حیا باختہ فلمیں

367

انٹرنیٹ جنسی وحشت کا ایک بہکا ہوا ’’جادوئی آئینہ‘‘ ہے جو ہماری پناہ گاہوں میں داخل ہوکر ہماری شکلیں بگاڑ چکا ہے جیسے کہ تیزاب سے پگھلی ہوئی صورتیں ہوں۔
انسان جبلتیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ قدریں بناتا ہے۔ انہی اقدار کے گھنی چھائوں میں چین سے جیتا اور پھر اسی کو بچانے کے لیے اپنی جان نچھاور کرتا ہے۔ لیکن اب زمانے کے تیور الگ ہیں۔ جہاں انسان اب اپنی رائے رہن رکھ کر جیتا ہے۔ اشتہارات اس کی رائے بننے نہیں دیتے۔ عکس و آواز کے بھیڑیوں نے اس کی روح روند ڈالی ہے۔ اشتہارات کی بازاری دنیا نے انٹرنیٹ کے جادوئی دروازوں کو کھول کر نئی نسل کے معصوم ذہنوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انٹرنیٹ کی جنسی وحشت کابہکا ہوا ’’جادوئی آئینہ‘‘ ہماری پناہ گاہوں میں داخل ہوکر ہماری شکلیں بگاڑ چکا جیسے تیزاب سے پگھلی ہوئی صورتیں ہوں۔
جس نے ہمارے بچوں کے ایمان سے روشن چہروں کو جلاکر مسخ کردیا ہے۔ ہزار پاؤں والے گناہ فروغ کنکھجورے ہماری زندگی میں داخل ہو رہے ہیں۔ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ محتاط ذہن پریشان ہے کہ ’’ہوس کو ہے نشاط کار کیاکیا۔‘‘
انٹر نیٹ نے اپنے دریچوں سے ایسی ایسی بلاوں کو بھیجا ہے کہ بچے سہم سے گئے ہیں۔ انھوں نے گمبھیر گتھیوں کو وقت سے پہلے حل کرنا سیکھ لیا ہے۔ بڑی عمروں کی فصیلوں کی اوٹ میں چھپے راز پالیے ہیں۔ وقت سے پہلے جاگی ہوئی جنسی قوتیں انھیں ایک ذہنی جنگ میں جھونک چکی ہیں۔ جن کے تقاضوں سے وہ ابھی واقف بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں ذہنی خلجان میں گھری اس نسل کے ساتھ بڑا آسان ہے کہ ہم ان کے مسائل، ان کے غم کو سمجھے بغیر انھیں ڈانٹ کا کاڑھا پلائیں۔ انھیں جھڑکیاں دیں۔ مفت کی ریوڑیوں کی طرح مشورے بانٹنے لگ جائیں۔ رٹی رٹائی نصیحتیں ان پر اُنڈیل کر انھیں مجرم گردانیں۔ بات ممکن ہو قدرے تلخ ہو:
جناب ِ شیخ کی توبہ کو کیا کہوں ماہرؔ
میں جانتا ہوں بڑھاپے کی پارسائی ہے
’’ہم‘‘ نے ان معصوم ذہنوں کو کون سی محفوظ پناہ گاہیں دی ہیں۔ ’’ہم‘‘ سے مراد گھرانے، حکومتیں، معاشرہ، تعلیمی ادارے اور منبرِ ہدایت کے دل پذیر میٹھے میٹھے بول، اُن کی دل کی دنیا بدلنے والے محبت بھرے خطبے جس سے ان کی تنہائیوں میں رب کا راج ہو، ایمان کا کھرا سکہ ان کے دلوں کی راج دھانی میں چلتا رہے۔ جب تنہائیاں خدا کے تصور سے خالی ہو جاتی ہیں تو فن کے سہارے گمراہیاں دشمن کی طرح حملہ کرتی ہیں۔ جہاں لوگ آگے بڑھ کر اپنی چوکی خود دشمن کے حوالے کردیتے ہیں۔
فحاشی کے منڈیوں کے سفاک بازی گروں نے جنسی گناہ کو عالمی صنعت بنا کر پیش کردیا۔ جن کی رنگین فلموں کا بجٹ ’’ہالی ووڈ اور بالی ووڈ‘‘ سے زیادہ ہے۔ جو ہر 30 سیکنڈ میں ایک نئی فلم ریلیز کر رہے ہیں جسے دیکھنے کو کم از کم 150 سال کی عمر درکار ہے۔ ان بجلیوں کے کوندے اور آروں کی کاٹ سے ہلاک ہونے والی معصوم جانوں پر الزام دھرنے سے پہلے دشمن کی طاقت کا اندازہ کریں جس نے فحاشی و قحبہ خانوں کے کلچر کو روشنی، گرمی، آواز، لمس، ذائقہ، رنگ، خوش بو کے ساتھ کہانی اور کردار دے کر تصورات کی دنیا کا فضلہ ہمارے حوالے کردیا۔ دیکھا جائے تو عریاں فلموں کی لت تو ایک دھواں ہے۔ اصل سبب وہ اختیار ہے جہاں انسان دعوتِ گناہ کو ردکرنے کی جرات سے محروم ہو جاتا ہے۔ پل بھر کی راحت پانے کے لیے فلمی فاحشائوں کے حیا باختہ سوانگ دیکھنے کے لیے اپنے پورے سکھ چین کا سرمایہ قربان کر دیتا ہے۔ اِدھر فلم تمام ہوتی ہے اُدھر روحانی اذیتیں سمیٹ کر پھر سے تنہا ہو جاتا ہے۔ گناہ فروغ فلموں کی خوش شکل چڑیلیں اپنی ہوس ناکیوں سے بصری آزار کے ساتھ ، ہمارے دل کوتاریکیاں اور ذہنی اندھیرے دے جاتی ہیں۔ ’’پہلے پہلے ہوس ایک آدھ دکان کھولتی ہے‘ پھر تو بازار کے بازار لگ جاتے ہیں‘‘
ڈاکٹر بیرنی برائون نے جرائم کے بعد شرمندگی کے اس پہلو کو لکھا جہاں اپنے وجود کو جرائم کی تباہیوں کی بعد سے جو اثرات انسانی شخصیت پر پڑتے ہیں۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ ایسا پامال وجود کسی بھی بڑی مہم کے قابل نہیں رہتا۔ جرائم کے بعد انسان کا جاگتا ہوا ضمیر ندامت، خجالت اور شرمندگی سے دیکھی ہوئی فلموں کے روحانی جزام سے بھرے منظروں کو نہ کسی سے کہہ سکتا ہے اور نہ دل کا اضطراب بتا سکتا ہے بلکہ اس تلذذ کی چاہ ہر دن بڑھ جاتی ہے۔ جیسے کوئی چرس، کوکین چاٹنے والے کو ہر دن مقدار بڑھانی پڑتی ہے۔ اس کے جی کو کوئی پل چین نہیں ملتا۔ ذہنی دبائو ، قلبی ہیجان اس کے جنسی تونس کو شعلوں سا دہکا کر اس کے وجود کو جھلسا دیتے ہیں۔
اس غیر تخلیقی اور بے نتیجہ لذت کی لت کے ہزاروں اسباب ہیں۔ ایک تو شریک ِ جرم ساتھی۔ دوسرا ہوس پرست ادب۔ اس قماش کے برہنہ ذہن ادیبوں کی مثال ایسی کہ جیسے وہ اپنی قے کو ایک فطری، آفاقی مسئلہ بنا کر اپنے مضامین کے چوراستے پر قے کر دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ جتلاتے ہیں کہ یہ ایک فطری اسقاط ذہنی تھا۔
ہوس پرست ادیبوں پہ حد لگے کوئی
تباہ کرتے ہیں لفظوں کی عصمتیں کیا کیا
تیسرا سرغنہ وہ شریک جرم ٹولہ ہے جو فلم سازی کر رہا ہو۔ جو مفت میں جنسی زہر کی سبیلیں انٹر نیٹ پر جگہ جگہ کھلی رکھتے ہیں۔ جن کے ٹی وی چینلز بھی ہیں۔ جن کے کام کے بارے میں میری لکھی ہوئی ایک مناجات ’’معصوم دعائیں‘‘ کا ایک شعر:
یہ عکس و صدا کے بازی گر، عاری ہیں حیا سے جو یکسر
آواز سے داغا کرتے ہیں، منظر جلایا جاتا ہوں
ایک بڑے سائنسی تجربہ کا ایک حیرت انگیز انکشاف دیکھیں۔ آکسفورڈ کی عالمی شہرت یافتہ نیورو سائنٹسٹ خاتون Valorie Voonنے خوف ناک نشہ بازوں اور فحش فلموں کے دیکھنے والو ں کے دماغ کا FMRI Scanningکیا تو پتا چلا کہ ڈوپامین ریسیپٹر کی تیزی‘ خط ِ مسرت کی طلب بڑھا دیتی ہے۔ ہر فلم دیکھنے کے بعد اس کے تقاضے بڑھتے رہتے ہیں۔ پہلے پہل یہ اتفاقیہ تفریح شوق میں بدلتی ہے پھر یہ ایک لت سے لعنت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایسے پچکے ہوئے دماغوں کی حالت ڈرگس لینے والوں کے برابر ہوجاتی ہے۔
Gary Wilson’s book “Your brain on Porn”میں ہوس کاری کا انجام لکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ دماغ کا وہ ’’فیصلہ گھر‘‘ جو پری فرنٹل نیو کورٹیکس ہے وہ اپنی تخلیقی کارکردگی کو چھوڑ دیتا ہے۔ نتیجہ خیزی کا ہنر دم توڑنے لگتا ہے۔ اس لت سے 1۔ حس لطیف مر جاتی ہے۔ 2۔عریانیت اور فحاشی کو ذہن قبول کرلیتا ہے۔ 3۔عریانیت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیتا ہے۔ یہاں سے اس لعنتی مجرم کا معاشرے سے ٹکرائو شروع ہوجاتا ہے۔ اس تن آسان ہوس پسند فرد کی حواس باختہ زندگی الجھنوں میں گھر جاتی ہے۔ اپنی شریک سفر سے وحشت کا تقاضا کرتا ہے۔ فطری اصول و تقاضوں کی جنسی قوت اس کے اختیار میں نہیں رہتی۔ اس لت میں گھرے شخص کی خود کلامی بھی بدل جاتی ہے۔ عزت نفس کی تباہیاں شروع ہوجاتی ہے۔گھر ٹوٹتے ہیں۔ جوڑے علیحد ہ ہوجاتے ہیں۔ گھرہستی برباد ہو جاتی ہے۔ ان جرائم کے مجرم اپنے اصلی جرم کی بھنک پڑنے نہیں دیتے اور نہ اس گمراہی کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ اپنے شریک سفر پر الزام دھر کر انھیں طلاق دے کر ان گھرانوں کی زندگیاں برباد کردیتے ہیں۔
فحش فلموں سے کنارہ کرنے والوں کے درد ناک انٹرویوز بتاتے ہیں کہ وہ کیسے اذیت ناک اور جگر پاش دکھ سے گزرے ہیں بلکہ جنسی فلموں میں کام کرنے کی خفت اور غم بھلانے کو وہ بھانڈ اکثر نشہ آور گولیوں میں اپنی پوری کمائی لگا دیتے ہیں۔ مجھے ان فلموں سے متاثر ہونے والوں کی ذہنی حالت پر ہمارے مشرقی اُگال دان کی مثال یاد آتی ہے جس میں اوروں کا بلغم ، زخموں کا تھوک، اوروں کی قے کو یہ لوگ چاٹنے ، چوسنے لگتے ہیں۔ اس بات کو جگ جانتا ہے کہ ایسے روحانی جرائم ، ایسی بہکانے والی برہنگی بھلے وہ کسی رنگ میں ہوایسا جرثومہ ہے جس نے کبھی بھی کسی کوشفا نہیں بخشی۔ کبھی ہندوستان کی دیو مالائی مجسمہ سازی اور کہانیوں میں جس کی نشاندہی کرتے ہوئے سکندر علی وجدی نے کہا تھا ’’تقدس کے سہارے پل رہا ہے ذوق ِ عریانی‘‘ کیوں کہ یہ وہ معاملے ہیں جہاں شریک سفر کی تنہائیوں میں فرشتوں کا گزر ممکن نہیں۔ بھلے بستر کے راز بازار ِحسن کا مشترک فسانے کیسے بن سکتے ہیں؟
ایک سادہ ذہن جب ننگی فلموں کا عادی ہوجاتا ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی ماں کا مان ہے، بہن کا محافظ اور رب رنگ زندگی جینے والا بندہ ہے۔ معاشرے کے دیے ہوئے اس منصب کی فراموشی کے بعد اس لت کے سبب وہ اوروں کے ذہن کی گندی نالیوں کی سڑاند سونگھتا رہتا ہے۔ فلمی اداکارائوں کے خوش رنگ ڈھونگ، فاحشوں کے روپ رنگ اور ان کی حماقتیں دیکھ کر خود کو بازار وں میں چھوڑے ہوئے جنسی جانور یا پلے بوائے سمجھتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے اس کی تنہائیاں ہی اس کے گھر کو قحبہ خانہ بنا دیتی ہیں۔اور انجام کار
ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے
یہ مسئلہ اس دور کاایک بڑا چیلنج ہے۔ اشتعال انگیزیوں کی روک تھام مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ سرگرمی طالب علمو ں کے نصیبے اُجاڑ رہی ہے۔جوانوں کی توانائیاں تاراج کر رہی ہے۔ ویسے یہ کوئی معماّ نہیں کہ حل نہ ہو سکے۔ اس سے پہلے کہ یہ رویہ رجحان بن جائے۔ اس کو سو طرح سے حل کرنا ضروری ہے۔ سادہ سی بات ہے جو دیکھو گے وہ چاہوگے۔ جو چاہوگے وہ پاؤگے۔ جو پاؤگے وہ تمہاری پہچان و شخصیت بنا دے گا۔ اس لیے ہر شخص کا زندہ ضمیر اسے ٹوکتا رہتا ہے۔
اس کو ترک کرنے کے لیے پہلے پہل ’’جنسی فاقہ‘‘ یعنی خود کو فرحتوں سے دور اتنا کرنا کہ ہلکی پھلکی تفریح بھی کوئی راہِ نہ بھٹکا دے۔ انسان عکس و آواز سے اتنا دور ہو جائے کہ تنگ ہوکر کوئی نتیجہ خیز ہنر، علم اور سرگرمی کو اپنائے۔ اس سے بچنے کو وہ تمام پناہ گاہیں بدلنے ہوگی جہاں جہاں عریاں فلمیں کی سہولت میسر تھی۔ اپنے کمپیوٹر، اپنے ذہن سے اس کو مٹا کر رکھ دینا ضروری ہے۔ اپنا اکائونٹ پر بلاک لگائیں‘ اپنے اسکرین پر مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، ماں کی تصویر، قرآن ِ پاک کی آیات ڈالیں، کسی خوش آہنگ اذان کی گونج کو ہر تھوڑی دیر بعد ضمیر کی دستک کے طور پر سنیں۔ کسی ماہر نفسیا ت سے مل کر اس لت کو ترک کرنے کا حوصلہ پائیں۔ چھپ کر گناہ اور کھل کا پارسائی کرنے والوں کو کتابِ حیات منافق بتاتی ہے۔ اور ایسا نفاق رسوا سامانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خدا نے تنہائیوںکے بے خوف مجرموں کو زمانے میں کھدیڑ کر رسوا کن سزا دینے کی قسم کھائی ہے۔
Jason Marh نامی پادری کے ایک خط اپنی اس گناہ گارانہ لت کے نام لکھا۔ اپنے تمام گناہوںسے تعلقات توڑنے کا اعلان کیا۔ اور اس اعلان برات کو حوصلہ کرکے اپنی مذہبی منبر سے دنیا کو سنا یا کیوں کہ اعتراف گناہ چھپی ہوئی منافقت سے بہتر ہے۔ ورنہ گناہ کا معاملہ یہ ہے کہ
اوّل اوّل خوب دوڑی کشتیٔ اہل ہوس
آخر آخر ڈوب مرنے کا مقام آ ہی گیا
صاحب ِ ایمان گروہ کے لیے تو آیت ِ بینات کے تابندہ اشارے ہی کافی ہیں جہاں قرآن پاک اپنے بندوں ایسی توقعات رکھتا ہے جیسے کسی چوراہے نیوکلیئر بم رکھا ہو۔ اس سے ہلاکت یقینی ہے۔ واضح حکم بھی ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو ورنہ تباہ کاریاں یقینی ہے۔ چاہے وہ آنکھوں کا ہی زنا ہو۔
’’اور بے حیائی کے ظاہر اور پوشیدہ کاموں کے قریب نہ جاؤ۔‘‘
کہیں مجرموں کے ٹال مٹول سے اٹے بہانوں پر کہا کہ ’’اور جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اسی طرح اپنے باپ دادا کو کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے، کہہ دو بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں کرتا، اللہ کے ذمہ وہ باتیں کیوں لگاتے ہو جو تمہیں معلوم نہیں۔‘‘ قرآن جگہ جگہ کھلی بے حیائی کے ارتکاب کے خلاف کھل کر حکم دیتا ہے۔ کہیں رشتوں کی پاکیزگی کا حکم۔ساتھ ساتھ کسی کو اپنانے اور کسی کو نہ اپنانے کا اشارہ بھی دیتا ہے۔
حضور رسالت مآبؐ کی رہنمائی کو دیکھیں کیسے ہمیں بتایا کہ ’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ کہیں کہا ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو تم جو چاہے کر گزرو۔ کہیں ٹوکا کہ ’’برہنگی سے بچو، نظر کو نظارہ نہ بننے دو۔‘‘ یہ تما م جرائم آنکھوں کے زنا کے گوشوارے ہیں اور ان کی سزا رب کے تعذیب خانوں میں ہے۔

حصہ