ذہین نابینا

176

حاکم بولا: بالکل، اگر خریدار نے جو کُچھ لکھا ہے وہ اس کی قیمت نہیں دیتا تو صندل کی لکڑی بیچنے والے کو واپس مل جائے گی لیکن اگر وہ اس کی قیمت دے دیتا ہے تو پھر لکڑی خریدار کی ملکیت ہوگئی اور اِسی روز مقدمہ ختم ہو جائے گا۔
پردیسی تاجر، جو ذہین نابینا کی باتیں اور مشورے ذہن نشین کرچکا تھا، بولا: میں بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ کے شہر کا تاجر اس معاہدے کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہتا اور وہ اس میں حیلہ گری سے کام لینا چاہتا ہے۔
حاکم بولا: تو پھر میں یہاں کس لیے ہوں؟ جو شخص بھی معاملات میں حیلہ گری سے کام لینا چاہتا ہے اور ہمارے شہر کو بدنام کرنا چاہتا ہے، اُس کا خون اُسی کی گردن پر ہے۔ میں یہاں اس لیے بیٹھا ہوں کہ ظلم نہ ہونے دوں۔
پردیسی تاجر بولا: میری آرزو بھی یہی ہے۔ پس آپ حکم دیں کہ معاہدے کی تحریر پڑھی جائے اور جو کُچھ اس میں لکھا گیا ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
حاکم نے اپنے مُنشی کو حکم دیا کہ وہ معاہدے کو بلند آواز میں پڑھے۔ لکھا تھا: لکڑیوں کی قیمت سونے یا چاندی یا جواہر کی معیّنہ۱ مقداریا ہر اُس چیز کی صورت میںجو بیچنے والا مانگے، خریدار سے وصول کرے گا۔
حاکم نے کہا: بہت خوب! اگر اس معاہدے کی رُو سے عمل کیا جائے تو ہم معاملے کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچائیں گے اور اگر اس کے برعکس ہو تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔ پھر اس نے فرنگی تاجر کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: مال کی قیمت حاضر کرو تاکہ لکڑی تمھاری تحویل میں دی جائے کیونکہ ایک گھنٹے بعد معاہدے کی مدت ختم ہو جائے گی۔
فرنگی تاجر نے کہا: وہ جو کُچھ مانگے، حاضر کردوں گا۔
حاکم نے پردیسی تاجر سے پوچھا: اپنے مال کے عوض کیا چاہتے ہو سونا، چاندی یا جواہر؟
پردیسی تاجر نے کہا: اگر خریدار معاہدے سے متفق ہے تو کیا سونے، چاندی اور جواہر کے سوا کسی اَور چیز کا تقاضا کرسکتاہوں؟
خریدار بولا: وہی ہے جو لکھا ہوا ہے۔ سونا، چاندی، جواہر یا کوئی اور چیز جس کا بیچنے والا مطالبہ کرے۔ میں اس سے متفق ہوں۔ جو مانگنا چاہتے ہو، بتاؤ۔
پردیسی تاجر نے کہا: مجھے سونا، چاندی اور جواہر نہیں چاہئیں۔ کیا تمھارے شہر میں مکھیاں، مچھر، جوئیں، کک (چیچڑ) اور کھٹمل اور اسی طرح کی اور چیزیں پیدا ہوتی ہیں؟
حاکم نے کہا: کیوں نہیں، پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اس سے تمھارا مقصد کیا ہے؟
پردیسی تاجر نے کہا: میرا مقصد یہ ہے کہ قرارداد کے مطابق میں مذکورہ اجناس میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں سو میں ایک پیمانہ۱ کھٹمل چاہتا ہوں جس کا آدھا حصّہ نر اور آدھا حصّہ مادہ پر مشتمل ہو۔ میں اپنی صندل کی لکڑی کسی اور شے کے عوض فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
فرنگی تاجر نے کہا: یہ غلط بات ہے۔ میں نر اور مادہ کھٹمل کہاں سے لاؤں۔ دنیا میں کہاں ایسی رسم ہے کہ صندل کی لکڑی کے بدلے میں کھٹمل بطور قیمت مانگے جائیں؟
حاکم نے کہا: میرے خیال میں یہ ایک عجیب بات ہے لیکن درست ہے۔ جو درست نہیں وہ تمھارا معاہدہ ہے جس میں تم نے مکّاری سے کام لیا ہے اور چاہا ہے کہ پردیسی تاجر کا مال سستا خرید لو۔ دنیا میںکہاں ایسی رسم ہے کہ معاملہ کرنے کا معاہدہ تو لکھا جائے مگر اس میں مال کی قیمتِ خرید درج نہ کی جائے اور کہا جائے کہ جو بیچنے والا مانگے۔ اب بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ صندل کی لکڑی بیچنے والے نے اپنے مال کے بیچنے میں غلطی کی اور خریدار نے معاہدہ لکھنے میں اور اس کا نتیجہ یہی ہے۔ یا تو کام کے آغاز ہی سے کام کے آخر اور انجام کو نگاہ میں رکھنا چاہیے یا پھر آخرِکار اپنی حماقت اور بے پروائی کا تاوان دینا چاہیے۔ اب حاکم کا فیصلہ تمھارے معاہدے اور تحریر کے مطابق ہے یا آدھے نر، آدھے مادہ کھٹملوں کی مقررّہ مقدار حاضر کی جائے یا صندل کی لکڑی اُس کے بیچنے والے کو واپس کی جائے۔
فرنگی تاجر بولا: ہم اس معاملے سے صرفِ نظرکرتے ہیں۔
حاکم نے بھی حکم دیا کہ صندل کی لکڑی، بیچنے والے کو واپس کی جائے۔ پردیسی تاجر نے اپنا مال اچھی قیمت پر بیچا اور بڑھیا، اس کے بیٹے اور ذہین نابینا کو بڑے عمدہ تحائف دیے اور خوش خوش اپنے شہر کو لَوٹ گیا۔

حصہ