ادھورے

189

یونی ورسٹی کے آڈیٹوریم میں ایک خوب صورت شام اتری تھی۔ آج ماسٹرز کی ڈگری تقویض کرنے کی تقریب پوری شان کے ساتھ منعقد کی جارہی تھی۔کالے مخصوص کوٹ میں ملبوس طالب علم خوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ پہنچ چکے تھے۔ پروگرام شروع ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔ مخصوص نشستوں پر والدین بٹھا دیے گئے۔ انتظامات پر ایک بھرپور نظر ڈالتے ہوئے وہ آڈیٹوریم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تیزی سے جارہی تھیں۔ بڑی سی ہلکے گرے رنگ کی چادر سر سے پاؤں تک ڈھانپے انہیں سب سے جدا پہچان دیتی۔
’’میڈم جاوداں سلطان پلیز…‘‘
پیچھے سے سلام کرکے انہیں متوجہ کیا گیا۔ میڈم جاوداں نے مڑ کر پوری توجہ سے سلام کا جواب دیا اور گہری مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے مبارک باد دی ’’آپ یقینا ہمارے کسی طالب علم کی والدہ ہیں۔‘‘
’’جی میں غیاث کی امی ہوں، غیاث آپ کا طالب علم، جس نے گولڈ میڈل لیا ہے… میڈم میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ آپ کی محنت اور توجہ نے آج صرف میرے بیٹے ہی کو نہیں بلکہ بہت سے بچوں کو کامیابی کی اس منزل پر پہنچایا ہے۔‘‘
’’اس میں شکریہ کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے طلبہ کو اپنے بچوں کی طرح ہی سمجھتی ہوں۔‘‘ میڈم جاوداں نے پُرشفقت لہجے میں کہا۔
’’جی!آپ کے پُرخلوص رویّے کی بنا پر ہی آپ کے طالب علم آپ کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ کچھ وقت آپ کا لوں گی، مجھے یقین ہے آپ غیاث کو قائل کرسکیں گی۔‘‘
پھر غیاث کی والدہ نے اصل مسئلہ میڈم کے گوش گزار کیا۔
’’ٹھیک ہے، میں جلد ہی کسی دن صرف غیاث ہی سے نہیں دیگر طلبہ سے بھی اس مسئلے پر بات کرتی ہوں۔‘‘ میڈم جاوداں نے ذمے داری کے احساس کے ساتھ کہا۔
سو پہلے ہی اتوار کو میڈم جاوداں نے اپنے گھر طلبہ کے ساتھ نشست رکھ لی۔ وہ شام اپنے چھوٹے سے لان میں فطرت سے لطف اندوز ہوکر گزارنا پسند کرتی تھیں، اس لیے آج شام کی ملاقات کا انتظام بھی لان میں ہی کرلیا گیا تھا۔ ان کے کچھ طالب علم ابھی مزید پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے اعلیٰ تعلیم کی طرف چلے گئے، لیکن کچھ طالب علم اب اپنے روزگار کی فکر میں سرگرداں تھے۔
غیاث کی والدہ نے بھی میڈم جاوداں کو بتایا تھا کہ غیاث اب بیرونِ ملک جانے کی کوشش میں ہے مگر وہ ایسا نہیں چاہتیں۔ آج کے مہمان وہی طلبہ تھے جو اپنی آنے والی زندگی کے لیے رہنمائی چاہتے تھے۔
میڈم جاوداں نے آج کی نشست میں اپنی کسی طالبہ کو مدعو نہیں کیا تھا، وہ سمجھتی تھیں کہ طالبات کا دائرۂ کار وہ ان کی ضرورت کے مطابق ہی ان سے ڈسکس کریں گی۔ دھوپ ڈھلتے ہی سائے گہرے ہورہے تھے، مالی بابا پودوں کو پانی لگا کر اب گھاس پر چھڑکاؤ کررہے تھے، خنک ہوا میں بھینی بھینی خوشبو بسی ہوئی تھی، سب مہمان طلبہ دو گاڑیوں میں اکٹھے آئے تھے کہ ایک ساتھ پہنچ کر میڈم کا وقت بچایا جائے۔ دیگر دوستوں کے سلام دعا کے دوران ہی غیاث میڈم سے مل کر مالی بابا کو سلام کرکے وہیں ان کو کام کرتا دیکھ رہا تھا، وہ چھوٹے سے باغ کی خوب صورتی دیکھ کر مالی بابا کے ہنر کا قائل ہوگیا تھا اور کچھ پودوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا:
’’مالی بابا! یہ کس پودے کی خوشبو نے سارے ماحول کو مہکا دیا ہے؟‘‘
’’سرکار! کسی ایک کی نہیں، سب پودوں اور مٹی کی ملی جلی مہک ہے۔ سمجھو یہ سب مل کر اپنا قرض اتارتے ہیں۔ ہم انہیں پانی دیتے ہیں، ان پر محنت کرتے ہیں، تب یہ ہمیں اپنی خوشبو کا تحفہ دیتے ہیں۔‘‘
’’واہ… سبحان اللہ!‘‘ غیاث بے ساختہ داد دیتے ہوئے اپنے دوستوں کے درمیان آگیا اور اُن سے مالی بابا کی بات دہرائی۔
میڈم بھی بات سن کر مسکرا دیں اور کہا ’’ہمارے رب نے کیا خوب فطرت بنائی ہے اپنی مخلوقات کی۔‘‘ چھوٹے بابو میڈم کے مددگار تھے، اسی اثنا میں گرما گرم چائے اور اسنیکس سے تواضع ہونے لگی۔
اس کے بعد میڈم جاوداں طلبہ سے گویا ہوئیں: ’’آپ بچوں کا اب ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے، امید ہے آپ سب اس میں بھی کامیاب ہوںگے…کیسا رہا آپ کا دورِ طالب علمی؟‘‘
’’ایک سنہرا دور گزرا ہے میم! لیکن مادرِ علمی سے باہر آکر زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا ہے۔‘‘ عادل نے ٹھیرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
’’ہم نوجوانوں کے لیے جاب کے ذرائع بہت کم ہیں، ہماری تعلیمی ڈگری کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی‘‘۔ ساجد نے بات کو واضح کرتے ہوئے کہا۔
’’ہم نے اپنی آنکھوں میں خوب صورت خواب سجا لیے تھے، ہم یہاں ان کی تعبیر نہیں پاسکتے شاید‘‘۔ غیاث نے دور آسمان پر اُڑتے اور نقطہ بن کر غائب ہوتے پنچھی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
میڈم جاوداں خاموشی سے اپنے طالب علموں کی باتیں سن رہی تھیں، وہ انہیں موقع دینا چاہتی تھیں کہ وہ کھل کر اپنے دل کی بات کہیں۔ ماحول میں تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد میڈم کی آواز ابھری: ’’میرے بچو! یہاں وطن میں راستے اتنے محدود نہیں ہیں جو تمہیں مایوس کردیں، اصل میں ہمارے نوجوانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ’’سی وی‘‘ لے کر نوکریاں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں، بدقسمتی سے ملک میں چھوٹے پیمانے پر بزنس، میڈیم اسکیل انٹرپرائزز یا سول سروس کی کوشش ہی نہیں کی جاتی، مینوفیکچرنگ کا چھوٹا یونٹ کھولنا یا ملک میں صنعتی کلچر کو فروغ دینا… یہ سب نظر نہیں آتا۔ محدود ذرائع موجود ہیں، مگر کوئی اس جانب نہیں آتا۔‘‘
’’لیکن میڈم ہم نے چار سال علم حاصل کرکے ڈگری لی ہے، یہ علم کس طرح ہماری آگے کی راہ ہموار کرے گا؟‘‘ عادل نے سوال اٹھایا۔
’’آپ کے علم نے آپ کے ذہن کو وسعت دی ہے، آپ کے شعور اور اعتماد کو پختہ کیا ہے۔ سو، اپنی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے کسی ہنر کا ایک کورس ہی آپ کو آپ کے کیریئر کی پہلی سیڑھی پر کھڑا کردے گا۔ اطراف میں بھی آپ کی ضرورت ہے جیسے کہ ساجد کے والد سے میری بات ہوئی، انہوں نے مجھ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ساجد ان کے جنرل اسٹور پر توجہ دے‘‘۔ ’’اور مجھے یقین ہے ساجد اپنے والد کے جنرل اسٹور کی ایک چین بنادے گا… کیوں ساجد! میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟‘‘میڈم کے شوہر سلطان صاحب نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
ساجد کے ذہن میں بھی اس وقت اپنے والد کی نصیحت ایک بازگشت کی طرح موجود تھی کہ ’’میں چاہتا ہوں میرا تجربہ اور ساجد تمہارا حوصلہ اس جنرل اسٹور کی قسمت بدل دے۔‘‘ساجد نے سوالیہ نظروں سے اپنی ٹیچر کی جانب دیکھا۔
’’ہم سب تمہیں اس راستے پر کامیاب دیکھ رہے ہیں ساجد۔‘‘ میڈم جاوداں کے پُر اعتماد لہجے نے ساجد کو یقین دلایا۔
انہوں نے سب کو گفتگو میں شامل کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے معاشرے میں روزگار کے مسائل صرف نوجوانوں کے نہیں بلکہ پورے خاندان کے ہوتے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور سفارشی کلچر سے دل برداشتہ ہوکر باہر کے ملکوں میں مزدوری کرنے یا فارغ رہ کر خدانخواستہ کسی برائی میں مبتلا ہوکر اپنے والدین کے لیے اذیت بن جانے سے بہتر ہے کہ دستیاب وسائل میں خلوص سے اپنی محنت لگائی جائے۔‘‘
سب کو اُن کے انفرادی مسائل پر مشورہ دیتے ہوئے میڈم جاوداں، غیاث کی خاموشی سے اندازہ لگا رہی تھیں کہ وہ ملک سے باہر قسمت آزمائی کا مصمم ارادہ کرچکا ہے، چنانچہ وہ اس کے ارادے پر اپنی رائے کو زبردستی حاوی کرنے کے بجائے اس کی سوچ کو درست سمت دینا چاہتی تھیں۔ انہوں نے غیاث کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ’’تمہیں اندازہ ہے غیاث اپنوں سے دور رہ کر انسان کتنا اکیلا ہوجاتا ہے!‘‘
’’جی میڈم! میں اپنے فیصلے پر غور کروں گا۔‘‘ اتنی ہمہ جہتی گفتگو کے بعد اب اُسے بھی اپنا فیصلہ حتمی نہیں محسوس ہورہا تھا۔
اب سب رخصت لے رہے تھے۔ مالی بابا بھی کام سمیٹ کر وہیں آگئے۔ وہ میڈم جاوداں سے آنے والے دن کے کسی کام کی اجازت لے رہے تھے۔ غیاث نے جاتے جاتے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ چھوٹے صاحب پہاڑی علاقوں سے پھلوں کے درخت کی جو قلمیں لائے تھے وہ یہاں کی آب وہوا اور مٹی میں جڑ نہیں پکڑ سکیں، ان سب پودوں کو اب نکال کر ضائع کرنا ہوگا۔ غیاث لمحہ بھر کو ٹھٹھک گیا، کچھ دیر پہلے کہی گئی بات اس کے ذہن میں گونجی ’‘اپنوں سے دور ہوکر کوئی کتنا تنہا ہوجاتا ہے!‘‘
شاید یہ پودے بھی اپنی مٹی سے دور ہوکر ادھورے رہ گئے۔

حصہ