب بناکر دنیا میں بھیجا تھا، تو کیا جواب دیں گے ہم؟‘‘
’’تم آخرت میں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہو؟‘‘
’’جی یوسف بابا…‘‘
’’تو اپنے لمحوں میں اپنے رب کو یاد رکھو،کیوں کہ یہ جو سانس تم لیتے ہو یہ تم خود ہی نہیں لے لیتے، بلکہ یہ بھی اللہ کی عنایت ہے، تو پھر نافرمانی کیسی! مغربی تہذیب کو چھوڑ کر اپنی تہذیب کو اپنانا ہوگا، پہلے تم خود پر دین کو نافذ کرو پھر اپنے گھر پر، اس کے بعد جن جگہوں پر تمہارا اختیار ہے وہاں، کیوں کہ اللہ کوشش کرنے والے کو پسند کرتا ہے، قیامت کے روز تو شیطان بھی مکر جائے گا، وہ کہے گا میں نے انسان کا ہاتھ پکڑ کر اس سے گناہ تھوڑی کروایا تھا، میں نے تو صرف اس کو بہکایا تھا۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہیں آپ…‘‘
’’چلو اٹھو عمر! ابھی تو بہت سے کام کرنے ہیں۔‘‘