زبان داری ہے سرداری

195

ایک تقریب میں خاتون اپنے دو سالہ بچے کو اس طرح کھانا کھلا رہی تھیں ’’بیٹا پلیز ون بائٹ لیجیے، دیکھیں یہ کتنا یمی ہے۔ جلدی سے سب فنش کیجیے۔‘‘
جب مائیں بچوں کو اسکول کے لیے تیار کررہی ہوتی ہیں تو کہتی ہیں ’’بیٹا شوز کہاں ہیں؟ سوکس پہنیں، جلدی سے ریڈی ہوجائیں۔‘‘
ایک دفعہ میں نے اپنے بھانجے سے کہا کہ دیکھو جامنی رنگ کا کپڑا اٹھا کر دے دو، تو وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگا۔ اسی طرح مختلف رنگوں کے نام بچوں کو نہیں آتے۔ بچوں کو شروع ہی سے پھلوں، سبزیوں کے نام انگریزی میں سکھائے جاتے ہیں اور وہ اچھے خاصے بڑے ہوکر بھی اردو ناموں سے نابلد رہتے ہیں۔
اب بہت سے گھروں میں بچوں کو سوشل ایپ کے ذریعے اس طرح بولنا سکھایا جاتا ہے کہ ان کا لہجہ بالکل انگریزوں جیسا ہوجاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انگریز اردو بول رہا ہے۔ ہم اس طرح کے لہجے پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔
اور تو اور ہماری ماسی دل کھول کر چھٹیاں کرتی ہے، اور جب اُس سے بازپرس کی جاتی ہے تو کہہ دیتی ہے ’’باجی سوری، رات کو فنکشن میں گئی تھی، لیٹ ہوگئی۔‘‘
ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ کیا تم نے باورچی خانے کی صفائی کردی؟ تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ جب بتایا کہ کچن کے متعلق پوچھ رہے ہیں تو اس کی سمجھ میں بات آئی۔
اردو سے دوری کی بنیادی وجہ مطالعے کی کمی ہے۔ کتابیں اور اخبارات پڑھنے کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے۔ موبائل فون کے استعمال میں رومن اردو لکھنے سے اردو کا املا خراب ہورہا ہے۔ اب بامحاورہ اردو سننے میں نہیں آتی، اور اگر کبھی کوئی مشکل لفظ یا محاورہ بول دیا جائے تو بچے منہ دیکھتے ہیں، بلکہ آج کل کے نوجوان بھی سمجھ نہیں پاتے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان بولنے اور لکھنے میں زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہمیں اس کو بہتر اور نئے سرے سے بحال کرنا ہوگا، کتب بینی کو فروغ دینا ہوگا۔ بچوں کو تحفتاً کتابیں دی جائیں کہ اچھے الفاظ پڑھنے کو ملیں گے۔ ہمیں اردو لکھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ بچوں کو انگریزی ضرور پڑھائیں اور سکھائیں، کہ یہ بھی وقت کی ضرورت ہے، مگر آدھا تیتر آدھا بٹیر نہ بنائیں۔ بات چیت میں شستہ اور خالص زبان استعمال کریں۔
اردو ہماری قومی زبان ہے، اس کو بگڑنے سے بچانا ہمارا فرض ہے تاکہ ہم فخر سے یہ کہہ سکیں کہ:
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

حصہ