جمیلہ ہاشمی کا انٹریو

1171

کسی تاریخی کردار کے گرد افسوں گر قلم سے رومان اور افسانے کا ہالہ بُنا جائے اور تب حقیقت اور واقعیت پر بھی شاعری کا گماں گزرنے لگے، ایسا لگے ہم تاریخ کے منظروں کو نیند کی کیفیت میں ایک خواب کی حالت میں دیکھ رہے ہیں تو پھر جمیلہ ہاشمی اور ان کے ناول ’’چہرہ بہ چہرہ روبہ رو‘‘ اور ’’دشتِ سوس‘‘ یاد آنے لگتے ہیں۔ ان ناولوں میں جمیلہ ہاشمی نے قرۃ العین طاہرہ اور حسین بن منصور حلّاج کے کرداروں کو اسی رنگ میں پیش کیا ہے۔
اردو ادب میں تاریخ اور تاریخی واقعات و تاریخی کرداروں کو بہت سے ادیبوں نے اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ مولوی عبدالحلیم شرر لکھنوی سے نسیم حجازی تک۔ لیکن جس ناول کو ہم فن پارہ کہیں اس میں قرۃ العین حیدر کا پایہ بہت بلند ہے۔ اس کے بعد اگر کسی کا نام قابل ذکر ہے تو جمیلہ ہاشمی ہیں۔ دونوں ہی تاریخ کی شاعرہ ہیں۔ مگر فرق اس قدر ہے کہ جمیلہ ہاشمی نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا کی تو قرۃ العین حیدر کے جادوئی قلم سے مدتوں متاثر رہیں۔ لیکن پھر انہوں نے اپنا اسلوب الگ وضع کرلیا۔
1950ء کی دہائی اردو ناول کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اکثر اچھے اور بڑے ناول اسی دہائی میں لکھے گئے۔ مثلاً ’’آگ کا دریا‘‘، ’’خدا کی بستی‘‘، ’’علی پور کا ایلی‘‘ وغیرہ۔ جمیلہ ہاشمی بھی اسی دہائی میں اپنے ناول ’’تلاش بہاراں‘‘ کے ساتھ ناول نگاری کی صنف میں آئیں۔ یہ ناول عورتوں پر ہوتے جبر و ستم کی داستان ہے۔ چناں چہ اسے رائٹرز گلڈ نے دائود ادبی انعام دیا۔ جمیلہ ہاشمی کے دوسرے دو ناولٹ ’’آتش رفتہ‘‘ اور ’’روحی‘‘ جنہوں نے انہیں اردو ناول نگاروں کی صف میں ممتاز اہمیت کا حامل بنایا۔ ’’آتش رفتہ‘‘ میں انہوں نے پنجاب کے دیہی گھرانوں کی زندگی کو پیش کیا اور ’’روحی‘‘ صحرائے چولستان کے صحرائی شب و روز کی کہانی ہے۔
جمیلہ ہاشمی نے اکثر ناول نگاروں کی طرح آغازِ تخلیقی سفر پر پہلے افسانے لکھے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’آپ بیتی جگ بیتی‘‘ اور ’’اپنا اپنا جہنم‘‘ میں ان کے مختصر اور طویل افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں انہوں نے گردوپیش کی زندگی اور اس کے مشاہدات و تجربات کو قصے کہانیوں کی صورت میں پیش کیا ہے اور خاص بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے نوجوان نسل کی ذہنی اور جذباتی کیفیات اور الجھنوں کی بھی عکاسی کی ہے۔
آگے چل کر جمیلہ ہاشمی کے ان ہی دو ناولوں کا ذکر آتا ہے یعنی ’’چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو‘‘ اور ’’دشت سوس‘‘ دونوں ناولوں میں ان کا شاعرانہ قلم ہمیں اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔ زیر نظر انٹرویو میں زیادہ گفتگو ’’دشت سوس‘‘ اور حسین بن منصور حلاج ہی پر ہوئی کہ جب انٹرویو کے لیے گیا تو ادبی دنیا میں اسی ناول کا چرچا اور تذکرہ تھا۔
انٹرویو ڈاکٹر جمیل جالبی کی کوٹھی واقع نارتھ ناظم آباد میں ہوا جہاں وہ قیام پذیر تھیں۔ ان کی چھوٹی سی صاحبزادی عائشہ جو اب عائشہ صدیقہ کے نام سے صحافتی اور علمی دنیا میں معروف ہوچکی ہیں، فراک پہنے ڈرائنگ روم میں دوڑتی پھرتی تھیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ اپنی عادت کے مطابق کہ انٹرویو لینے کا انداز ہی ایسا وضع کیا کہ اختلاف کرکے دیکھو ادیب یا ادیبہ کے اندر سے، ذہن اور قلب سے کیا نکلتا ہے۔ کیسے خیالات، احساسات جذبات۔ سو جمیلہ ہاشمی سے جو اب مرحومہ ہوچکی ہیں، خوب جی بھر کے اختلاف کیا، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے ناولوں میں اسلوب تحریر میں کیڑے نکالے کہ دیکھیں دفاع کیسے کرتی ہیں۔ کر بھی پاتی ہیں یا نہیں… وہ جوانی کے دن تھے، کچھ خودنمائی کا بھی جذبہ رہا ہوگا۔ مگر واہ رے اپنی جمیل ہاشمی صاحبہ۔ نہایت تہذیب و شائستگی سے ہر کڑے سوال کو جھیلا۔ اُف بھی نہ کیا۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اردو ناول نگاری کو بلاشبہ انہوں نے اپنے افسوں گر قلم سے خوب مالا مال کیا۔
امرتسری خاندان کی جمیل ہاشمی نے 17 نومبر 1929ء کو فیصل آباد میں آنکھ کھولی۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1954ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور پھر اسکول میں پڑھنے لگ گئیں۔ خوش نصیبی سے بیاہ ان کا، ایک زمیندار گھرانے میں ہوا۔ میاں سردار احمد اویسی یوں تو زمیندار ہونے کے علاوہ گدی نشین پیر بھی تھے۔ سیکڑوں مرید تھے، مگر اویسی صاحب اپنی ادیبہ اہلیہ کے مرید نکلے اور باوجود اس کے کہ ان کا گھرانا اپنی بہو کی ادبی سرگرمیوں کو وقت اور صلاحیت کا زیاں ہی سمجھتا رہا لیکن اویسی صاحب کی حوصلہ افزائی نے اردو کی ایک ادیبہ کو ضائع ہونے سے بچالیا اور شوہر کی زندگی ہی میں ان کی ادبی صلاحیتوں کو مانا گیا۔ انانیت پسند شوہروں کے برعکس اویسی صاحب نے بیوی کی فتوحات کو دل سے قبول کیا اور خود کو کم تری کے احساس میں مبتلا ہونے سے بچایا۔ لہٰذا جب سردار احمد اویسی کی وفات ہوئی تو جمیلہ ہاشمی نے مرحوم شوہر کی چھوڑی ہوئی زمینوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ خدمت ادب کا فریضہ بھی فراموش نہ کیا۔ انہوں نے سردار احمد اویسی کے نام پر ایک ادبی انعام بھی جاری کیا جو ان کی آنکھ بند ہونے تک جاری رہا۔ یہ خوش گفتار، خوش تحریر ادیبہ 10 جنوری 1988ء کو داغ مفارقت دے گئیں۔
طاہر مسعود: ادیب کی زندگی میں کبھی ایسا مرحلہ بھی آتا ہے جب اسے لکھنے سے اکتاہٹ سی ہونے لگتی ہے۔ آپ نے متعدد ناول اور بے شمار افسانے لکھے ہیں۔ کیا کبھی یہ سوچ کر کہ ’’بہت لکھ لیا!‘‘ آپ کو لکھنے سے بیزاری تو نہیں ہوتی؟
جمیلہ ہاشمی: یوں نہیں ہے، بلکہ میرے اندر اتنی کہانیاں نامکمل حالت میں ہیں کہ اگر میری آنکھیں میرا ساتھ دیں تو میں نے جتنا کچھ لکھا ہے اس سے کہیں زیادہ لکھوں۔ میری ادبی زندگی مختلف نشیب و فراز سے گزری ہے۔ ابتداء میں، میں نے پے در پے رومانی افسانے لکھے تھے۔ یہ افسانے میری ادبی تربیت کا حصہ ہیں لیکن عمر کے اس موڑ پر میں سوچتی ہوں کہ میں نے زندگی سے اب تک جو کچھ سیکھا ہے، اسے سلیقے اور مہارت سے ادب کو سونپ دوں۔ ان دنوں میں اسپین کی تاریخ و تمدن اور شاعری و ادب پر کتابیں پڑھ رہی ہوں اور میرا ارادہ مسلم اسپین کے عروج و زوال کے پس منظر میں ناول لکھنے کا ہے۔ اس کا خیال مجھے 1976ء میں سفر اسپین کے دوران آیا۔ اقبال کی طویل نظم کے ذریعے مسجد قرطبہ سے میرا پہلے ہی تعارف ہوچکا تھا۔ اس نظم کو میں نے جانے کتنی بار پڑھا ہے اور ہر بار مجھ پر عجیب سی رقت طاری ہوئی ہے۔ جب میں نے اسپین پہنچ کر مسجد قرطبہ کے دروازوں کو ہاتھ لگایا تو میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رواں ہوگئے۔ میں دیر تک روتی رہی۔ پھر میں نے مسجد میں دو رکعت نفل نماز ادا کی اور حیرت اور ملال کے ساتھ اس شہر کو دیکھا۔ پھر میں نے ارادہ باندھا کہ میں اسپین پر ناول لکھوں گی اور یہ ایک مختلف زوایہ نگاہ سے لکھا جانے والا ناول ہوگا۔
طاہر مسعود: آپ کے دو ناول ’’دشت سوس‘‘ اور ’’چہرہ بہ چہرہ روبہ رو‘‘ تاریخی کرداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔ میں پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے تاریخی کرداروں کو موضوع بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ آپ کو اپنے اردگرد کے ماحول میں ایسے کردار نہیں ملے جنہیں آپ ناول کا موضوع بناتیں اور جس کی وجہ سے آپ نے تاریخ کی جانب سفر کیا اور وہاں سے کرداروں کو ڈھونڈ نکالا اور ان پر ناول لکھے۔
جمیلہ ہاشمی: یہ بہت اچھا سوال ہے۔ بات یہ ہے کہ تاریخ نے مجھے ہمیشہ مسحور کیا ہے اور میں نے تاریخ کا مطالعہ عہد حاضر کی تاریخ کے تناظر میں کیا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں قرۃ العین طاہرہ جیسی عورتیں آج پیدا نہیں ہوتیں؟ یہ جو آزادی نسواں کی تحریکیں یا اپنے ماحول سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں ہیں، قرۃ العین طاہرہ اس کی پیش رو ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو اپنے کسی خواب کے لیے کسی اعلیٰ مقصد کے لیے دار پہ چڑھ گئے، میں نے ان ہی لوگوں کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے۔ آپ بین السطور پڑھنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوگا کہ اس زمانے کے درباروں میں اور اس عہد کے ماحول میں جو سانحے میرے ناول کے کرداروں پہ بیتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ آج کے انسانوں پر بھی بیت جاتے ہوں۔ کل جس شخص کو دار پر چڑھایا جاتا تھا ممکن ہے آج اس کو الیکٹرک شاک سے ہلاک کیا جاتا ہو۔ میں نے ہمیشہ تاریخ سے ایسے کرداروں کا انتخاب کیا ہے جن کی آفاقیت نے مجھے متاثر کیا ہے۔ لوگ تاریخ کو ماضی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ میں تاریخ کو اپنے عہد کے تناظر میں دیکھنا چاہتی ہوں۔
طاہر مسعود: آپ کے افسانوں اور ناولوں کا اسلوب بنیادی طور پر رومانی ہے۔ حالاں کہ دیکھا جائے تو اردو نثر رومانوی اسلوب کو پیچھے چھوڑ آئی ہے مگر آپ کی تحریریں اسی اسلوب کی پیروی کرتی ہیں۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں؟
جمیلہ ہاشمی: میں اسے تسلیم کرتی ہوں۔ رومان صرف عشق و محبت کی داستان نہیں ہوتا۔ رومان تو ہر انمول چیز میں ہوتا، ہر نامعلوم چیز میں، ہر اندھیرے میں رومان ہوتا ہے اور اس کی تلاش ہر رومانی ذہن کو ہوتی ہے۔ ہمیشہ نامعلوم کی تلاش۔ میرے نزدیک یہی رومان ہے۔
طاہر مسعود: شاعری اور افسانے میں نظم اور نثر میں جو تفریق کی جاتی ہے اس کی بنیاد تخیل پر ہے یعنی شاعری تو تخیل کے ذریعے ہی کی جاتی ہے لیکن نثر میں تخیل کا عنصر اتنا زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ نثر کو شاعری بنادے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو آپ کی نثر شاعرانہ نثر ہے۔ کیا آپ اسے فنی اعتبار سے سقم تصور نہیں کرتیں؟
جمیلہ ہاشمی: آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ میں نے ایک بار لکھنے کے بعد دوبارہ کبھی مسودے کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میں نے ہمیشہ قلم برداشتہ لکھا ہے۔ افسانہ یا ناول، یہ جس طرح سے میرے ذہن میں اترے ہیں، میں نے ان کا اظہار اسی طرح سے کیا ہے لیکن میری کوشش رہی ہے کہ میں اپنے موضوع کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب کو تبدیل کرتی رہوں۔ اگر میں سکھوں کی کہانی لکھتی ہوں تو ان ہی کی زبان استعمال کرتی ہوں، مثلاً پنجابی کے ایسے الفاظ جو عام طور پر سکھوں میں مستعمل ہیں۔ جب میں نے قرۃ العین طاہرہ کی کہانی لکھی تو میں نے فارسی ترکیبیں استعمال کیں۔ اس کے علاوہ میں سمجھتی ہوں کہ اس میں کوئی برائی نہیں ہے کہ میں نثر میں شاعری کروں۔
طاہر مسعود: آپ کی تخلیقات کے بارے میں میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ آپ مضمون یا خیال کے مقابلے میں اسلوب کو بہت اہمیت دیتی ہیں اور اس پر محنت بھی بہت کرتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ خیال یا وہ کہانی جسے آپ بیان کرنا چاہتی ہیں آرائشی اسلوب کے بھاری بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے۔ مزید یہ کہ آپ اپنے کرداروں سے زیادہ موسموں، خوشبوئوں اور رنگوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ آخر آپ اپنی کہانیوں کو اتنا قیمتی پوشاک کیوں پہنانا چاہتی ہیں؟
جمیلہ ہاشمی: میرے ہاں جو رنگ، ہوائیں اور بادل ہیں، وہ سب کے سب میرے افسانوں کے کردار ہیں۔ وہ اس خیال کو جسے میں بیان کرنا چاہتی ہوں، آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کو واضح کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ آپ نے میرے اسلوب کے متعلق جو کچھ کہا ہے میں اس سے اتفا ق بھی کرسکتی ہوں لیکن حقیقتاً یہ اسلوب میں نے ارادتاً اختیار نہیں کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میں تو اپنے مسودے پر دوسری بار نگاہ بھی نہیں ڈالتی جس کی وجہ سے غلطیاں بھی رہ جاتی ہیں۔ میری تخلیقات میں آمد ہے آورد نہیں ہے۔
طاہر مسعود: یعنی جب لکھنے پر طبیعت آمادہ ہوتی ہے تو لکھتی چلی جاتی ہیں؟
جمیلہ ہاشمی: جی ہاں! میں نے کبھی پہلے سے طے کرکے نہیں لکھا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو دو تین تین سال تک قلم کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ میں نے ’’چہرہ بہ چہرہ روبہ رو‘‘ لکھنے کے پانچ سال بعد صرف دو کہانیاں لکھیں۔ میرے گھر پہ ہر سال ’’شب افسانہ‘‘ ہوتی ہے تو میں محض اس میں شرکت کے خیال سے افسانہ لکھ لیتی ہوں۔ البتہ ’’دشت سوس‘‘ کے لیے میں نے کافی تیاری کی، بہت پڑھا پھر جا کر اسے لکھا ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے تاریخی کرداروں پر ناول لکھنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے تو کیا آپ اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہیں؟ کتابوں کا انتخاب، ان کا مطالعہ، کرداروں کی تلاش، کہانی کی بنت، ان ساری تیاریوں کی کیا صورت ہوتی ہے؟
جمیلہ ہاشمی: دیکھیے! جیسے حسین بن منصور علاج کا کردار میرے ذہن میں آیا اور میں نے اسے ناول کا موضوع بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی حسین بن منصور حلاج کے متعلق میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرے۔ مثلاً وہ کون سے عوامل تھے جس نے اسے دار تک پہنچایا؟اور وہ کیا چیز تھی جس کے پیش نظر وہ ہنستا کھیلتا اس منزل تک پہنچ گیا؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے مجھے اس کے دور کا سفر کرنا پڑا۔ میں نے حسین بن منصور حلاج کے فلسفے کا اور اس دور کے علمائے کرام کے فلسفے مطالعہ کیا اور پھر اس تصادم اور ٹکرائو پر غور کیا جس کے نتیجے میں منصور کی موت واقع ہوئی اور یوں میرے ناول کا خاکہ تیار ہوا جسے میں نے قلم بند کیا۔
طاہر مسعود: تاریخی اعتبار سے حسین بن حلاج کی شخصیت نہ صرف متنازع بلکہ تاریخ کے ایک عام طالب علم کو کنفیوژ کردینے والی ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف حضرت شیخ فرید الدین عطار اور حضرت سید علی بن عثمان ہجویری جیسے عظیم صوفیائے کرام منصور حلاج کی تعریف میں رطب اللسان ہیں تو دوسری طرف سید سلیمان ندوی جیسے مستند مورخ اور مولانا ظفر علی خاں جیسے راسخ العقیدہ مسلمان ہیں جو تاریخی شواہد کی بنا پر حسین بن منصور کے متعلق نہایت منفی رائے رکھتے ہیں اور اسے سیاسی مجرم تصور کرتے ہیں۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گی کہ ایک متنازع تاریخی شخصیت کو آپ نے اپنے ناول کا موضوع کیوں بنایا؟
جمیلہ ہاشمی: اگر لوگوں کو حسین بن منصور حلاج کے متعلق رائے رکھنے کا حق ہے تو کیا مجھے نہیں ہے؟ کیا مجھے اسے سمجھنے کا حق نہیں تھا؟
طاہر مسعود: لیکن اپنے ناول میں اس کی شخصیت کا ایک رخ دکھا کر آپ نے تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ آپ پر ان نقطہ ہائے نظر کی بھی نمائندگی واجب تھی جو حسین بن منصور کے خلاف جاتے ہیں، کیوں؟
جمیلہ ہاشمی: میں نے منصور کی کتاب ’’الطواسین‘‘ پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مجھے ازبر ہوگئی ہے اور مجھے اس میں کوئی ایسی ’’باطنیت‘‘ نظر نہیں آئی ہے۔ جن لوگوں کو اس سے اختلاف ہے وہ یقیناً شریعت کے نقطہ نظر سے ہوگا۔ (جاری ہے)

حصہ