اقبال (آخری قسط)

346

اقبال نے شاعری میں جو پیغام دیا،مولانا مودودی نے نثر میں دیا۔اقبال اور اقبالیات پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا خصوصی انٹریو
سوال: اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکری ہم آہنگی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: اقبال نے شاعری میں جو پیغام دیا، مولانا مودودی نے نثر میں اس کی تفصیل بیان کی۔ پھر اس کے لیے جدوجہد بھی کی۔ اقبال نے تو شاعری میں بات کرکے لوگوں پر چھوڑ دیا، کوئی منظم جماعت یا کوئی تحریک قائم نہیں کی۔ ایک تحریک مولانا نے برپا کی اور اقبال کی شاعری کے جو اثرات تھے ان سے بھی فائدہ اٹھایا۔ اقبال کی شاعری ذہنوں کو مائل کرتی ہے اسلام کی طرف، نشاۃ ِ ثانیہ کی طرف۔ اور مولانا کا بھی مقصد یہی تھا، اسی لیے بہت سے لوگ جو اقبال کے مداح تھے وہ مولانا کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔
سوال: اقبال اور مولانا مودودی کے رابطے کی کیا تفصیلات ہیں؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: سید نذیر نیازی اور میاں محمد شفیع کہتے ہیں کہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں علامہ کی نظر سے مولانا مودودی کی تحریریں گزرتی تھیں اور ان کی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘بھی انہوں نے دیکھی تھی۔ اس وجہ سے وہ مولانا کی علمیت اور فہمِ اسلام سے متاثر تھے۔ علامہ نے چودھری نیاز علی خان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ادارے واقع پٹھانکوٹ کے لیے مولانا کو حیدرآباد سے بلالیں۔ چودھری صاحب اور مولانا کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا۔ 1937ء میں مولانا پٹھانکوٹ آئے، پھر چودھری صاحب کو ساتھ لے کر لاہور میں علامہ سے ملے۔ علامہ محمد اسد بھی ملاقاتوں میں شامل تھے۔ مجوزہ ادارے کے آئندہ منصوبوں، منہج اور طریقہ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے بعد مارچ 1938ء میں مولانا حیدرآباد دکن سے پٹھانکوٹ منتقل ہوگئے۔ علامہ کا ارادہ تھا کہ وہ بھی ہر سال چند ماہ کے لیے وہاں آ کر قیام کریں گے۔ مولانا مزید مشوروں اور رہنمائی کے لیے لاہور جانے کا ارادہ کررہے تھے کہ علامہ 21 اپریل کو انتقال کرگئے۔
سوال: مولانا مودودی کی اقبال سے ملاقات اور مراسلت کو بعض لوگ خلافِ واقعہ سمجھتے ہیں۔ آپ مولانا اور اقبال کے تعلق کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: نومبر1979ء کی بات ہے، ایک صحافی ڈاکٹر جاوید اقبال سے انٹرویو لے رہا تھا۔ اس نے پوچھا کہ اس بات کی کوئی تاریخی شہادت ہے کہ مولانا مودودی علامہ اقبال کی دعوت پردکن سے پنجاب تشریف لائے تھے؟ جاوید اقبال نے جواب دیا: جب مولانا خود کہتے ہیں کہ مجھے علامہ صاحب نے بلایا تھا تو پھر تاریخی شہادت چہ معنی دارد؟ پھر عبدالمجید سالک، سید نذیر نیازی اور میاں محمد شفیع کی گواہی بھی موجود ہے۔
سوال: ڈاکٹر جاوید اقبال کی سوانح حیات پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ڈاکٹر جاوید اقبال سے میری ملاقات خاصی پرانی تھی۔ ’’زندہ رود‘‘ کی پہلی جلد چھپی تو میں نے اس کی کئی چیزوں کی نشاندہی کی کہ اس میں یہ اور یہ چیزیں اصلاح طلب ہیں۔ جب انہوں نے دوسری اور تیسری جلد لکھی تو چھپنے سے پہلے اس کا مسودہ مجھے بھیجا۔ پھر جب وہ خودنوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ لکھ رہے تھے تو اس کا بھی مسودہ انہوں نے مجھے دکھایا۔ میں نے کچھ چیزوں کی نشاندہی کردی۔ ان کی آزاد خیالی سے متعلق جو باتیں تھیں، ان پر میں نے کہا کہ یہ چیزیں اگر نہ ہوں تو بہتر ہے۔ کیمبرج کے واقعات پر لوگوں کو اعتراض ہوگا۔ بہرحال میں نے مشورہ دے دیا۔ کچھ انہوں نے قبول کیا اور کچھ نہیں کیا، بلکہ زیادہ تر نہیں کیا۔ شروع میں میرا ذکر کیا اور شکریہ ادا کیا۔ ایک دفعہ ہم ایک مجلس میں بیٹھے تھے، ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ جاوید صاحب، یہ جو چیزیں آپ نے لکھی ہیں یہ ٹھیک نہیں ہیں۔ میں بھی پاس بیٹھا تھا، میری طرف اشارہ کرتے ہوئے جاوید اقبال نے پنجابی میں کہا کہ ’’ایہناں نے تے کیہا سی: کٹ دیو، کٹ دیو، پر میں کیہا:ایسے طرح چلن دیو‘‘۔ اس میں وہ زیادہ آزاد خیال ہوگئے ہیں۔ وہ تھے بھی اس طرح کے۔ اقبال کے بڑے معصومانہ خیالات تھے کہ میرا بیٹا نماز کے لیے مسجد جائے، صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھے۔ اور اس کو اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل کرایا تھا۔ اُن کے ذہن میں آئیڈیل تھا کہ یہ ایسا بنے۔
سوال: بیٹے نے وہ چیزیں بیان کیں جن سے باپ کا تاثر خراب ہوا، اس کا مطلب یہ ہے کہ بیٹے کو باپ سے کچھ مسئلہ ہے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: شاید یہی ہو، اور وہ خود کہتے ہیں کہ جب والد فوت ہوگئے تو میں نے خوب انگریزی لباس پہنے اور خوب سنیما دیکھے۔ یہ ردعمل تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ اقبال کا بیٹا ہے، اس لیے وہ چڑتے تھے کہ میری اپنی کوئی شخصیت نہیں ہے! اور صحیح بات یہی ہے کہ وہ اقبال کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ورنہ تو ایک عام وکیل ہوتے۔
سوال: اقبال اکبر الٰہ آبادی کی عظمت کے قائل تھے، ان کے زیراثر بھی تھے، کیا یہ بات درست ہے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: بالکل صحیح ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے مغرب پر تنقید کی مگر برطانیہ کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے ایک انداز اپنایا اور اقبال نے دوسرا رنگ اپنایا۔ پہلے اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں بھی کچھ شاعری کی، لیکن پھر اندازہ کرلیا کہ اس طرح تقلید کرنے سے بات نہیں بنے گی تو انہوں نے اپنا الگ راستہ نکالا۔ وہ شاعری کا منفرد راستہ تھا۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ جو پچھلے شعرا ہیں اُن کے مقابلے میں نئی آواز ہے، نیا انداز ہے، مثلاً اقبال عشق کا ذکر کرتے ہیں، پرانی شاعری میں جو عشق ہے اس کو نئے معنی دیے، اس کا بہت وسیع کینوس بنایا، بات کو بہت پھیلا دیا۔ اقبال کی تقلید کی بھی لوگوں نے کوشش کی ہے مگر وہ بات نہیں بن سکی۔
سوال: اقبال ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر شاعر ہیں۔ اس عظمت و بلندی تک وہ بے شمار کتابوں، نظریات و افکار، اور مفکروں کا بنظر غائر مطالعہ کرکے پہنچے ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ ان کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی انسان اور اس کے افکار نے اقبال کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، تو وہ مولانا رومی اور ان کی مثنوی ہے۔ اقبال کو مولانا سے اس قدر لگاؤ اور محبت ہے کہ وہ مولانا کو اپنا معنوی استاد اور رہنما سمجھتے ہیں۔ آپ بحیثیت محقق اقبال کی شاعری میں مولانا روم کے اثرات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: رومی کا زمانہ سقوطِ بغداد اور تاتاریوں کے حملوں کے بعد کا زمانہ تھا جب عالم اسلام پر مایوسی چھائی ہوئی تھی، رومی نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو حوصلہ دیا اور دوبارہ جدوجہد کرنے کا راستہ دکھایا۔ علامہ اقبال بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کا رومی تھا اور میں اپنے زمانے کا رومی ہوں، میرے زمانے میں بھی عالم اسلام سامراجی طاقتوں کا غلام اور ہمہ پہلو زوال و انحطاط کا شکار ہے، میں ان کو ایک راستہ دکھا رہا ہوں اور ایک اعتماد دے رہا ہوں کہ آگے بڑھیں۔ ’’شکوہ‘‘، ’’جوابِ شکوہ‘‘ اور دوسری نظموں میں جو باتیں کی ہیں وہ اس طرح کی ہیں جس طرح رومی نے کی تھیں۔ علامہ کی تمام شعری و نثری تصانیف میں ماسوا ’’علم الاقتصاد‘‘، رومی کا ذکر ملتا ہے، حتیٰ کہ انگریزی خطبات میں بھی دو جگہ رومی کا ذکر کیا ہے۔ وہ رومی کو ’’مرشدِ روشن ضمیر‘‘، ’’مرشدِ اہلِ نظر‘‘، اور ’’امامِ راستاں‘‘ جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں۔ دراصل اقبال کے ہاں رومی کے اثرات کا قصہ طویل ہے۔ اقبال کے شعری آثار کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’اسرار خودی‘‘ لکھنے کی تحریک رومی کی طرف سے ہی ہوئی۔ ’’رموزِ بے خودی‘‘ کا آغاز بھی رومی کے شعر سے ہوتا ہے۔ یہ دونوں مثنویاں اور ’’جاوید نامہ‘‘ بھی مثنوی معنوی کی بحر میں لکھے گئے۔ اقبال نے اپنے اُردو اور فارسی کلام میں جا بجا رومی کے اشعار پر تضمین کی ہے۔ رومی سے متعدد مکالماتی نظمیں بھی ملتی ہیں۔ ہمارے بعض نقادوں نے غزلیاتِ اقبال کے مستانہ لب و لہجے کو رومی کے اثر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ دراصل اقبال کے بیشتر اہم تصورات کا سرا کسی نہ کسی حوالے سے رومی کے تصورات سے مربوط نظر آتا ہے۔ تصور عشق، مسئلہ تقدیر، مردِ کامل، شرفِ انسانی، اُمید پرستی، موت سے بے خوفی، خودی اور خود شناسی کے ضمن میں علامہ نے رومی سے کسبِ فیض کیا۔ وہ یہ تک کہتے ہیں کہ حیات و موت کا راز مجھے رومی سے ملا ہے:
مرشدِ رومی حکیم پاک زاد
سرّ مرگ و زندگی بر ما کشاد
سوال: اگر ہمارے درمیان اقبال نہ ہوتے تو علم و دانش کے حوالے سے ہمارا کیا مقام ہوتا؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ہماری اور ہمارے ملک کی پہچان اس طریقے سے نہ ہو تی جیسے اقبال کے حوالے سے ہے۔ باہر کے کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ پاکستان کیسا خوش قسمت ملک ہے جس کو اقبال جیسا مفکر شاعر میسر ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی قابلِ فخر بات ہے۔ مگر شرمندگی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اقبال کو گھر کی مرغی دال برابر سمجھ کر اُسے قرار واقعی اہمیت نہیں دی اور اُسے قوالوں کے سپرد کر دیا ہے۔

حصہ