خواتین وکلا: درپیش پیشہ ورانہ مسائل

506

عدلیہ کسی بھی ریاست کا ایک اہم ستون ہے، جس ریاست میں عدلیہ مضبوط اور انصاف تک رسائی آسان ہو اس میں جرائم پنپ نہیں سکتے، اور اگر ہوں بھی تو مجرمان کا سزاسے بچ نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست کا قانون اس کی معاشرتی اور مذہبی اقدار کی بنیاد پر ترتیب دیا جاتا ہے۔ قانون سازی اوراس کے نفاذ کا انحصار ریاست کے اداروں پر ہوتا ہے۔ اسی طرح قوانین کے تحت مظلوم کی داد رسی اور مجرم کو سزا کے لیے بھی کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ حق دار کو حق ملنا اور مظلوم کو انصاف کی فراہمی اُس وقت ہی ممکن ہوسکتی ہے جب انصاف کے عمل کے دوران توازن برقرار رہے، یعنی رنگ، نسل، امیر، غریب، قومیت و لسانی تفریق کو پسِ پشت رکھ کر صرف انصاف کو پیش نظر رکھا جائے۔ پاکستان میں مقننہ اور عدلیہ کا نظام بھی عدل اور مذہبی و معاشرتی اقدار اور عدل کے اصولوں پر قائم ہے، یہاں ہر طبقے کو مساوی حقوق حاصل ہیں، جوکہ ایک اچھے جمہوری ڈھانچے کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان میںعدل کا ایک مربوط نظام موجود ہے جس میں سول عدالتیں، ماتحت عدلیہ اور اعلیٰ عدلیہ شامل ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں پانچوں ہائی کورٹس،وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان شامل ہیں۔ ہر صوبے میں ایک ہائی کورٹ کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ایک ہائی کورٹ موجود ہے۔
اسی طرح آزاد کشمیر میں الگ عدالتی نظام موجود ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان ایک چیف جسٹس اور سولہ دیگرججوں پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ میں مستقل ججز کے علاوہ ایڈہاک ججوں کی تقرری بھی کی جاتی ہے۔ ایڈہاک جج سے مراد وہ تقرری ہے جو صرف مخصوص مدت یا مخصوص کیس کے لیے ایک خاص طریقہ کار کے ذریعے کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کے معاملات کی نگرانی سپریم جوڈیشل کونسل کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کے اختیارات حاصل ہیں ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اہم آئینی نقطے، عوامی مفاد یا انسانی حقوق کے معاملے پر‘‘ازخود نوٹس’’ لینے کا اختیار حاصل ہے۔
سندھ بار کونسل کی تشکیل لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسلز ایکٹ 1973 کے سیکشن 3(ii) کے ذریعے کی گئی ہے۔ بار کونسل کی مدت پانچ سال ہے، جو بار کونسل کے عام انتخابات کے بعد یکم جنوری سے شروع ہوتی ہے اور مدت کے اختتام تک کونسل اراکین اپنے عہدوں پر فائزرہتے ہیں۔ سندھ بار کونسل میں رجسٹرڈ وکلاء کی مجموعی تعداد، 40511 ہے، جن میں سے 18350 لوئر کورٹس اور 22161 ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں، جبکہ صوبہ میں رجسٹرڈ لا فرموں کی مجموعی تعداد 333 ہے۔سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد 38 جبکہ ان میں سے صرف دو خواتین ہیں۔ اسی طرح پاکستان بھر میں اعلٰی عدلیہ کے ججز کی مجموعی تعداد113 ہے جبکہ ان میں صرف 6 ججز خواتین ہیں۔ 2020 میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز میں درخواست دینے والے درخواست گزاروں کی کل تعداد 571 تھی جن میں خواتین 63 تھیں جن میں سے 40 کو اہل قرار دیا گیا اور 23 کو نا اہل قرار دیا گیا، اسی طرح 454 مرد وکلاء نے درخواست دی جن میں سے ، 219 نا اہل قرار دئیے گئے ، جبکہ 235 اہل قراد پائے۔
سپریم کورٹ میں خواتین ججز کی تعیناتی کا تنازعہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں، حال ہی میں جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں بطور جج تعیناتی سنیارٹی کے معاملے پر ہوتے ہوتے رہ گئی ۔عدالتی نظام میں خواتین وکلاکی کارکردگی، انتھک محنت اور صنفی امتیاز کے واقعات اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں، اس کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے۔ رواں سال مختلف کالجز اور جامعات میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد30 فیصدہے، جن میں سے دیہی علاقوں کے کوٹے پر داخلہ لینے والی20 فیصد خواتین بطور وکیل اپنی پریکٹس جاری ہی نہیں رکھ پاتیں، اس طرح خواتین وکلاء کی تعداد مزید کم ہو جاتی ہے۔ کچھ خواتین لائسنس کے حصول کے مراحل سے بھی گھبرا کر اس پیشے کو اپنانے سے اجتناب کرتی ہیں۔
ہراسگی کا ایک بڑا واقعہ جج ڈاکٹر ساجدہ احمد کا 2020 ماہ نومبر میں چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائی کورٹ کو خط لکھا جس کا متن کچھ یوں تھا کہ ” وکلاء کی جانب سے خواتین ججوں کو گالیاں دینے، ہراساں کرنے اور بدتمیزی کرنے پر ایکشن نہ لیا گیا تو وہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس کمیشن، وومین ججز اور انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن آف لائرز میں پاکستان کے شرپسند وکلاء کے کرتوتوں اور ججوں کیخلاف اُن کی بدتمیزیوں کو نمایاں کریں گی۔ ہم فراہم کردہ مراعات جیسے گاڑی، لیپ ٹاپ اور اضافی تنخواہ کے بدلے اپنی خاندانی عزت کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے بہتر تھا کہ میں اپنا خاندانی کام چوپایوں کو چراتیں اور پاک زندگی گزارتی ۔اگر اسلام میں خودکشی جائز ہوتی تو عدالت کی عمارت سے کود کر جان دے دیتیں کیونکہ اس پیشے میں وکلاء کی خواتین ججوں کوگالیاں دینا، ہراسگی اور بدتمیزی حد سے بڑھ گئی ہے۔ غیر پیشہ ور وکلاء کیخلاف تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 228 کے تحت اور توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی جارہی؟ آپ سنجیدگی سے مسائل کیوں نہیں حل کرتے یا آپ کو اپنی عدالت سنبھالنا نہیں آتی؟یہ عظیم و مقدس پیشہ اب کالی بھیڑوں اور غیر پیشہ ورانہ افراد کے حوالے کردیا گیا ہے۔ قانون کی بالادستی کے حصول میں ہم ناکام رہے ہیں اور ہماری اصلیت اُس وقت دنیا نے دیکھی جب وکلاء نے امراضِ قلب کے ہسپتال پر اُس وقت حملہ کیا جب وہاں مریضوں کی جان بچائی جارہی تھی”۔ اس خط کی تحریر اپنے آپ میں وکلاء کے مخصوص گروپ کی نشاندہی کر تی ہے کہ کس طرح کا ماحول عدلتوں سے باہر اور وکلاء کا معیار شعور معلوم ہوتا ہے جو کہ ان کی ذہنی سطح کی نشاندہی بھی کرتی ہے.
ہر شعبے کی طرح عدالتی نظام میں بھی کئی قسم کی پیچیدگیاں اور مسائل ہیں، جن کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔ ان میں سے صنفی امتیاز اور ہراسگی کے معاملات زیادہ اہم ہیں، جو کہ مختلف ادوار میں انتہائی نمایاں بھی رہے ہیں، اس کے علاوہ خواتین ججز کی تقرری اور خواتین وکلا ء کے ساتھ امتیازی رویہ شامل ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین کی قانون کے پیشے میں شمولیت کی شرح انتہائی کم ہے، یا یوں کہیں کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
وفاقی شرعی عدالت 1980 میں قوانین کی جانچ پڑتال اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی کہ آیا وہ قرآن و سنت کے احکامات اور اسلامی اقدار کے مطابق ہیں یا نہیں۔ وفاقی شرعی عدالت آٹھ مسلم ججوں پر مشتمل ہے،جنہیں صدر پاکستان جوڈیشل کمیٹی کی سفارشات پر تعینات کرتے ہیں ۔ آٹھ ججوں میں سے تین کا اسلامی اسکالر ہونا ضروری ہے جو اسلامی قوانین اور فقہ پر عبور رکھتے ہوں۔ جج تین سال کی مدت کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرح شریعت کورٹ میں بھی خواتین جج کی تعیناتی آسان نہیں،2013، میں پہلی بار اشرف جہاں کو وفاقی شرعی عدالت کا جج مقرر کیا گیا، جس کے بعد اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان میں خواتین کے حوالے سے کسی قسم کا امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا اور یہاں کوئی بھی صنفی تضاد موجود نہیں ۔کسی بھی ادارے میں حق تلفی اس ادارے کے ذمہ داران کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتی ہے، ہمیں نظم و ضبط قائم کرنے کی ضرورت ہے، خواتین کے ساتھ ہراسگی کے واقعات، صنفی امتیار کی بنا پر سنیارٹی اور تعیناتی کے مسائل، چائلڈ کیر کی عدم دستیابی ، جس کی وجہ سے بیشتر خواتین اپنے سیکھنے کے مراحل اور تربیتی ورک شاپس میں شرکت کے مواقع گنوا بیٹھتی ہیں، کیوں کہ وہاں چھوٹے بچوں کو ساتھ نہیں لے کر جا یا جا سکتا۔
اسی حوالے سے ایڈوو کیٹ ثروت اسرار نے وضاحت کی کہ ” کورٹ سے باہر ہراسگی اور شدید قسم کے واقعات بھی ہوتے ہیں، مگر اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔ خواتین کے ساتھ جب بھی کوئی غلط قسم کا واقعہ ہوا تو بار کونسل کے تمام ارکان نے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے ہائی پروفائل کیسز میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے، مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ جتنی بھی خواتین کے ساتھ ہوا ، ان کی زیادہ تر تعداد ڈٹ کر کھڑے ہونے والوں میں سے ہے، جنہوں نے سامنا کیا ثابت قدم رہیں”۔
سیدہ سیما رفیق ایس ایم لاء کالج سے گریجویٹ ہیں اور 10 سال سے زائد عرصہ سے کام کر رہی ہیں ،صنفی امتیار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایک خاتون ہونے کے ناتے پاکستان میں کوئی بھی پیشہ اختیارکرنا بہت مشکل ہے۔ ہمارا معاشرے پرمردانہ غلبہ ہے۔ خاص طور پر قانون کا پیشہ آسان نہیں، انٹرن شپ کے وقت زیادہ تر سینئرتنخواہ نہیں دیتے نہ ہی خواتین کو عزت دی جاتی ہے-
ایڈووکیٹ وحید حسین ہراسگی کے بارے میں کہتے ہیںکہ ” میں نے نہیں دیکھا ، مجھے نہیں یاد کہ ایسا ہوا ہو ، بہت کم ہوتا ہے، اب تو اتنے زیادہ ذرائع آگئے ہیں ان سب چیزوں کو دیکھنے کے لیے فوراً ہی پتا چل جاتا ہے۔
منیر اے ملک کہتے ہیں کہ ” بار خواتین کے لیے بہت اچھی جگہ ہے، اچھے اچھے خاندانوں کی خواتین یہاں پریکٹس کر رہی ہیں ، جو قابل بھی ہیں اور محنت کرنے والی بھی” انہوں نے مزید بتایا کہ قا بلیت ہو تو کوئی بھی آگے بڑھ سکتا ہے، یہاں سنیارٹی کے کافی ایشوز ہوتے ہیں ، سنیارٹی کا قانون بہت سخت ہے، جس پر عمل کیا جاتا ہے۔
ایڈووکیٹ وحید حسین کہتے ہیں کہ بارکا ماحول خود اس خاتون پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح لوگوں کو، کلائینٹ کو اسپیس دیتی ہے، کیونکہ کلائینٹ سے وکیل کے معاملات اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے ہوتے ہیں، جس طرح سے وہ اسے بنائے گی، اس کو اسی طرح کے حالات کا سامنا ہوگا”۔
ایڈووکیٹ سیما رفیق کے نزدیک بار میں صنفی امتیاز نہیں، وہاں لوگ ساتھ دیتے ہیں، وہاں کا ماحول اچھا اور ہر کسی کے لیے بہتر ہے۔ ایڈووکیٹ وحید حسین کہتے ہیں کہ جو محنت کرے گا وہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ کہنا کہ یہاں خواتین کو پیچھے کیا جاتا ہے، یہ غلط تصور ہے۔اب تو بار میں اچھی خاصی تعداد خواتین وکلاء کی موجود ہے۔ اس پیشے میں اگر 60 مرد ہیں تو 40 کے قریب خواتین ہیں، لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ انکی کار کردگی کیسی ہے؟سرکاری پراسیکیوشن ،فیملی کورٹ میں خواتین زیادہ ہیں۔ جسٹس اشرف جہاں پہلے ڈسٹرکٹ جج تھیں، پھر ہائی کورٹ میں بطور جج تعینات ہوئیں، اس کے بعد فیڈرل شریعت کورٹ کی بھی جج رہیں، ان سے پہلے یہ تصور تھا کہ خاتون شریعت کورٹ کی جج نہین بن سکتی، لیکن پھر انہیں فیڈرل شریعت کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔ ان کے علاوہ کوثر سلطانہ کو سنیا رٹی دیکھ کر ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقرر کیا ۔ راشدہ اسد ڈ سٹرکٹ جج سینٹرل تھیںان کو بھی ہائی کورٹ میں مقرر کیا گیا ۔
ایڈووکیٹ عثمان غنی وکلاء اور انکے کردار کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بعض وکلاء کے رویہ میں بھی خرابی ہے،ایک واقعہ ہوا، ایک خاتون وکیل کی ایک خاتون پولیس اہلکارسے کسی بات پربحث شروع ہوگئی،خاتون اہلکار نے وکیل خاتون کوگرفتار کرنے کی دھمکی دی تو خاتون وکیل نے اسےتھپڑ جڑدیا اور کہا تم مجھے گرفتار کر کے دکھاؤ۔اس واقعہ سےخاتون وکیل کی تعلیم، وکلاء کی اہلیت، قابلیت، سمجھداری اور شعور پر سوال اٹھتا ہے”۔ صنفی امتیاز کے لیے ان کا کہنا ہے کہ ” ۔جینڈر ڈسکریمینیشن بالکل ہے، پڑھی لکھی، با اختیار خاتون ہمارے مرد کو ہضم ہی نہیں”۔ اسی طرح اگر بار ایسو سی ایشن کے انتخابات میں خواتین کو نمائندگی بہت کم ملتی ہے، ان کو مرد ووٹ نہیں دیتے، کیونکہ مردوں نے ایک بات طے کررکھی ہے کہ خاتون کیا کر سکتی ہے؟”
ان کا کہنا ہے کہ ہراسگی کے واقعات کی شکایت کے لیے ہماری لیگل باڈیز موجود ہیں ، وہ بڑی سخت اورڈسپلینیری ایکشن لیتی ہیں ۔ “ایک کیس میں خاتون وکیل خدیجہ صدیقی جنہیں انکے ہم جماعت ملزم شاہ حسین نے چاقو کے کئ وار کیے تھے اس کیس میں وکیل حضرات مرد تھے جنہوں نے شاہ حسین کی پشت پناہی کی لڑکے کا باپ خود بھی ہائی کورٹ کا ایک بڑا وکیل تھا سپریم کورٹ کے وکیل اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے اس بے چاری معصوم لڑکی کو عدالتوں نے یہ انصاف دیا کہ سات سال کی سزا کو وہ شخص محض دو سا ل میں کاٹ کر واپس آگیا کیوں کہ اس کو مرد وکلا کی پشت پناہی حاصل تھی وہ اب لندن چلی گئی پاکستان چھوڑ کر” ۔ تفصیل کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے پہلے اس کی سزا پانچ سال کی اور پھر اسے دوسال میں ہی رہا کردیا تھا، اس پر سپریم کورٹ نے سیشن کورٹ کے اس حکم کو کالعدم قرار دیا اور دوبارہ گرفتار ی کا حکم دیا ، اس طرح کے کئی ایک کیس موجود ہیں-
ایڈوو کیٹ ثوبیہ یوسف ہائی کورٹ میں پریکسٹس کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے یہ شعبہ بہت اچھا ہے، یہاں خود کو منوانا پڑتا ہے ، ہاں پریشانیاں بھی ہیں اور مشکلات کا سامنا بھی پڑتا ہے، کیوں کہ یہ ہی ایسا پیشہ ہےجس میں آرام سے نہیں۔ اب جو بھی خواتین وکلاء آرہی ہیں، ان میں قابلیت بھی ہے۔ اس کی بڑی وجہ اب وکالت کے لائسنس کے لیے ہونے والے ٹیسٹ ہیں کہ صرف قابل لوگ ہی اس معیار پر پورا اترتے ہیں، جنہیں آگے فیلڈ میں کچھ کرنا ہوتا ہے “۔لیکن اگر کوئی خاتوں خود اپنے آپ کو بیلنس نہ کرپائےتو پھر معاملہ خراب ہوجاتا ہے۔
وکالت ایک ایسا پیشہ ہے جس کا براہ راست تعلق معاشرے اور سسٹم سے ہے۔ خواتین کے حقو ق کی جدوجہد دنیا میں جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گی۔ جسٹس ناصرہ اقبال کا کہنا ہے کہ انہیں کورٹ روم میں یہ تک کہا گیا کہ آپ یہاں کیا کر رہی ہیں، اس عمر میں گھر جائیں آرام کریں ۔جسٹس ماجدہ رضوی نے بھی اپنے ایک انٹر ویو میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ انہیں کئی بار سنیارٹی میں محض عورت ہونے کی وجہ سے پیچھے رکھا گیا –
حقارت کے لہجے اور صنفی امتیاز کو فوقیت دینے کا عمل ہی ہمیں اس حقیقت سے آشکار کرتا ہے کہ اگر ذہن بیمار ہو اور تعلیم کے باوجود باشعور نہ بن سکیں تو بلا شبہ وہاں نا انصافی، ظلم، جبر اور ہراسگی سے بھر پور مسائل کا شکار ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں حیرت تو صرف اس بات کی ہے کہ عدلیہ جیسے ادارے میں جہاں عام عوام کو انصاف ملنے کی امید ہو وہاں اگر ایک وکیل جسے اس کے صنف کی وجہ سے اس حد تک ہراساں کیا جائے کہ وہ خود کشی کا راستہ اپنائے یا اپنے مسکن کو خیر باد کہہ دے تو عوام خاص طور پرخواتین کو کتنی مشکلات کا سامنا رہتا ہوگا۔
عدلیہ میں جس طرح اوپر کیئے گئے تبصرے میں مردو خواتین کے اظہار رائے سے ا اس بات کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ اچھے برے افراد ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ، لیکن اگر وہ افراد کسی ایسے عہدے پر فائز ہوں جس کی وجہ سے وہاں پر کام کرنے والا ایک مخصوص طبقہ بد حالی کا شکار ہو رہا ہو، مسائل کا سامنا کر رہا ہو تو ایسے عناصر کے خلاف عدلیہ کو سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، اور صاف و شفاف قانونی چارہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ قانون کے شکنجے سے بچ نا سکیں۔

حصہ