دلیری

195

اورنگ زیب کا مختصر حال آپ پڑھ چکے ہیں۔ یہ بہت خدا ترس اور نیک بادشاہ تھا حکومت کا سارا کام بڑی جاں فشانی سے انجام دیتا۔ پھر بھی شاہی خزانے سے اپنے ذاتی اخراجات کے لیے ایک پیسہ بھی نہ لیتا۔ قرآن مجید کی کتابت کرکے اس کے ہدیے سے اپنا پیٹ پالتا۔ کبھی کبھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرتا اور اسی آمدنی سے گزر اوقات کرتا۔
ایک دن کا ذکر ہے۔ اورنگ زیب صبح سویے اٹھا اور تفریح کے لیے جنگل کی طرف نکل گیا۔ اس وقت وہاں کا منظر بڑا سہانا تھا۔ ہر طرف قدرت کی کاریگری کے جلوے نظر آرہے تھے۔ نسیم سحر کے جھونکوں سے جنگل کے ہرے بھرے درخت جھوم رہے تھے۔خوش رنگ پھول آنکھوںکو دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔ درختوں پر طائرانِ خوش الحان باری تعالیٰ کی حمد و ثنا کے نغمے الاپ رہے تھے۔ عالمگیر اس منظر سے بہت متاثر ہوا۔ اردگرد کی تمام اشیاء کو محوِ تسبیح دیکھ کر وہ بھی وہیں رک گیا اور شکرانے کی نماز ادا کرنے لگا۔
ابھی وہ نماز سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ وہاں ایک شیر آنکلا۔ بادشاہ عبادت میں مشغول تھا۔ اسے شیر کے آنے کی قطعاً خبر نہ ہوئی۔ شیر نے پیچھے سے آکر عالمگیر کی کمر پر پنجہ مارا۔ بادشاہ بالکل ہراساں نہ ہوا۔ اسے خدا کے علاوہ کسی کا خوف ہی کب تھا۔ ہاتھ میں تلوار سنبھالی اور اس دلیری سے شیر پر وار کیا کہ شیر کا پیٹ چاک ہو گیا۔ اور وہ وہیں گر کر مر گیا۔

حصہ