قیصرو کسریٰ قسط(27)

227

چند دن بعد ایک شام عاصم قبیلہ غطفان کے ایک رئیس زید بن عبادہ کی بستی میں داخل ہوا۔ زید اُن تاجروں میں سے تھا جن کے ساتھ عاصم نے یروشلم سے واپسی میں سفر کیا تھا۔ عاصم کا چہرہ اس قدر تبدیل ہوچکا تھا کہ زید پہلی نگاہ میں اُسے پہچان نہ سکا اور عاصم کو یہ کہنا پڑا ’’میں یثرب سے آیا ہوں اور میرا نام عاصم ہے؟‘‘
زید نے گوم جوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’’بھائی معاف کرنا۔ تمہاری صورت دیکھ کر مجھے یقین نہیں آتا کہ تم وہی ہو‘‘۔
عاصم اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولا۔ ’’ایک مصیبت زدہ آدمی کی شکل تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی بستی میں ایک بے سہارا آدمی کو پناہ مل سکتی ہے؟ میں صرف چند دن کے لیے آرام کی نیند چاہتا ہوں۔‘‘
زید نے جواب دیا۔ ’’میرے گھر کے دروازے کے سامنے پہنچ کر تمہیں یہ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔
عاصم بولا۔ ’’میرا مقصد آپ کی مہمان نوازی کی توہین کرنا نہیں تھا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ میرے دشمن میرا پیچھا کررہے ہیں۔ ممکن ہے وہ یہاں بھی پہنچ جائیں‘‘۔
زید نے ایک نوجوان سے کہا۔ تم اس کا گھوڑا اصطبل میں لے جائو اور پھر عاصم سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’میرے ساتھ آئو!‘‘۔
عاصم اُس کے ہمراہ چل دیا۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ اپنے میزبان کے ساتھ ایک پُرتکلف دسترخوان پر بیٹھا تھا۔
عاصم نے چند نوالے کھانے کے بعد اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ تو زید نے قدرے پریشان ہو کر پوچھا۔ ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔ ’’میرا پیٹ بھر چکا ہے اور اب مجھے چند پہر صرف پرسکون نیند کی ضرورت ہے‘‘۔ ’’میں نے تمہارے آرام کے لیے ایک علیحدہ خیمے کا انتظام کردیا ہے۔ اب اگر اسے مہمان نوازی کے آداب کے خلاف نہ سمجھو تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارا پیچھا کرنے والوں کی تعداد کیا ہے اور وہ یہاں سے کتنی دور ہیں؟‘‘
’’ان کی پانچ ٹولیاں میرا پیچھا کررہی ہیں۔ آخری ٹولی کو میں نے یہاں سے تین منزل کے فاصلے پر دیکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ تمام سواروں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہوگی‘‘۔
’’بنوخزرج کے پچاس سوار تمہارا پیچھا کررہے تھے اور تمہارے قبیلے کا کوئی آدمی تمہاری مدد کو نہیں پہنچا؟‘‘
’’میرا پیچھا کرنے والے بنو خزرج کے آدمی نہیں بلکہ میرے اپنے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور میں راستے میں لڑنے کی بجائے اُن کی نگاہوں سے بچ کر یہاں پہنچنا چاہتا تھا۔ مسلسل بے آرامی کے بعد میری آخری اُمید آپ کی بستی تھی لیکن یہاں تک پہنچنے سے قبل میرے لیے یہ اطمینان کرنا ضروری تھا کہ دشمن نے میرا پیچھا چھوڑ دیا ہے۔ سواروں کا پہلا گروہ میں نے یثرب سے فرارا ہونے کے دوسرے روز دیکھا تھا۔ پھر میں راستہ چھوڑ کر دو دن صحرا میں بھٹکتا رہا۔ تیسری شام میں بھوکا اور پیاسا بنو کلب کی ایک بستی کے قریب پہنچا تو ایک چروا ہے کی زبانی معلوم ہوا کہ یثرب کے پندرہ بیس سوار بستی کے رئیس کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں نے یہ رات بھی صحرا میں گزاری اور اس کے بعد تین دن اور ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ اس عرصہ میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ بنو کلب کے سواروں کا ایک گروہ بھی مجھے تلاش کررہا ہے۔ ایک رات میں نے ایک بددی کے خیمے میں پناہ لی۔ اُس نے میری خاصی خاطر تواضع کی لیکن جب ہم کھانا کھا کر لیٹ گئے تو وہ دبے پائوں خیمے سے باہر نکل گیا۔ میں ابھی نیم خوابی کی حالت میں تھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے اپنے گھوڑے کی ہنہناہٹ سنائی دی۔ میں پریشان ہو کر باہر نکلا تو وہ میرے گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے یہ اطمینان تھا کہ میرے گھوڑے پر کوئی غیر سواری نہیں کرسکتا اس لیے میں ایک طرف چھپ کر اطمینان سے یہ تماشا دیکھتا رہا۔ بددی مایوس ہو کر اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور ایک طرف نکل گیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے تلاش کرنے والوں کے پاس جارہا ہے۔ اس وقت میں چند گھنٹے کی نیند کے عوض اپنا گھوڑا اور زادراہ بھی قربان کرنے کو تیار تھا لیکن نیند کی حالت میں قتل ہونا مجھے پسند نہ تھا۔ چناں چہ میں نے اپنے گھوڑے پر زین ڈالی اور سوار ہو کر وہاں سے چل دیا۔ کوئی پانچ کوس چلنے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور میں گھوڑے کو کھلا چھوڑ کر ریت کے ایک ٹیلے پر لیٹ گیا۔ پچھلے پہر سردی سے میری آنکھ کھل گئی۔ اور میں نے آگ جلانے کی ضرورت محسوس کی لیکن ابھی کوئی خشک جھاڑی تلاش ہی کررہا تھا کہ مجھے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی پھر چاند کی دھندلی روشنی میں ٹیلے سے کوئی دو سو قدم دور مجھے چند سوار دکھائی دیئے، ایک شتر سوار اُن کی رہنمائی کررہا تھا۔ میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ وہ کون ہے۔ حیرانی کی بات صرف یہ تھی کہ اُس نے مجھے نیند کی حالت میں قتل کیوں نہیں کردیا تھا‘‘۔
’’اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ قتل نہ کرنے کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ تمہیں پکڑوانے کے بعد اُسے زیادہ انعام کی توقع تھی۔ میں تمہاری تمام سرگزشت سننا چاہتا ہوں لیکن اس وقت تمہیں آرام کی ضرورت ہے میرے ساتھ آئو‘‘۔
عاصم اُس کے ساتھ باہر نکلا، تھوڑی دیر بعد وہ کشادہ صحن کے کونے میں ایک چھوٹے سے خیمے میں داخل ہوا۔
زید نے کہا۔ ’’اب تم اطمینان سے سو جائو۔ میں تمہیں اس بات کا یقین دلا سکتا ہوں کہ اگر یثرب کی ساری آبادی اس طرف اُمڈ آئے تو بھی میرا خاندان تمہاری حفاظت کرے گا۔ مجھے بنو کلب کے متعلق بھی یہ اطمینان ہے کہ وہ یثرب کے کسی خاندان کو خوش کرنے کے لیے ہماری دشمنی مول نہیں لیں گے‘‘۔
زید عاصم کو تسلی دینے کے بعد خیمے سے باہر نکل گیا اور عاصم کو بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔ پچھلے پہر وہ بیدار ہوا تو اُس کا گلا پیاس سے خشک ہورہا تھا۔ اور جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ چاند کی روشنی میں اُسے خیمے کے دروازے کے قریب ایک مٹکا دکھائی دیا اُس نے اُٹھ کر پانی کے دو کٹورے پیئے اور دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ لیکن جسم کے درد اور بخار کے باعث اُسے نیند نہ آئی۔ طلوع سحر کے وقت وہ خیمے سے نکلا اور کچھ دیر بستی سے باہر گھومنے کے بعد واپس آکر پھر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
زید خیمے کے اندر داخل ہوا اور عاصم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
زید نے کہا۔ ’’میرا خیال تھا کہ تم ابھی تک سو رہے ہو گے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں کئی دن کے بعد آرام کی نیند سویا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ آج ہی مجھے اپنی تھکاوٹ کا احساس ہوا ہے۔ میرا سارا جسم درد کررہا ہے اور شاید بخار بھی ہے‘‘۔
زید نے آگے بڑھ کر اُس کی نبض دیکھی اور بولا۔ ’’میں شام کے وقت بھی یہ محسوس کررہا تھا کہ تم بیمار ہو، لیکن دو چار دن آرام کرنے کے بعد تم بالکل ٹھیک ہوجائو گے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میرا خیال تھا کہ میں ایک رات آرام کرنے کے بعد سفر کے قابل ہوجائوں گا اور آپ کو زیادہ تکلیف نہ دوں گا‘‘۔
زید نے جواب دیا۔ ’’عاصم! میں تمہیں عمر بھر کے لیے پناہ دے چکا ہوں۔ اور میرا سارا خاندان یہ محسوس کرتا ہے کہ ہمارے لیے یہ سودا مہنگا نہیں۔ میں بنو غطفان کے تمام رئوسا کے سامنے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ تم ہمارے قبیلے میں داخل ہوچکے ہو اور میرے خاندان سے تمہارا رشتہ خون کا رشتہ ہے۔ ہمارے پاس اہل یثرب کی طرح سرسبز و شاداب چراگاہیں اور باغ نہیں لیکن ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ دوسرے قبائل کے کئی پناہ گزین ہمارے قبیلے میں داخل ہوچکے ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن اس وقت میرا کوئی فیصلہ ایک ایسے انسان کا فیصلہ ہوگا۔ جو اپنے حواس کھوچکا ہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ مجھے چند دن سوچنے کا موقع دیں‘‘۔
زید نے ندامت کے لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں نے تمہیں کسی شرط کے بغیر پناہ دی ہے لیکن مجھے یقین ہے تندرست ہونے کے بعد جب تم اپنے مستقبل کے متعلق اطمینان کے ساتھ سوچو گے تو میری مخلصانہ دعوت رد نہیں کرسکوں گے‘‘۔
O
پانچویں دن عاصم کا بخار اتر چکا تھا اور مزید چند دم آرام کرنے کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا۔ اِس عرصہ میں اُسے اپنا تعاقب کرنے والوں کے متعلق یہ معلوم ہوچکا تھا کہ وہ بنو کلب کے علاقہ چھاننے کے بعد بنو غطفان کے بعض رئوسا کے پاس بھی پہنچے تھے لیکن زید کے اثرورسوخ کے باعث قبیلہ کا کوئی بااثر آدمی ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ ایک دن زید کو یہ اطلاع ملی کہ پانچ سوار اُس کی بستی کا رُخ کررہے ہیں۔ اُس نے بیس جوان اُن کا راستہ روکنے کے لیے بھیج دیے۔ زید کے آدمیوں نے بستی سے دو کوس کے فاصلے پر اُن پر حملہ کیا اور اُن کے گھوڑے اور اسلحہ چھین کر انہیں واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد کسی اور گروہ کو زید کی بستی کا رُخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
تین ہفتے کے بعد ایک دن زید کی چھوٹی بہن کی شادی کے موقع پر قبیلے کا بڑا سردار اور دوسرے رئوسا اُس کے گھر جمع ہوئے تو اُس نے عاصم کو اُن کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھائیو اور بزرگو! مجھے اِس بات پر فخر ہے کہ قبیلہ اوس کے ایک معزز نوجوان نے پناہ لینے کے لیے میرا گھر منتخب کیا ہے اور میری وجہ سے بنو غطفان کے اسلحہ خانے میں ایک قیمتی تلوار کا اضافہ ہورہا ہے۔ میں اسے اپنے قبیلے میں داخل کرنے کے لیے آپ کی اجازت چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ خوشی سے مجھے اس کی اجازت دیں گے۔ عاصم کے دل میں ابھی تک یہ شبہ ہے کہ ہم شاید اُسے پناہ دے کر بنواوس کی دشمنی مول لینے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اور اسے مطمئن کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ سب باری باری میرے اِس اعلان کی تائید کریں کہ آج سے عاصم کے دوست ہمارے دوست اور اس کے دشمن ہمارے دشمن ہوں گے‘‘۔
قبیلے کے بڑے سردار نے کہا۔ ’’میں پورے قبیلے کی طرف سے تمہارے اعلان کی تائید کرتا ہوں اور اگر یہ نوجوان ہمارے دوستوں کی خاطر جان دینے کی ہمت اور ہمارے دشمنوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا حوصلہ رکھتا ہے تو میں تمہیں مبارکباد کا مستحق سمجھتا ہوں‘‘۔
زید نے فخر سے اپنا سر اونچا کرتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم آپ کو مایوس نہیں کرے گا‘‘۔ پھر وہ عاصم سے مخطب ہو کر بولا ’’کیوں، عاصم! تم مجھے شرمسار تو نہیں کرو گے‘‘؟ لیکن عاصم نے جواب دینے کے بجائے سر جھکالیا۔
زید نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’عاصم میں اپنا فرض ادا کرچکا ہوں، اب یہ حضرات تمہاری زبان سے یہ سننا چاہتے ہیں کہ آج کے بعد بنو غطفان کے دوستوں کے سوا تمہارا کوئی دوست نہ ہوگا۔ تم خاموش کیوں ہو‘‘؟
حاضرین کی نگاہیں عاصم کے چہرے پر مرکوز ہو کر رہ گئیں، اُس نے گردن اٹھائی اور مغموم لہجے میں کہا۔ ’’میں آپ کا احسان مند ہوں اور احسان مندی کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ میں آپ سے کوئی ایسا وعدہ نہ کروں جسے نبھانا میری ہمت سے بعید ہو۔ یثرب میں اپنے متعلق میں یہ تاثر چھوڑ کر آیا ہوں کہ قدرت نے مجھے دوست اور دشمن کے درمیان امتیاز کرنے والی نگاہ سے محروم کردیا ہے۔ وہاں میں نے جن لوگوں کی حمایت میں تلوار اٹھائی تھی وہ میرے دوست نہ تھے، بلکہ اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جس نے میرے باپ، میرے بھائیوں اور میرے عزیزوں کو قتل کیا تھا اور میں نے جن جوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا وہ میرے دشمن نہ تھے بلکہ میرے اپنے خاندان کے آدمی تھے۔ کل تک میں ایک خاندان اور ایک قبیلے کا فرد تھا اور میری دنیا دوستوں اور دشمنوں سے آباد تھی۔ لیکن آج میری دنیا دوستی اور دشمنی کے جذبات سے خالی ہے۔ میں اپنے اسلاف کے راستے سے بھٹک کر ایک ایسے صحرا کی طرف نکل گیا تھا جہاں میرے لیے ویرانیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اپنی بے بسی اور مایوسی کے باوجود صرف ایک گمنام زندگی کی خواہش مجھے زید کے دروازے تک لے آئی تھی۔ ورنہ میں اس عزت افزائی کا مستحق نہ تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ایک ایسے محسن کو مایوس کررہا ہوں جس نے مجھے زندہ رہنے کے لیے سہارا دیا ہے۔ لیکن اب میں یہ عہد کرچکا ہوں کہ زندگی بھر کسی انسان پر تلوار نہیں اٹھائوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ عرب میں اس قسم کا اعلان کرنے والے کو پاگل سمجھا جائے گا لیکن جس شخص نے اپنے خرمن کو اپنے ہاتھ سے آگ لگائی ہو وہ ایک پاگل کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ آپ اس بات پر تعجب کریں گے کہ میں اپنے کیے پر پشیمان نہیں ہوں بلکہ یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر میری زندگی میں دوبارہ ایسے حالات پیش آئیں تو بھی میرا طرزِ عمل وہی ہوگا جس کے نتیجے میں میری دنیا دوستی اور دشمنی کے متعلق اپنے خاندان اور اپنے قبیلے کے دیرینہ تصورات سے خالی ہوچکی ہے‘‘۔
عاصم یہاں پہنچ کر رُک گیا پھر اُس نے اپنی تلوار کا تسمہ کھولا اور اُسے زید کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’انسانی خون کے لیے میری پیاس بجھ چکی ہے۔ مجھے اب اس تلوار کی ضرورت نہیں، لیجیے! اور اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ میں نے آپ کو اس محفل میں شرمسار کیا ہے تو میری گردن حاضر ہے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ