سقوط ڈھاکہ نصف صدی بعد

336

ہر سال ۱۶ ؍ دسمبر آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے ، بلکہ مجرمانہ خاموشی سے۔ کیونکہ ملک کے مقتدر عناصر کی بھرپور کوشش رہی کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو فراموش کردیا جائے ۔ اس کوشش میں نصف صدی گزرگئی لیکن پھر بھی یہ ممکن نہ ہوسکا۔ سقوط مشرقی پاکستان تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے، جسے کبھی بند نہیں کیا جاسکے گا، یہ وہ ناسور ہے جسے کبھی بھرا نہیں جاسکے گا۔ اگرچہ نئی نسل کی اکثریت کو اس حوالے سے نہ تو کچھ علم ہے اور نہ ہی انہیں کچھ بتایا گیا لیکن پھر بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سقوطِ ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پاکستان کوناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ بلکہ یہ بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی ملک کی اکثریت ، اقلیت سے الگ ہوگئی یا الگ کردی گئی۔
نصف صدی گزرنے کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار کون تھا ؟ عام طورپر یہ خیال ہے کہ اس علیحدگی کے ذمے دار جنرل یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو تھے۔بعض کا یہ خیال ہے کہ مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذہ نے بنگالی نوجوانوں کو ورغلایا جنہوں نے علیحدگی کی تحریک چلائی اور بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ بروقت پہنچ جاتا تو پاکستان کو بچایا جاسکتا تھا۔ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سارا فساد ۱۹۷۰ء کے عام انتخابا ت کا ہے ۔ اگر عام انتخابات نہ ہوتے تو بنگلہ دیش بھی نہ بنتا۔ دراصل اس قسم کی باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ایسی باتیں پھیلانے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا نہیں چاہتے کیونکہ اس طرح خود ان کا اپنا چہرہ داغدار ہوتا نظر آئے گا۔دراصل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کوئی پوشیدہ راز نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے، جسے پڑھنے کے لئے صرف اخلاقی جرأت درکار ہے۔
پھر نصف صدی سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں وہ ہزاروں پاکستانی ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ وہ ایک ایسے وطن کے شہری ہیں، جس کے لئے انہوں نے اپنی جان مال اور عزتیں سب کچھ قربان کردیں، اور اس پاکستان نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور انہوں نے بنگلہ دیش کی شہریت قبول کرنے کے بجائے کیمپوں میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے رہنے کو ترجیح دی۔ ایک کربناک صورتحال سے وہ لوگ گزررہے ہیں۔
اس صورتحال کاجائزہ لینے کے لیے ہمیں تاریخ کے دبیز پردوں کوالٹنا ہوگا، اور ماضی کے دریچوں میں جھانکنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس امر کو کبھی فراموش نہیںکرنا چاہئے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ، چونکہ خیبر سے لے کر خلیج بنگال تک مسلمان بستے تھے، جن کی زبان، رنگ ونسل سب الگ تھی، ان کے اتحاد کی واحد بنیاد اسلام تھا۔ اسلامی نظام کے وعدے پر تحریک پاکستان چلی اور دوقومی نظریہ اس کی بنیاد بنا۔ جب ہمارے انگریز آقاؤں کے ’’غلاموں‘‘ نے اس وعدے سے روگردانی کی تو ملک دولخت ہوگیا اور تباہی اور بربادی ہمارا مقدر بن گئی۔
تاریخ شاہد ہے کہ ۳۰؍دسمبر۱۹۰۶ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی ۔ نواب سلیم اللہ نے ہندوستان بھر سے آنے والے مسلم وفود کی میزبانی کی تھی۔ تحریک آزادی اور پھر تحریک پاکستان سب سے بھرپور انداز میں بنگال میں چلی تھی۔ ۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی۔
تحریکِ پاکستان میں بنگالیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ 1906ء سے 1947ء تک تو بنگالی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے سب سے زیادہ ’’وفادار‘‘ تھے لیکن 1947ء سے 1971ء کے 24 برسوں میں وہ ’’غدار‘‘ بن گئے! قیام پاکستان کے بعد بنگالیوں کے ساتھ وہی سلوک ہوا، جو انگریزہندوستان میں محکوم اقوام کے ساتھ کررہے تھے۔ یہ دیکھ کر ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ وہ اب بھی ایک نوآبادیاتی ہیں اور وہ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر مغربی پاکستان کی غلامی میں چلے گئے ہیں۔
مسلح افواج کے دروازے انگریزوں نے ہمیشہ سے بنگالیوں پر بند کررکھے تھے کیونکہ بنگالیوں نے انگریزوں کے خلاف طویل مسلح جدوجہد کی تھی اور وہ وفاداری کے اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے جس پر پنجابی اتر چکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی وہ دروازے بند ہی رہے۔ کہا گیا کہ وہ تعلیمی، جسمانی اور ذہنی طورپر اس معیار پر پورے نہیں اترتے جو مسلح افواج میں بھرتی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں پنجابی فوجی افسر تعینات کئے گئے جو مقامی باشندوں سے انتہائی حقارت آمیز سلوک کرتے تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے بھی بنگالیوں کے لئے بند کردئیے گئے اور ان پر اردو زبان مسلط کردی گئی اور یہ شرط عائد کی گئی کہ پہلے وہ اردو پڑھنے لکھنے میں مہارت حاصل کریں تو پھر وہ ان ملازموں کے اہل ہوں گے۔ چنانچہ بہار ی مقامی ملازمتوں پر چھاگئے اور بنگالی محروم رہے۔
بنگالیوں نے بھی بنگلہ کو سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کے لئے بھرپور تحریک چلائی۔ یہ تحریک اتنی بھرپور تھی کہ خواجہ ناظم الدین جیسے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے بھی ان کے اس مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے لیکن مرکزی حکومت نے ان کے جائز مطالبے کو مسترد کردیا ۔اس وقت مسلح افواج میں پنجابیوں اور بیوروکریسی میں مہاجروں (ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے مغربی اور مشرقی پاکستان آنے والوں) کو غلبہ حاصل تھا۔ وہ اپنے اس غلبے کو برقرار رکھنے کے لئے ہر حربے کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے۔ جب بنگالی عوام ریاست کے اداروں میں اپنا جائز حصہ مانگتے تو ریاستی اداروں پر قابض یہ دونوں عناصر اسلام، نظریۂ پاکستان اور اردو کا سہارا لیتے اور بنگالیوں پر اسلام اور پاکستان سے غداری کا الزام عائد کرتے۔
بنگالیوں کی آبادی 56 فیصد تھی مگر 1960ء تک فوج میں بنگالیوں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ مگر پھر بنگالیوں کو فوج میں شامل کیا جانے لگا، تاہم 1970ء میں اس حوالے سے کیا صورتِ حال تھی، میجر صدیق سالک اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا سے کچھ عرصہ پہلے جنرل یحییٰ نے اعلان کیا کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں ’’100 فیصد‘‘ اضافہ کیا جائے گا۔ صدیق سالک کے بقول وہ ایک فوجی مرکز کے دورے پر گئے تو ایک بنگالی فوجی افسر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر جنرل یحییٰ کے اعلان پر کامل عمل درآمد ہوگیا تو بھی فوج میں بنگالیوں کی تعداد 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی حالانکہ ہم آبادی کا 56 فیصد ہیں۔ فوج ملک کا سب سے اہم اور سب سے طاقت ور ادارہ تھی، چنانچہ بنگالیوں کو فوج میں شامل ہونے سے روکنا کیا بدترین ظلم نہیں تھا؟ جنرل یحییٰ کے اعلان پر عمل ہوجاتا تو یہ تعداد 25 فیصد تک بڑھتی۔ ظاہر ہے کہ 1971ء کے حالات کی وجہ سے اس اعلان پر عمل کی نوبت ہی نہیں آئی۔
بنگالی صرف فوج ہی میں ’’مٹھی بھر‘‘ نہیں تھے، بیوروکریسی میں بھی ان کی نمائندگی 10 سے 15 فیصد تھی، حالانکہ وہ ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے۔صورتحال یہ تھی کہ ڈپٹی کمشنر کی سطح تک کا افسر بھی مغربی پاکستان خاص طورپرپنجاب سے وہاں جاتا تھا۔ جبکہ بنگال میں تعلیم کا رجحان ہمیشہ سے تھا اور بنگالی بہت زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔
میجر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1969ء میں ڈھاکا پہنچے تو ہوائی اڈے پر ایک فوجی نے ان کا استقبال کیا۔ ہوائی اڈے پر ایک ’’بنگالی پورٹر‘‘ نے صدیق سالک کا سامان ان کی گاڑی تک پہنچایا۔ صدیق سالک کے بقول انہوں نے بنگالی پورٹر کو کچھ روپے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کے استقبال کے لیے آنے والے فوجی نے کہا:
’’ان ’’حرام زادوں‘‘ کا دماغ خراب نہ کریں۔‘‘ جیسا کہ ظاہر ہے اس طرح کی آرا ’’انفرادی‘‘ نہیں ہوتیں۔ تو پاکستان بنانے والے بنگالی ’’حرام زادے‘‘ تھے۔ واضح رہے کہ یہ 16 دسمبر 1971ء کے بعد کا واقعہ نہیں، 16 دسمبر 1971ء سے دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔
یہ صورتحال صرف مشرقی پاکستان میں نہیں تھی، بلکہ مغربی پاکستان میں بسنے والے بنگالیوں سے بھی ہتک آمیز سلوک کیا جاتا۔ اس امر کا تو میں بھی چشم دید گواہ ہوں کہ جب غریب بنگالی ہمارے گلی محلوں میں ریڑھی پر چورن، اور چھوٹی مچھلیاں وغیرہ فروخت کرنے آتے تو لڑکے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے : ’’بنگالی بابو آیا، مرغی چرا کر لایا‘‘۔ اسی طرح ان کی سرکاری اور نجی دفاتر میں کوئی عزت اور اہمیت نہ تھی۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔
بنگالی متحدہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھے، مگر مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نےParity یا مساوات کا ناانصافی پر مبنی اصول وضع کردیا یعنی یہ کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کی آبادی پچاس پچاس فیصد ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ بنگالیوں نے پاکستان کے اتحاد کی خاطر اس ظلم اور اس جبرکو بھی دل سے قبول کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ قوتیں کون تھیں جنہوں نے بنگالیوں کو 56 فیصد سے 50 فیصد کیا؟ جیسا کہ ظاہر ہے Parity کا اصول نہ ’’اسلامی‘‘ تھا، نہ ’’جمہوری‘‘ تھا، نہ ’’عقلی‘‘ تھا۔ یہ سراسر ’’ظلم‘‘ اور ’’جبر‘‘ تھا۔
مشرقی پاکستان کو مخصوص جغرافیائی ، علاقائی اور ثقافتی حیثیت حاصل تھی، اس کے تحت اسے خصوصی درجہ دینے کے بجائے اسے بھی پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا یا بلوچستان کی طرح ایک صوبہ سمجھا گیا۔ وہاں پنجابی اور مہاجر فوجی اور سول بیوروکریسی کو تعینات کرکے سمجھا گیا کہ ملک کی یکجہتی کو یقینی بنالیا گیا۔ اور چھوٹے قد کے بزدل بنگالی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
درحقیقت ملک کی سیاسی تاریخ کے ابتدائی چندسال کا مطالعہ ہی یہ امرواضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے بنگالیوں کو محکوم بناکر رکھنے کی جو کوششیں کی تھیں، وہ بہت عارضی تھیں اور ان کا انتظام زیادہ دیر چل نہیں سکا۔بنگالیوں نے طویل جدوجہد کرکے ہندو غلبہ سے نجات اس لیے حاصل نہیں کی تھی کہ اب مغربی پاکستان ان پر مسلط ہوجائے اور انہیں وہی حیثیت حاصل رہے جو قیام پاکستان سے قبل تھی۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی جدوجہد انہوں نے ۱۹۴۷ء کے اواخر ہی سے شروع کردی تھی اور یہ امر واضح تھا کہ انہیں تشدد سے دبایا نہیں جاسکتا تھا، کیونکہ انہوں نے انگریز سامراج کے آگے بھی کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے تھے۔
مشرقی پاکستان کے بارے میںجہاں اور بہت سا جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، وہاں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ بنگالی تو شروع ہی سے بھوکے ننگے تھے اور مغربی پاکستان کے وسائل پر پلتے تھے اور ان پر بوجھ تھے۔ یہاں تک سیلاب زدگان کی امداد کے لئے جو چندہ مغربی پاکستان سے جمع کرکے دیا جاتا ، اس کا بھی بہت حقارت سے ذکر کیا جاتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بنگا ل کی سرزمین پر برصغیر کے دوبڑے دریاؤں گنگا اور برہم پتر کا وسیع ڈیلٹا ہے۔ ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا قدرتی آبپاشی اور زرخیز زمین کا یہ خطہ سونا اگلتا تھا اور اسی لیے سونار بنگلہ کہلاتا تھا۔
قرونِ وسطیٰ میں زرعی دولت سے ہی خوشحالی کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ اس اعتبار سے اس زمانے میں بنگال ہندوستان کے خوشحال ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہاں جو بھی ایک مرتبہ آجاتا تھا، پھر واپس نہیں جاتا تھا۔ مغل سلطننت کے مرکزی خزانے میں سب سے زیادہ ریونیو بنگال سے جاتا تھا۔ یورپی تاجروں کے لئے برصغیر کا یہی خطہ سب سے پرکشش ثابت ہوا۔ راجستھان کے مارواڑی یہاں آکر جگت سیٹھ بن گئے، جو ایسٹ انڈیا کمپنی، مغل شہنشاہ اور نواب کو قرضے دیا کرتے تھے۔ برطانوی استعماریوں اور راجستھانی مارواڑیوں نے اس خطے کی دولت کو بے دریغ لوٹا اور یہاں سے سرمایہ مسلسل باہر منتقل کیا جس کی وجہ سے یہ خطہ قحط زدہ اور مفلوک الحال نظر آنے لگا ۔ تاہم اس کے باوجود قیام پاکستان کے وقت ملک کی برآمدات کا سب سے بڑا حصہ مشرقی بنگال کا سنہری ریشہ یعنی پٹ سن تھی اور برآمدی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کثیر حصہ اسی سے حاصل ہوتا تھا۔ مگر جب بنگالیوں کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا تھا کہ جوٹ بورڈ کو صوبائی تحویل میں دیا جائے اور پٹ سن سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مشرقی پاکستان کی ترقی پر خرچ کیا جائے ، وہاں اسکول اور اسپتال قائم کئے جائیں، پل اور سڑکیں تعمیر کی جائیں تو ان پر صوبہ پرست ہونے کا الزام لگا کر ان کا یہ جائز مطالبہ بھی مسترد کردیا جاتا ۔ مشرقی پاکستان کی کابینہ کے وزیر حمید الحق اسی مطالبہ کی پاداش میں برطرف کئے گئے اور ان پر بدعنوانی کا مقدمہ قائم کیا گیا ۔
پٹ سن کی برآمدی آمدنی کو مرکزی حکومت نے کراچی کی تعمیر پر خرچ کیااور مغربی پاکستان میں پبلک اسکول، ملٹری اکیڈمی اور ٹریننگ سینٹر قائم کئے گئے۔ مشرقی پاکستان میں ایسا ایک اسکول ، اکیڈمی یا سینٹر نہیں کھولا گیا۔ مغربی پاکستان میں پلوں اور سڑکوں کے جال بچھائے گئے مشرقی پاکستان کو ایک پل بھی نصیب نہ ہو ا۔ سڑکوں کی تعمیر یا بجلی گھروں کی تعمیر پر نہ ہونے کے برابر توجہ دی گئی۔ (جاری ہے)

حصہ