سقوط ڈھاکہ نصف صدی بعد

298

(دوسری قسط)
قومی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد اسلامی نظام کے نفاذ پر کوئی توجہ ہی نہیں دی، بلکہ اس سے گریز کرتے رہے۔ کیونکہ اس کی بنیادی وجہ انگریز کا بنایا ہوا سسٹم تھا ، وہ ہمیں جوں کا توں مل گیا۔ حتیٰ کہ کئی برس تک مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ایک انگریز جنرل گریسی رہا۔ اسی طرح رائل انڈین آرمی کا نام بدل کر پاک آرمی رکھ دیا گیا، جبکہ سسٹم وہی انگریزی رہا ۔یہی حال بیوروکریسی کا بھی تھا، وہ بھی انگریز کی تربیت یافتہ تھی ۔ ان کی تربیت میں اسلام کے سوا’’ سب کچھ‘‘ تھا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒاپنی بیماری کے باوجود نوزائیدہ ریاست کے بنیادی مسائل سے نبرد آزما تھے۔ چونکہ اتنی رکاوٹوں کے باعث فوری طور پر اسلامی نظام کے نفاذ کا امکان نہ تھا، اس لئے مشرقی پاکستان کو خصوصی اسٹیٹس دیا جانا چاہئے تھا، اسے سندھ اور پنجاب کی طرح ڈیل نہیں کرنا چاہئے تھا۔لیکن یہ بھی نہیں ہوسکا۔
زبان کا مسئلہ ان کے لئے بہت حساس تھا، اس لئے اگر بنگلہ اور اردو دونوں کو سرکاری زبان کا درجہ مل جاتا تو کوئی قیامت نہیں آجاتی ۔ چنانچہ قیام پاکستان کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ زبان کے مسئلے پر مطالبے سراٹھانے لگے۔
11مارچ 1948کو ڈھاکہ میںشیربنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق کی قیادت میں بنگلہ کو قومی زبان قراردینے کے حوالے سے مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ خواجہ ناظم الدین کی قیامگاہ پر مظاہرہ ہوا۔جلوس کے شرکاء اس بات پر زیادہ ناراض تھے کہ نئے سکوں اور ڈاک کے ٹکٹوں پر صرف اردو ہی میں الفاظ درج ہیں۔جلوس کے شرکاء کا پولیس سے تصادم ہوگیا ، جس میں مولوی ابوالقاسم فضل الحق سمیت بہت سے افراد زخمی ہوئے۔
دس روز بعد ہی یعنی 21مارچ کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکا میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں اعلان کیاکہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی اور کوئی دوسری زبان نہیں۔ان کی دلیل یہ تھی کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی ، جب تک کہ اس کی ایک سرکاری زبان نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس صوبے یعنی مشرقی بنگال کے عوام اپنے صوبے کے لئے جو زبان چاہیں اسے منتخب کرسکتے ہیں۔ اور اس بات کا فیصلہ صرف اس صوبے کے عوام ہی اپنی مرضی سے اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ مناسب وقت پر کریں گے۔یعنی آئین کی تیاری کے وقت ۔
اس تقریر پر تنقید کرتے ہوئے مولوی فضل الحق نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ گورنرجنرل کا یہ اعلان کہ اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی، مطلق العنانیت ہے۔ گورنر جنرل کا یہ کام نہیں کہ وہ بتائے کہ ملک کی سرکاری زبان کون سی ہوگی ۔ اس سلسلے میں فیصلے کا حق عوام کو ہے اور سرکاری زبان کا فیصلہ کرنے کے لئے استصواب رائے کروانا چاہئے۔
چونکہ بنگالی عوام قائد اعظم کا بہت احترام کرتے تھے اس لئے ان کی تقریر کے بعد زبان کے معاملے پر کچھ عرصے کے لئے خاموشی طاری ہوگئی۔لیکن جب 11ستمبر 1948کو بانی ٔ پاکستان کی وفات ہوگئی اور زبان کا مسئلہ جوں کا توں رہا تو بنگالی عوام کے جذبات بے قابو ہوگئے۔
صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ 23جون 1949کو مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے، جن میں ناراض لیگی رہنما بھی شامل تھے، اپنی ایک الگ سیاسی جماعت بنالی ۔اس کا نام عوامی مسلم لیگ رکھا گیا ۔اگرچہ چند سال بعد عوامی مسلم لیگ میں سے مسلم کا لفظ ہٹا دیا گیا اور اسے عوامی لیگ کردیا گیا۔ چونکہ بنگالی رہنما اپنی پارٹی کو سیکولر بنیاد پر چلانا چاہتے تھے، اس کے پہلے صدر مولانا عبدالحمید بھاشانی تھے اور اس کے جوائنٹ سیکرٹریز میں پاکستان کے ایک طالبعلم رہنماشیخ مجیب الرحمن شامل تھے۔وہ اس سے قبل مسلم اسٹوڈینٹس فیڈریشن میں رہ چکے تھے۔ ان کے سیاسی گرو حسین شہید سہروردی تھے۔وہ قیام پاکستان سے قبل مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے مسلم لیگ چھوڑ دی اور جب عوامی لیگ قائم ہوئی تو سہروردی بھی اس کا حصہ تھے۔
زبان کے معاملے پر بننے والی عوامی لیگ نے پہلے دن سے اپنی جدوجہد بنگلہ کے حوالے سے شروع کی۔ لیکن 26جنوری 1952 کو ایک اور بنگالی رہنما کے بیان سے صورتحال بدل گئی ، ہوا یوں کہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے ، جو خود بھی بنگالی تھے، ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ملک کی سرکاری زبان اردو ہی ہونی چاہیے۔ ان دنوں پاکستان کا آئین بن رہا تھا اور اس مسئلے کا حل ضروری تھا۔ اس کے فوری بعد مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کے حق میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ عوامی لیگ ان کی قیادت کررہی تھی۔
ان مظاہروں کو روکنے کے لیے 20فروری 1952کو ڈھاکا میںدفعہ 144نافذ کردی گئی۔لیکن ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ نے اس پابندی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور 21فروری کو سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ گاڑیوں کو زبردستی روکنے اور پتھراؤ کرنے لگے۔ پولیس نے ان مظاہروں کو روکنے کے لیے ڈھاکا یونیورسٹی میں فائرنگ کردی، جس کے نتیجہ میں آٹھ طلبہ جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
چندروز بعد مشرقی بنگال کی اسمبلی نے اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی پاکستان کی قومی زبان بنانے کی قرارداد منطور کرلی ۔ یوں وہ مسئلہ جسے پہلے چند طلبہ یا ’’غدار عناصر‘‘ کا مسئلہ سمجھا جارہا تھا مشرقی پاکستان کے تمام عوام کا متفقہ مطالبہ بن گیا۔ مگر مغربی پاکستان کے رہنما اسے بدستور غداری ہی سے تعبیر کرتے رہے اور اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کو قومی یکجہتی کے خلاف سازش اور اردو زبان کا قتل قرار دیا جاتا رہا۔
اس بات کا اندازہ ا س امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 7مارچ 1952کو کراچی میں تحریک پاکستان کے ایک رہنما حسین امام کی صدارت میں کراچی کے ممتاز شہریوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کے مطالبہ کو پاکستانی سا لمیت پر ضرب کاری قرار دیا۔ 26جولائی 1953کو شیربنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے ڈھاکا میں ایک نئی سیاسی جماعت ’’کرشک سرامک پارٹی (کسان مزدور)‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بنیادی مقاصد میں اس صوبائی خودمختاری کا اصول سرفہرست تھا، جس کا 1940کی قرارداد پاکستان میں (جو خود مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی) وعدہ کیا گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس نے مشرقی پاکستان کی مکمل خودمختاری اور بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان کادرجہ دینے کا مطالبہ بھی کردیا۔
مشرقی پاکستان میں حالات دوسری جانب جارہے تھے ، جن کا ادراک مغربی پاکستان میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو نہیں ہوسکا یا وہ انجان بنے رہے۔ 4 دسمبر 1953کومشرقی پاکستان میں ایک انتخابی اتحاد ’’جگتو فرنٹ‘‘ قائم ہوا۔ وہ اتحاد چار سیاسی جماعتوں عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی ، گن تنتری دل اور نظام اسلام پارٹی پر مشتمل تھا۔ جن کے قائدین حسین شہید سہروردی، مولوی فضل الحق ، مولانا عبدالحمید بھاشانی اور مولانا اطہر تھے۔
اس فرنٹ نے مارچ 1954 مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں شرکت کے لئے اکیس نکاتی منشور پیش کیا ۔ یہ منشور عوام کی خواہشات اور جذبات کا ترجمان تھااور اس میں مکمل صوبائی خود مختاری ، اردو کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان کادرجہ دینے سمیت متعدد مطالبات شامل تھے۔ اپنے اس منشور کی وجہ سے جگتو فرنٹ دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پاکستان کا مقبول ترین سیاسی اتحاد بن گیا ۔
8مارچ کو پولنگ ہوئی، انتخابی نتائج بڑے حیران کن تھے۔ مسلم لیگ کو 309کے ایوان میں صرف9 نشستوں پر کامیابی ہوئی۔ سب سے براحال مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ نورالامین کا ہوا، جنہیں ایک غیرمعروف طالب علم رہنما خالق نواز خان نے ان کے اپنے حلقے میں شکستِ فاش سے دوچار کیا۔
ان انتخابات نے واضح کردیا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کن خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ انتخابات کے بعد جگتوفرنٹ کے رہنما مولوی فضل الحق مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ انہوں نے 3اپریل 1954کو اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔
لیکن ان انتخابات کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ 7مئی 1954کو کراچی میں ملک کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں کثرت رائے سے اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی قومی زبان قرار دینے کی قرار داد منظور کرلی گئی۔ اس سے قبل کراچی میں 22اپریل کو اس متوقع فیصلے کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا ۔ اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی قیادت میں تقریباً ایک لاکھ افراد نے دستور ساز اسمبلی کے سامنے مظاہر ہ بھی کیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ صرف اور صرف اردو ہی کو ملک کی واحد قومی زبان قرارد یا جائے۔
مرکزی حکومت جگتو فرنٹ کی حکومت کو صرف دوماہ ہی برداشت کرسکی، ان دوماہ کے اندر چند معمولی واقعات کو بہانہ بنا کربنگال میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ 23مئی 1954کو گورنر جنرل غلام محمد نے فضل الحق کی حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ اسکندر مرزا کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کردیا گیا۔اس طرح ملک کی اکثریت کو خود ان کے اپنے صوبے میں اقتدار سے محروم کردیا گیا۔
مولوی فضل الحق کی حکومت ختم کرنے کے لئے جن واقعات کو جواز بنایا گیا ان میں سرفہرست یہ تھا کہ 23مئی کو نیویارک ٹائمز میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں ان سے یہ جملہ منسوب کیا گیا کہ مشرقی بنگال کی آزادی ان کی وزارت کا سب سے اہم مقصدہے۔ انہوں نے واضح اور واشگاف الفاظ میں اس کی تردید کی اور کہا کہ یہ ان کی وزارت کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ اس سے پہلے 15مئی 1954 نارائن گنج میں واقع آدم جی جوٹ ملز میں خونریز فسادات ہوئے جن میں سات سو کے لگ بھگ غیربنگالیوں کا قتل عام کیا گیا۔
ان فسادات سے جگتو فرنٹ کی حکومت کی شہرت داغدار ہوئی۔ اخبارات نے الزام لگایا کہ بھارت سے بڑی تعداد میں ہندو اور ان کی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے لوگ مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ اور ان ہی لوگوں نے کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر فسادات کرائے ہیں۔ جبکہ فضل الحق کی حکومت نے فسادات روکنے کے لئے بروقت ایکشن نہیں لیا۔
مشرقی پاکستان میں پاک فضائیہ کے طیاروں سے پرچیاں گرائی گئیں ، جن پر لکھا تھا کہ شیربنگال مولوی فضل الحق ملک توڑنا چاہتے تھے۔ اس لئے ان کی حکومت برطرف کی گئی ہے۔ یوں وہ رہنما جس نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی، اسے غدار قرار دے کر گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جگتو فرنٹ کے تیرہ (13) ارکان اسمبلی سمیت 659کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں اس دوماہ کی جگتو فرنٹ کی حکومت کے وزیر زراعت شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔
حسن ظہیر نے اپنی کتاب The separation of East Pakistan میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں 1954-55ء میں ہونے والی بعض تقاریر کے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ یہ تقاریر مشرقی پاکستان کے بنگالی منتخب اراکین کی تقاریر ہیں۔ ان تقاریر میں بنگالی سیاست دان کہہ رہے تھے کہ اگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کے سلسلے میں اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ملک کو متحد نہیں رکھا جاسکے گا۔ یہ اپنی طرز کی واحد شہادت نہیں ہے۔ آصف جیلانی پاکستان کے ممتاز اور پاکستان سے محبت کرنے والے صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ایک اپنے ایک کالم میں لکھا:۔
’’یہ اُن دنوں کی بات ہے جب اکتوبر 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی اور اس اقدام کو دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں للکارا تھا۔ اس دوران جب چیف جسٹس کانسٹنٹائن کی عدالت میں مولوی تمیزالدین خان کا مقدمہ چل رہا تھا، ہم چند صحافی، مَیں، ڈان کے رپورٹر مشیر حسن، اے پی پی کے مظفر احمد منصوری اور جنگ کے اطہر علی چیف کورٹ کی کینٹین میں چائے پی رہے تھے۔ اتنے میں سابق وزیر تجارت فضل الرحمان جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، قریب سے گزرے۔ ہم نے ان کو اپنی میز پر بلایا اور سیدھا سوال کیا کہ اب کیا ہوگا؟ فضل الرحمان صاحب نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر جواب دیا ’’اب پاکستان ٹوٹ جائے گا‘‘۔ ہم سب اُن کے اس جوا ب پر اچھل پڑے۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ کس بناء پر وہ یہ کہہ رہے ہیں؟ فضل الرحمان صاحب نے بلا کسی جھجک کے کہا کہ دستور ساز اسمبلی
کی برطرفی کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے اور اب بہت جلد فوج ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلے گی۔ فوج چوںکہ مغربی پاکستان کی ہے، اس لیے مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں سے یہ حقیقت نہیں مٹائی جاسکے گی کہ مغربی پاکستان ان پر حکمرانی کررہا ہے اور یہ بات مشرقی پاکستان کے عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگی، وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور بالآخر پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ہم سب کا دل دھک سے رہ گیا اور ہم میں سے کوئی بھی فضل الرحمان صاحب کو نہیں للکار سکا۔ ابھی اٹھارہ سال بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ پاکستان دولخت ہوگیا‘‘۔ (جاری ہے)

حصہ