ہم جنس پرستی کا اندوہناک نتیجہ

300

ماہ کی معصوم بچی کا بدترین تشدد کے بعد قتل16
انسانی حقوق اور انسانی جانوں کی قدر کے نام پر قائم معاشروں میں کوئی نہ کوئی چھپی خبر ان کی انسانیت کی تذلیل کی گواہی دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
یوں تو سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کو سرمائے کا غلام بننا سکھایا اور اس کے ساتھ ہی فلاحی ریاستوں کا تصور بھی مسخ کرکے ان کو انسانوں کی فلاح سے زیادہ اس نظام کو تحفظ دینے اور اس کی فلاح پر لگا دیا ۔ برطانیہ‘ جوکہ اب بھی ایک فلاحی ریاست کے طور پر اپنی شناخت کو قائم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے‘ یہاں سے بھی ایسی خبریں یکے بعد دیگرے سامنے آتی ہیں جوکہ فلاحی ریاست کے تصور کو دھندلا دیتی ہیں۔ وہ معاشرہ جو انسان کی فلاح کے نام پر قائم ہو اس میں اگر سگے رشتے بھی فلاح کے مفہوم سے محروم رہیں تو اس کو ایک بے روح معاشرہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ عرصے قبل عمر رسیدہ افراد اور ان کی تنہائی کے حوالے سے بات کی تھی کہ جہاں عمر کے اس حصے میں ان کو اپنے بچوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہاں ان کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گوکہ ریاست اپنے طور پر ان کی فلاح و دیکھ بھال کا اہتمام تو کرتی ہے اور شاید ان کی طبی ضروریات بھی پورا کرتی ہے لیکن اُن کی روحانی اور نفسیاتی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے جس کو صرف اور صرف اُن کے سگے بیٹا، بیٹی، بھتیجا، بھانجا یا کوئی اور رشتہ ہی پورا کرسکتا ہے۔ یعنی فلاحی ریاست تو ہے لیکن انسان اس میں فلاحی نہ بن سکا۔ یہ وہ چہرہ ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکی کو ظاہر کرتا ہے۔
برطانیہ سے ہی ایک خبر نے جہاں اس معاشرے کی بُنت اور فلاحی ریاست کے قیام پر سوال اٹھا دیے ہیں‘ وہیں حقوقِ نسواں اور اس سے بڑھ کر ہم جنس پرستی پر سنگین نوعیت کے سوالات بھی اٹھائے ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق 16 ماہ کی بچی کو ویسٹ یارک شائر، بریڈ فورڈ کے قریب تشدد سے ہلاک کردیا گیا اور یہ تشدد کرنے والی کوئی اور نہیں اس کی سگی ماں اور ماں کی گرل فرینڈ ( پارٹنر) تھی کہ جس کے ساتھ وہ قیام پذیر تھی۔ 16 ماہ کی خوب صورت بچی جس کا پورا نام ’’اسٹار ہوبسن‘‘ تھا اس کو مبینہ طور پر اس کی ماں کی پارٹنر نے جوکہ اس کے ساتھ ہی قیام پذیر تھی‘ تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ تشدد کرنے کا یہ کوئی ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک طویل عرصے تک تشدد کرکے اس کی ہڈیاں توڑ دی گئیں اور بالآخر ننھی کلی اس تشدد کے باعث ستمبر 2020 کو ابدی نیند سوگئی۔
تشدد کا یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے کہ برطانیہ میں بچوں کی حفاظت کے سخت قوانین کے باعث کسی کو طویل عرصے تک تشدد کرکے مار ڈالنا ناقابل فہم ہے۔ اس سلسلے میں بچی کی بے بی سٹر نے بریڈ فورڈ کونسل کی سوشل سروسز کو بچی کے متعلق جنوری 2020 میں پہلی شکایت درج کروائی تھی کہ بچی کے ساتھ اس کی والدہ کا برتائو درست نہیں تاہم اس پر کونسل نے کوئی کارروائی نہیں کی جس کے باعث طویل تشدد سہنے کے بعد یہ ننھی کلی مرجھا گئی۔
اس ضمن میں برطانوی عدالت نے کارروائی کرتے ہوئے بچی کی ماں ’’فرینکی اسمتھ‘‘ اور اس کی پارٹنر ’’سوانا بروک ہل‘‘ پر فرد جرم عائد کرکے ان کو قتل کا مجرم قرار دیا ہے۔ تاہم حتمی فیصلے کے بعد ہی سزا کا تعین کیا جائے گا۔
بچی کے والدین نے اس وقت علیحدگی اختیار کی جب بچی کی عمر صرف چھ ماہ تھی۔ اس کے ایک ماہ بعد بچی کی والدہ نے ہم جنس پرستی سے متاثر ہوکر ایک خاتون پارٹنر کا انتخاب کیا۔
اطلاعات کے مطابق دونوں ہم جنس پرستوں کے تعلق شروع سے ہی پُرتشدد رہے لیکن حکومت، پولیس اور کونسل اس پر کارروائی کرنے میں ناکام رہی جس کا نتیجہ ایک معصوم جان کے قتل کی صورت میں برآمد ہوا۔
یہ محض ایک افسوس ناک واقعہ ہی نہیں بلکہ اپنے پیچھے بہت سے ایسے سوالات چھوڑ گیا ہے کہ جس کا جواب دینا اب ہم جنس پرستی کی تحریک، حقوق نسواں کی تحاریک اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے نعرے لگانے والوں کے سر ہے۔
کیا عورت ہم جنس پرستی میں چھپ کر اپنا تحفظ کرسکتی ہے؟
کیا عورت ہی عورت کے حقوق کو غصب کرنے‘ حتیٰ یہ کہ ان کو جینے کا حق دینے سے بھی محروم کرنے کی کوشش نہیں کررہی؟
کیا عورت کو محض مرد کی ذات سے ہی خطرہ ہے؟
کیا خاندانی نظام کو تباہ کرکے کوئی معاشرہ یا خاندان فلاح کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے؟
انسان فطرت سے بغاوت کرکے جتنے بھی قوانین بنائے گا اس کا حتمی نتیجہ صرف اور صرف تباہی کی صورت میں ہی نکلنا ہے۔ ہم جنس پرستی کی تحریک کا‘ جس کا ابھی آغاز ہی ہے‘ اور پوری دنیا میں اس کے نعرے گونج رہے ہیں‘ یہ اس کے ابتدائی نتائج میں سے ایک ہے نہ جانے ایسی کتنی ہی خبریں ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں لیکن جب یہ سب سامنے آئیں گی تب تک فطرت سے اس بغاوت کا اندازہ نہیں ہوگا۔ جب برطانیہ جیسی فلاحی ریاست میں انسان کو ہم جنس پرستی میں بھی تحفظ حاصل نہیں تو پھر دیگر ممالک جہاں پر اس کا اطلاق کیا جا رہا ہے وہاں عورت کو ایک نئی غلامی میں دھکیلنے کا میدان سجایا جا رہا ہے شائد پر مستقبل میں عورت کو شاید اپنی بات کرنے کی آزادی بھی میسر نہ ہوگی۔

حصہ