اس ریاست اسلامی کے محافظ ہیں ہم

243

صدیاں تو نہیں بیتیں اس زخم، اس المیہ کو گزرے ہوئے یہ چند دہائیاں پیچھے کا اذیت ناک واقعہ ہے۔ پاکستان کا ایک بازو اس سے جدا ہوگیا، بڑا درد اُٹھا… لاشوں کے انبار اور حرمتوں کا جنازہ نکلا… اپنے بیگانے ہوئے، اس زخم اس المیے کو گزرے آدھی صدی گزر گئی، ہر سال اس سانحے کو، ان لمحوں، ان گھڑیوں کو یاد کیا جاتا ہے، اگر ان لمحوں اور ان گھڑیوں سے متاثرین سے ملنا ہوا ہوتا ہے تو ان کی آنکھوں کے آنسو ان کی تکلیفیں… ان پر بیتے المناک واقعات کی ’’داستانیں‘‘ واقعہ کی یاد دلاتی ہیں لیکن… لیکن… ذرا سوچیں ہم نے اس سانحے میں جوکچھ کھویا جو ہم اسے بچھڑ گئے کیا اس پر ہم نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کی، یا ایسے سانحے سے آئندہ کے لیے بچنے کے لیے کوئی کا لائحہ عمل تیار کیا۔ بچپن میں ٹھوکر لگنے سے چوٹ آتی تو اماں زخم پر مرہم لگا کر کہتی… بیٹا اپنے آپ کو گرنے سے بچانے کی بھی کوشش کیا کرو نیچے زمین پر بھی دیکھ لیا کرو کہ ٹھوکر کیوں لگی کس پتھر کی وجہ سے گرے ہو احتیاط لازم ہے اور دوسروں کو اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس پتھر کو ہٹا دیا کرو۔ بڑوں بزرگوں کی یہ نصیحت بالکل درست تھی کہ چوٹ کیوں لگی زخم کیوں آیا دوائی، احتیاط اور آئندہ کے لیے بھی اس سے سبق لینا ضروری ہے۔ میرا دین بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے ’’غزوہ احد‘‘ کی وقتی شکست کے پیچھے کیا اسباب تھے مسلمانوں کو آئندہ کے لیے اس سے خبردار کردیا گیا۔ کیا ہم نے اس المناک درد ناک قسم کے سانحہ سے کچھ سبق لیا، کچھ عبرت حاصل کی، کیا اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ہماری افواج دنیا کی عظیم ترین فوج ہیں لیکن ہماری عوام الناس، حکمران، سیاستدانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں، کیا حکمت عملی ہونی چاہیے کہ آئندہ کے لیے ہمیں کسی ایسے سانحے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ معذرت کے ساتھ پاکستان جو اسلامی ریاست ہے آج یہاں ہر ایک اپنی دکان سجا کر اپنے مفاد کو ترجیح دے رہا ہے۔ حقوق و فرائض کی اس جنگ میں ناانصافی، خود غرضی، نفسانفسی کی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔ مساوات، عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ یقیناً ہم سب واقف ہیں کہ ملک کے اندر پھیلے اس انتشار سے دشمن عناصر خوب فائدہ حاصل کرتے ہیں جیسا کہ 1971ء (دسمبر) کے سقوط ڈھاکا کے واقعے سے ظاہر ہے۔ ہماری صفوں میں پھیلی بدنظمی کو دیکھ کر ’’اجنبی‘‘ ان صفوں میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور ان اجنبی دشمنوں سے بھی ہم سب واقف ہیں جو ایسے موقعوں کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ایک بازو کٹوانے کے بعد ہمارا اگلے زخم اور تکلیف سے بچنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر منظم ہو کر اکٹھے ہونا ضروری امر ہے۔ یہ کالم لکھ رہی ہوں تو بہت سے چہرے میری نظروں کے سامنے آرہے ہیں جو اس المناک سانحے کے ڈسے ہوئے تھے۔ کالج کا پہلا سال تھا وہ لڑکی جو ڈری سہمی سی سب سے الگ تھلگ رہتی تھی جب ہم سب نے اس کے لرزنے کانپتے لبوں سے اس کی آب بیتی سنی تو دنگ رہ گئیں۔ وہ زندہ کیسے تھی اس کے اپنوں کا لہو اس کے سامنے بہایا گیا … اور… اور… اس کے وہ الفاظ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود میں نہیں بھول پائی۔ زندگی موت عزت آبرو میرے لیے سب بے معنی ہیں اب…
رحمان صاحب جو مکتی باہنی کے ظلم و تشدد کا شکار ہوئے بنگلہ دیش کی قید میں اپنوں سے دور قید کی صعوبتیں برداشت کیں ان کے پیچھے پاکستان میں ان کی فیملی کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جوان بیوی معصوم بچے بے بسی کی تصویر بنے گھر کے سربراہ کے منتظر تھے جنہیں ایک سال تک تو یہ بھی معلوم نہ ہوسکا تھا کہ رحمن صاحب زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ بوڑھی ماں کی آنکھیں بیٹے کے انتظار میں دروازے میں لگی ہوئی تھیں۔ آخر انتظار کی سختیوں کے آگے وہ ہار گئیں۔ ایک سال کے بعد رحمن صاحب کے زندہ ہونے کی خبر سن کر بوڑھے باپ کے دل میں جینے کی تمنا تڑپنے لگی کہ میری بوڑھی آنکھیں بیٹے کو اپنے سامنے زندہ سلامت دیکھیں۔ آخر ان قیدیوں کی اللہ نے سن لی اور ان کے گھرانوں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ پاکستانی حکومت نے ان قیدیوں کو رہا کروایا تو یہ بچھڑے اپنوں سے مل سکے۔ ان پر کیا گزری ان دو ڈھائی سالوں میں وہ ان ک نڈھال بدنوں اور آنکھوں سے عیاں تھا۔ مختصر یہ کہ یہ ایک بڑا درد ناک اور المناک سانحہ تھا جو پاکستان کی تاریخ میں گزرا جس پر دشمن پاکستان نے شادیانے بجائے کہ کس طرح ہم نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی اور بھائیوں سے بھائیوں کو جدا کیا۔ اس سانحے کے اغراض و مقاصد اور اسباب ہم سب پر عیاں ہیں۔ ہم ان سے خبردار ہونے کے باوجود ’’بے خبر‘‘ ہیں۔ ریاست پاکستان اسلامی ریاست… جو کلمہ حق کی صدا کے لیے وجود میں آئی دو قومی نظریہ… ان سب نعروں کو پس پشت ڈال کر ہم یہود و نصاریٰ و کفار کی دل جوعی میں ان مقاصد کو فراموش کرچکے ہیں۔ اگر ہم اس دھرتی ماں سے محبت کرتے ہیں، اللہ و اکبر لاالہ اللہ کی صدائوں میں دین الٰہی پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں باہمی اختلافات کو نظر انداز کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا۔ بے شک آزاد ملک اور وہ بھی اسلامی ریاست ہم سب کے لیے نعمت الٰہی ہے۔ دنیا میں یہ ریاست جو اسلام کا قلعہ ہے ہماری عزت و شان کی علامت ہے۔ دشمنان اسلام اس قلعہ سے خائف ہیں۔، یہ بھی ہم پاکستانیوں کے لیے باعث عزت علامت ہے۔ ہماری یکجہتی تمام صوبوں کا ایک دوسرے میں پیوست ہونا ایک خوبصورت قیمتی ہیروں کی مالا سے کم نہیں، خوبصورت چیز دوسروں کی نظروں میں جلد آجاتی ہے اس ’’خوبصورت مالا‘‘ (پاکستان کی) حفاظت کے لیے ہم سب کو نہ صرف متحد رہنا ہوگا بلکہ ’’چوکنا‘‘ بھی رہنا ہوگا۔ مالا کا ٹوٹنا بکھرے موتیوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لٹیروں کا خوف بھی رہتا ہے اس لیے اس مالا (پاکستان) کو حفاظت سے سنبھالنے کے لیے ہر ایک کو حصہ لینا ہوگا۔ یہ مالا آج ہماری پہچان ہے تو آنے والی نسلوں کے لیے میراث ہے، ان کی عزت و شان و تحفظ بھی ہے۔ ان شاء اللہ یہ اسلامی ریاست قائم و دائم رہے گی۔ یہاں ہمیشہ تاقیامت اللہ و اکبر کی صدائیں گونجتی رہیں گی۔ لاالہ اللہ محمدالرسول اللہ کی صدائوں سے یہ ارض و سماں روشن رہیں گے۔
(آمین ثم آمین یارب العالمین)

حصہ