جمیلہ ہاشمی کا انٹریو

486

دوسرا اور آخری حصہ
طاہر مسعود: آپ نے قرۃ العین طاہرہ پر لکھتے وقت کلارا ایج اور مارتھا روٹ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا۔ آپ نے کلارا ایج کے ناول ’’طاہرہ‘‘ کو کیسا پایا؟
جمیلہ ہاشمی: جی نہیں، میں نے ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا۔ البتہ جن لوگوں نے کلارا ایج کا ناول پڑھا ہے ان کا خیال ہے کہ میرا ناول اس سے کہیں بہتر ہے۔ میں نے قرۃ العین طاہرہ کی زندگی کے حالات کا مطالعہ مذہبی کتابوں سے کیا ہے اور اس سلسلے میں، میں نے کسی انگریزی کتاب سے استفادہ نہیں کیا۔
طاہر مسعود: ایک تاریخی کردار کو آپ تخلیقی کردار کے قالب میں کس طرح ڈھالتی ہیں؟
جمیلہ ہاشمی: جب ادیب کسی کردار کے ساتھ انصاف کرنا چاہتا ہے تو وہ کردار وہ خود بن جاتا ہے۔ پھر فن کار کا اپنا تو کوئی وجود ہوتا ہی نہیں ہے۔ فن کار ہر شے میں رہتا ہے۔ جب میں نے قرۃ العین طاہرہ پر لکھا تو میں وہ خود تھی۔ اس کے دکھ میرے دکھ اور اس کا سکھ میرا سکھ تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے اس کے ساتھ انصاف کیا ہے یا نہیں لیکن قرۃ العین طاہرہ بن کر جو کیفیت مجھ پر طاری ہوئی، میں نے اسے لکھ دیا۔ حسین بن منصور حلاج پر جو کچھ گزری ہے اسے میں نے بھی سہا ہے۔ فن کار کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ ہر شے میں رہتا ہے۔
طاہر مسعود: خدا کی طرح؟
جمیلہ ہاشمی: فن کار بھی تخلیق کار ہے۔
طاہر مسعود: کیا خدا اور فن کار میں یہ قدر مشترک ہے؟ کیا آپ اس طرح سوچتی ہیں؟
جمیلہ ہاشمی: پتا نہیں یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے لیکن خدا نے یہ بھی تو کہا ہے کہ میں نے ہر شے میں اپنا جلوہ رکھا ہے۔
طاہر مسعود: ایک خاتون قلم کار کی حیثیت سے آپ کو خواتین کے حقوق کی پامالی کا احساس شدت سے ستاتا ہے…
جمیلہ ہاشمی: (بات کاٹ کر) یہ نکتہ آپ نے کہاں سے تلاش کیا؟
طاہر مسعود: آپ کے ناول ’’تلاش بہاراں‘‘ سے۔
جمیلہ ہاشمی: ہاں! ایک زمانہ تھا، سخت رومانوی زمانہ۔ یہ ناول میں نے قلم برداشتہ لکھا تھا۔ دوسری نظر ڈالنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ اس میں بہت سی غلطیاں بھی رہ گئی ہیں۔ پبلشر صاحب کے پاس پانچ سال تک اس کا مسودہ پڑا رہا اور جب ’’آتش رفتہ‘‘ چھپ گئی، تب انہوں ے اسے چھاپا۔
طاہر مسعود: ’’تلاش بہاراں‘‘ اس اعتبار سے قابل ذکر ناول ہے کہ اسے اس وقت آدم جی ایوارڈ ملا۔ جب اس ایوارڈ کا اعتبار قائم تھا اور ممتاز مفتی کا ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ کو نظر انداز کرکے اس ناول کو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ حالاں کہ آپ کا ناول ہندوستان کے پس منظر میں ہے اور اس کے مرکزی کردار ہندو ہیں اور آپ نے ہندو سماج میں عورتوں پر مظالم کی تصویر کشی کی ہے جب کہ کم و بیش یہی صورت حال مسلم سماج میں بھی تھی۔
جمیلہ ہاشمی: یہ ناول نہ ہندوستانی ہے نہ پاکستانی۔ یہ عورت پر ہونے والے مظالم کی خوں چکاں داستان ہے۔ عورت کے ساتھ ہمیشہ سے یہی کچھ ہوا ہے، یہی کچھ ہورہا ہے۔ میرے ایک شناسا جو فوج میں ملازم ہیں، ان کی بیٹی پر سسرال میں بڑے مظالم ہوتے تھے۔ ایک دن تنگ آکر وہ اپنا بچہ اٹھائے باپ کے گھر آگئی۔ باپ نے کہا ’’اس گھر میں اب تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں‘‘ وہ الٹے قدموں لوٹ گئی اور سسرال پہنچ کر خودکشی کرلی۔ عورتوں پر مظالم تو آج بھی ہوتے ہیں۔ ’’تلاش بہاراں‘‘ کے کردار آج بھی زندہ ہیں۔ رہا سوال ہندو کرداروں کا تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مجھے ہندو کرداروں کے نام بہت فیسی نیٹ کرتے ہیں۔ میرے افسانوں کا مجموعہ ’’اپنا اپنا جہنم‘‘ کی ایک کہانی ’’زہر کا رنگ‘‘ سو فی صدی سچی ہے اور اس کے کردار بھی میرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں لیکن میں ے کہانی کے ہیرو کا نام گوتم اور ہیروئن کا نام مایا رکھ دیا ہے۔ لوگ
اسے پڑھ کر سوچتے ہیں کہ شاید یہ ہندوستان کی کہانی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ کہانیاں یہیں کی ہیں، اسی معاشرے کی۔ باقی ہندوستان میرا ماضی ہے۔ میں وہیں پلی بڑھی ہوں، ان لوگوں سے دوستیاں رہی ہیں۔ ہمارا ان کا تعلق کوئی ایک دن کا نہیں تھا اور نہ ہی وہ بھولنے والی شے ہے۔ کوئی اپنے ماضی کو چھوڑ کر کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟
طاہر مسعود: گویا آپ کا جو تہذیبی ورثہ ہے، اس کا ایک سرا ہندوستان اور دوسرا سرا منصور حلاج اور قرۃ العین طاہرہ سے جا کر ملتا ہے۔
جمیلہ ہاشمی: جی ہاں!
طاہر مسعود: اچھا، پاکستان میں گزشتہ تیس بتیس برس کے عرصے میں سیاسی اور تہذیبی سطح پر جو انقلابات رونما ہوئے اور ہم کئی عظیم سانحوں سے گزرے، ہمارے خواب ادھورے رہ گئے اور ہمارے حصے میں صرف حسرتوں کی راکھ آئی۔ تو کیا بحیثیت ایک ناول نگار کے آپ کو یہ واقعات متاثر نہیں کرتے اور آپ کے دل میں کبھی اس موضوع پر ناول لکھنے کا خیال نہیں آیا؟
جمیلہ ہاشمی: مجھے سقوط ڈھاکا سے بڑا سانحہ مغلیہ حکومت کا زوال لگتا ہے جس پر آج تک کسی ناول نگار نے ایک لفظ نہیں لکھا۔ میں اس موضوع پر کام کررہی ہوں کیوں کہ میرا خیال ہے کہ ہمیں ابتدا وہاں سے کرنی چاہیے۔ جب 1707ء میں اورنگ زیب کے مرنے کے بعد مغلیہ حکومت روبہ زوال ہوئی۔ مجھے بہادر شاہ ظفر کی شکست بھی کسی عزیز کی موت کی طرح تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔ سقوط ڈھاکا کا المیہ اس عظیم المیے کی ایک شاخ ہے۔ مسلمان کب سے ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ رگیدے اور روندے جارہے ہیں۔ ٹیپو سلطان کا سانحہ، سراج الدولہ کا سانحہ، کیا یہ سانحے اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں بھلا دیا جائے۔ مجھے بتائیے کہ کس ناول نگار نے ان موضوعات کو چھونے کی ہمت کی ہے؟
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ زوال روم کو گبن نے عظمت بخشی لیکن زوال مغلیہ حکومت کو کوئی گبن نہ مل سکا جو اس کا نوحہ لکھتا۔ بہرکیف آپ نے اس ناول پر کام کہاں تک مکمل کرلیا ہے؟
جمیلہ ہاشمی: میں فی الحال مغلیہ عہد کی تاریخ پڑھ رہی ہوں۔ مجھے اپنے ماضی کے ساتھ انصاف کرنا ہے اگر میں زندہ رہی تو اسے ضرور لکھوں گی۔
طاہر مسعود: ’’معاصر‘‘ میں آپ کے زیر تکمیل ناول ’’جوگ کی رات‘‘ کا ایک باب شائع ہوا تھا۔ اب یہ ناول کس مرحلے میں ہے؟
جمیلہ ہاشمی: یہ ناول ابھی زیر تکمیل ہے۔ یہ ان الم ناک کرداروں کی کہانی ہے جو بے گھر ہوگئے ہیں جن کی شناخت گم ہوچکی ہے اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ میں اس ناول کو مکمل کرچکی ہوتی لیکن اس سے پہلے ہی مجھے منصور حلاج نے گرفتار کرلیا۔ 1972ء میں جب میں عمرہ کرنے گئی تھی تو میں نے اپنے قلم کو رسول پاکؐ کے روضہ کی جالی سے چھوا تھا۔ اس کے بعد مجھ سے ’’دشتِ سوس‘‘ کے سوا کچھ نہیں لکھا گیا۔ یہ ناول تو یوں لگتا تھا جیسے مجھ سے پکڑ کر لکھوایا جارہا ہو۔ میں نے اسے چھ ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کرلیا تھا۔ میں اسے لکھتی جاتی تھی اور کاتب کو دیتی جاتی تھی اور جیسے ہی میں نے سے لکھ کر مکمل کیا اس کے آٹھویں دن کتابت بھی ختم ہوگئی۔
طاہر مسعود: کیا آپ کے لکھنے کا کوئی خاص وقت مقرر ہے؟
جمیلہ ہاشمی: میں رات گیارہ بجے کے بعد لکھتی ہوں۔ جب میری آنکھیں تندرست تھیں تو میں زیادہ دیر تک کام کرلیتی تھی۔ مجھے فارغ بیٹھنا اچھا نہیں لگتا۔
طاہر مسعود: گھریلو ذمہ داریاں لکھنے کے کام میں آڑے نہیں آتیں۔
جمیلہ ہاشمی: گھریلو ذمہ داریاں بھی ہیں لیکن جب کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی کرنے کے لیے نوکر چاکر موجود ہوں تو پھر لکھنے پڑھنے کے لیے خاصا وقت نکل آتا ہے۔ میں صرف ان کی نگرانی کرتی ہوں۔
طاہر مسعود: بعض ادیبوں کے لکھنے کا معاملہ یوں ہوتا ہے جیسے موٹر اسٹارٹ کرنا کہ چابی لگائی اور گاڑی چل پڑی، بعض ایسے ہیں جو لکھنے کے لیے موڈ کے پابند ہوتے ہیں۔ آپ اپنا شمار کس میں کرتی ہیں؟
جمیلہ ہاشمی: جب میں ’’دشت سوس‘‘ لکھ رہی تھی تو روزانہ دس بارہ صفحے لکھتی تھی۔ اس کے بعد رمضان کا مہینہ آگیا۔ روزے بھی رکھنے تھے، سخت گرمی تھی، اس لیے گائوں چلی گئی تو لکھنا چھوڑ دیا۔ دو تین مہینے بالکل نہیں لکھا تو میری بیٹی نے کہا، ’’اماں! آپ کیا کرتی ہیں؟ آپ تو اپنے آپ کو دھوکا دیتی ہیں۔ آپ سارا وقت لکھا کریں۔ ’’پھر میں نے لکھنا شروع کیا تو پندرہ دن میں سو صفحے لکھ ڈالے۔ میری زندگی سفر میں گزری ہے۔ میاں کے انتقال کے بعد سے مجھے گائوں بھی جانا پڑتا ہے۔ بچی کو کالج پہنچانے اور لانے کی بھی ذمہ داری ہے۔ زندگی مسلسل اضطراب میں ہے لیکن مجھے لکھنے کے لیے نہ کسی مخصوص لمحے کی ضرورت ہے نہ مخصوص ماحول کی۔ جب موقع ملتا ہے لکھنے بیٹھ جاتی ہوں۔
طاہر مسعود: کن ادیبوں کو شوق سے پڑھا ہے کس کس نے آپ کی تحریروں کو متاثر کیا ہے؟
جمیلہ ہاشمی: میں روسی ادب سے بے پناہ متاثر ہوں۔ میں نے انہیں پڑھا بھی بہت ہے۔ ٹالسٹائی سے لے کر چیخوف اور شولوخوف تک۔ ان کے ہاں کائنات کا بڑا خوب صورت تصور ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ جب میں نے افسانہ لکھنا شروع کیا تھا تو قرۃ العین حیدر سے بے حد متاثر تھی۔ ایک عرصے تک تو انہیں پڑھ پڑھ کر ان پر مرتی رہی اور جب قلم سنبھالا تو ایک آدھ افسانہ ان ہی کے رنگ میں لکھا لیکن پھر آہستہ آہستہ جب دنیا کا مختلف ادب پڑھا، خصوصاً انگریزی ادب، شیکسپیئر، بائرن، ہارڈی، موپساں تو پھر ہم اپنی جون میں واپس آگئے۔ قرۃ العین حیدر کے ہاں جو رومانیت ہے، وہ ابھی تک برقرار ہے۔ وہ معاشرے کے دکھ کو گلیمرائز کردیتی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی ہے کہ جس چیز کو بھی چھوتی ہیں، آفاقی سا بنادیتی ہیں۔
طاہر مسعود: کچھ اس بارے میں بھی بتائیں کہ افسانے لکھنے کی طرف کیسے مائل ہوئیں؟
جمیلہ ہاشمی: افسانہ صرف وہی لوگ نہیں لکھتے جنہیں افسانوی ماحول ملا ہو۔ سوائے حجاب امتیاز علی کے ایسا افسانوی ماحول کسے ملا ہے جس میں ہرے طوطے، السیشئن کتے، سیانی بلیاں اور سادہ دل کبوتروں کی بہتات ہو۔ افسانہ کیا ہے؟ جو پلکوں میں نہاں ہے چشم بینا دیکھ لیتی ہے یا بادلوں سے پرے کیا ہے؟ اپنی ہی کہانی ہے۔ میں نے ایک قطعی غیر افسانوی اور غیر رومانوی ماحول میں پرورش پائی جہاں معمولی معمولی غلطیوں پر خوب پٹائی ہوتی تھی۔ لیکن میرے اندر افسانہ موجود تھاجس کی مثال یہ ہے کہ اسکول میں مجھے اگر مضمون لکھنے کے لیے کہا جاتا تو میں اس عنوان پر کہانی لکھ دیا کرتی تھی۔ استانی جی نے کئی بار ڈانٹا کہ گھوڑے پر مضمون لکھنے کو کہا اور ہم نے گھوڑے پر کہانی لکھ ڈالی۔ میں ڈانٹ سنتی گئی اور لکھتی گئی اور وہ جو میرے اندر ایک سچ تھا وہ پھلنے پھولنے سے پیڑ بن گیا۔

حصہ