خودکشی نہیں،خودکشائی کیجئے،زندگی امانت ہے اجارہ نہیں

366

زندگی امانت ہے اجارہ نہیں۔ ایسی امانتوں کا غبن کرنے والے قومی خائن و خدا کے غدار ہوتے ہیں‘ جو اپنی جان تلف کرتے ہیں وہ خدائی مجرم ہیں۔ اپنے زمانے کے بھگوڑوں کو رحم کے بجائے ذلت آمیز افسانوں سے یاد کرنا ہوگا۔ یہ بہادری جتلانے والے اور اپنے آپ کو موت کی سزا سنانے کے بعد اپنے بدن سے خود رحم کی بھیک مانگتے ہیں۔ یہ پِل پِل کر اپنے جسم پر چڑھائی کرنے والے خود کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے پھندا چھڑا سکیں۔ پھانسی کے پھندے کے کسائو سے پہلے حلق میں آواز پھنس جاتی ہے۔ خدا اور زمانے کے ساتھ زبان درازی سے پہلے ان کی زبان اُبل پڑتی ہے‘ آنسوئوں سے پہلے آنکھیں نکل آتی ہیں۔ انھیں اپنی رائے سے اختلاف ہوجاتا ہے۔ منظر چاہے کوئی بھی ہو‘ اُن کا اپنا بدن پھٹنے سے پہلے، چھاتی کے چاک سے قبل، پرخچے اڑا دینے سے پل بھر پہلے جہاں ان کے ہوش کا آخری پڑاو ٔرہتا ہے‘ اپنے اوچھے ہتھکنڈے پر اپنی قریۂ جاں میں وہ زور زوز سے چلاتے ہیں۔ لیکن اذیت ان کا مقدر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لیے انسانی جان کو کعبہ سے زیادہ محترم کہا گیا ہے۔
اسی شعلہ پوش تناظر میں انسانی نفس کا مطالعہ سب سے بڑا موضوع بن جاتا ہے۔ اس مطالعے سے ہی اس کا تالا کھلے گا۔ ویسے نفس کا تالا اندر سے بند رہتا ہے‘ باہر سے کھولنے کی کوشش بے کار ہے۔ اس گتھی کے حاشیہ میں پوری زندگی آجاتی ہے۔ ہمیں یہ بات بھلے تنائو کی تلخ گھڑیوں میں یاد نہ رہے مگر ہم سب موت کی منزلوں کے مسافر ہیں۔ ہم سب حیات و موت کی پناہوں میں ہیں۔ اسلام نے ہزار ڈھنگ سے جان کی حرمت کی بات کی ہے تاکہ فرد کا سماجی رتبہ بلندر ہے۔ اسی لیے کسی کی یکایک خودکشی پر اس سے جڑے تمام ہمدرد لوگ اس وقت ایک مستحکم قدر کے ٹوٹنے کے مجرم ہوجاتے ہیں۔ وہ قدر‘ وہ ویلو ہمارے نفس کی کارگزاری نہیں بلکہ وہ رب کی حیات افروز قدر ہے۔ فرد کی ایسی موت تمام خوابوں اور امکانات کی موت ہوتی ہے۔
خود کشی کا سفر بھی سہل نہیں
بھیڑ سی ہے لگی سوالوں کی
(فاروق مضطر)
ویسے آج ہمارا معاشرہ عجیب ذہنی تماشوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک فرد اگر جان سے جائے تو ہنگامہ۔ ہزاروں لوگ اگر کسی وحشی حکومت کے سہارے ریاستی دہشت گردی کے سبب ماردیے جائیں تو بہت ساری صحافتی تعبیریں ٹی وی اور اخباروں کے گٹر سے اُبل پڑتی ہیں۔ انسانی جان کی تکریم کے ضمن میں یہ ایک بہت بڑا سماجی، ذہنی بلکہ بہت بنیادی مسئلہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو عام سی بات ہے کہ ہر روز لوگ مرتے ہیں یا مار دیے جاتے ہیں۔
گردن ہے خود کشی کے بہانے تلاشتی
ہر روز مجھ سے کہتی ہے پنکھا اداس ہے
(عمران راہب)
لوگوں کی سرد مہری سے قطع نظر اب دنیا بھر میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رحجان ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ مذہب سے دوری بھی ہے۔ 20 سال کی عمر کے نوجوانوں میں گھبراہٹ، خوف، مایوسی، ڈپریشن، منشیات کی لت، غصہ ، تشدد، عد م برداشت، فحاشی، جنسی بے راہ روی، مشاغل کا نہ ہونا، کیئریر کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال اور ان جیسے حالات میں ذہنی و نفسیاتی امراض تیز ی سے بڑھ رہے ہیں اور دنیا میں ہر منٹ میں ایک خودکشی ہو رہی ہے۔ جب کہ غم اتنی قیمتی چیز نہیں کہ جان جیسی قیمتی شے قربان کردی جائے۔اپنے تصورات کی موہوم دنیا کا یہ مالک پل پھر میں خود کو اپنی زندگی کا حقیقی مالک سمجھ لیتا ہے۔ روحانیت سے دور کھڑے ہوئے ایسی لوگ حادثاتی طور پر کبھی مشہور و معروف بھی ہوجاتے ہیں اور خود کو خدا کی منصوبہ بند زندگی کو سمجھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ جب کہ انتہائی فیصلوں کے سلسلے میں ذہن کی ہے عادت ہے چاہے وہ مسرت ہو کہ غم ذہن ہر شے کو بڑھا چڑھا کر، رائی کو پربت اور قطرہ کو دریا کے روپ میں دکھاتا ہے۔ اپنی زندگی کے پچیس، تیس یا چالیس سال کی پھیلی ہوئی پاگل پن کی زندگی پر ایک لمحہ کا فرار کیسے برابر ہوسکتا ہے۔ یہ ناقابل تلافی ہے‘ ہر بے نتیجہ خیال کی طرح یہ عمل بھی بانجھ ہوتا ہے۔ بقول شخصے جلدی جانے کی دھن میں یہ شخص اپنی کمزور سائیکل (اپنے بدن) کوچھوڑ کر ننگے پائوں بھاگنے پر یقین رکھتا ہے۔ خود کشائی کے بجائے خودکشی کے اسباب مختلف ہیں لیکن انجام کار حماقت ایک ہی ہے۔
اب ایک اہم اشارہ جو انسان کو ایسے افسوس ناک انجام سے بچاسکتا ہے وہ اپنے نفس کو نفس مطمئنہ بنائے رکھنا۔ یہ صرف بندۂ مومن کا نفس ہے۔ یہاں نفس کا اللہ سے جھگڑا ختم ہوجاتا ہے۔ یہ موت سے نہیں بدکتا بلکہ رب سے ملاقات کا واحد ذریعہ جانتا ہے۔ اس لیے ایسے لوگ رب کی رضا پر جیتے ہیں۔ ایسے نفیس نفس اپنے رب کو خوب پہچانتے ہیں۔ جب تک روح اطاعت رب کے ساتھ ہے انجام بہتر ہے۔ روح کی آزادی، نفس کی موت ہے۔ قرآن نے شیطان کو انسان کا سب سے بڑا دشمن کہا ہے۔ آزاد نفس خدا سے نفرت کرتا ہے۔ اس حماقت مآب سرگرمی کو دیکھیں کہ اس کائنات کے رب سے نفر ت جس نے ہمیں ایک چھوٹے سے سیارے پر جینے کے لیے چھوڑا‘ لیکن ہمیں کہیں ملک تنگ ہوتا ہوا نظر آیا تو کہیں شہر اور کہیں اپنا ہی گھر۔ سوال یہ ہے کہ how we attend our painجواب یہ ہے کہ ہم خود کو منانے کا ہنر بھول جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کائنات تو کیا اپنی سانسیں بھی پرائی لگتی ہیں۔
اگر یہ سوال ہے کہ ہم اپنے بدن سے پر کیوں قابو پائیں اور کیوں بات کریں؟ سادہ جواب یہ ہوگا کہ خدا بھی ان سے بات کرے گا۔
حدیث کا اشارہ ہے کہ’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘ (بخاری، صحیح)اسی مقام پر قرآن و حدیث کے نور سے روشنی سمیٹتے ہیں۔ کہیں قرآن کہتے ہیں۔ ’’ اور انسان جلد باز ہے۔‘‘ (سورہ الاسراء:11) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتے ہیں۔‘‘
’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے،اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہے۔‘‘
حضرت ابو قلابہؓ ، ثابت بن ضحاکؓ سے روایت کرتے ہیں۔ بعیتِ رضوان کی نازک گھڑیوں میں نبیٔ رحمتؐ نے عہد لیا کہ ’’خودکشی نہ کرنا۔‘‘ کیوں کہ خودکشی کرنے والے قیامت تک اسی آزار و اذیت میں رہیں گے اور قیامت میں اپنے سرکو اپنے بدن کے آگے رکھیں گے۔‘‘
ہر وقت بے نتیجہ سوچوں میں ڈوبے ہوئے لوگ بہت کمزور روحانی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ شیطان ان لوگوں کو سوچوں میں کھپا دیتے ہیں۔ اقدامات کی طاقت صَرف ہوجاتی ہے۔ سید عبدالقادر جیلانی ؒ کہاکرتے تھے کہ کسی کام سے پہلے یہ سوچ لو کہ تم آزاد ہو کہ غلام۔ اگرہم نفس کے اور حواس کے غلام ہیں تو خودکشی کی راہوں کے سمت سفر ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم حواس کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ یہ ذہن کی بھیانک طرز حکمرانی ہے جس کے سبب پورے جسم کو ہم برباد کرتے ہیں۔ غلام کا کام تو مر مٹ جانا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر میں یہ بات مشہور ہوجانی چاہیے کہ مسجدوں، سماجی اداروں میںکونسلنگ سینٹرز قائم ہوچکے ہیں۔ ہمارے قائدین اس مسئلے کو پہچانیں۔ جنوں، بھوتوں کو کچلنے والے حوصلے جینے کے لیے دیں۔ فون، وڈیو کانفرنس کی سہولت ہو۔ زندگی آفات سے نکل کر سوغات بن جاتی ہے۔ صدموں سے نکل کر سکون میں آئے۔ خوف کے بجائے یقین زندگی میں ڈھلنے لگے۔ ایسی زندگی صرف اسلام دے سکتا ہے۔ چین و امن صرف اسی نظام رحمت میں ممکن ہے۔

حصہ