ذہین نابینا

135

قسط نمبر …4

بڑھیا کا بیٹا پردیسی تاجر کو اپنے ساتھ ذہین نابینا کے پاس لے گیا اور اس کا تعارف کرایا اور اس کی طرف سے مسئلے کے حل کے لیے درخواست کی۔ ذہین نابینا نے تاجر سے کہا کہ اپنی بیتی شروع سے آخر تک بلا کم و کاست بیان کرو۔ پردیسی تاجر نے تمام قصہ کہہ سنایا اور کہا: اب میں عاجز آگیا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ ان عیّاروں کا کیا کروں۔ بڑی مشکل میں ہوں کہ ان کی عیّاریوں کا کیا جواب دوں۔
ذہین نابینا نے کہا:
کوئی مشکل نہیں ایسی کہ جو آساں نہ ہو جائے
مگر لازم ہے انساں پر، سراسیمہ۱ نہ ہو پائے
میں تمھیں ان کے شر سے رہائی دلاؤں گا۔ ان کے تمام کرتوت سوائے دھوکہ بازی کے کچھ نہیں اور ان کی تمام باتوں اور دعووں کا جواب موجود ہے۔ پھر اس نے ایک ایک کرکے مشکلات کو حل کیا اور پردیسی تاجر کو ان کے جواب ذہن نشین کرا دیے اور کہا: کل جب تم حاکم کے سامنے حاضر ہوں یہی جواب دینا اور یقین رکھو کہ وہ تمھیں محکوم نہیں کرسکیں گے۔
پردیسی تاجر خوش خوش ہنستا مسکراتا گھر لوٹا اور بڑھیا سے کہنے لگا: اب مجھے معلوم ہے کل مجھے عیّاروں کو کیا جواب دینا ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ خدا درد دیتا ہے تو اس کی دوا بھی دیتا ہے اور ہر مشکل کا ایک حل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے لائحہ عمل کے لیے مشورہ کرے اور اسے یاد رکھے۔
تاجر اگلے دن ٹھیک مقررہ وقت پر حاکم کے سامنے پیش ہوگیا اور کہا: میں حاضر ہوں تاکہ اپنے قول سے وفا کروں۔
حاکم نے مُنشیوں کو حکم دیا کہ وہ مقدمے کی کارروائی لکھتے جائیں۔اس نے گھڑسواروں سے کہا: تمھارا دعویٰ کیا ہے؟ انھوں نے کل کی بازی کی تفصیل بتائی اور کہا: ہم تین لوگ شریک ہیں اور جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کی رُو سے ہم نے تین تجاویز دی ہیں اور اگر پردیسی شخص ان میں سے کسی پر عمل نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہزار دینار ادا کرے۔
حاکم نے پردیسی تاجر سے پوچھا: تمھارا جواب کیا ہے؟
پردیسی تاجر نے، جس نے ذہین نابینا سے رہنمائی لے کر جوابات اچھی طرح ذہن نشین کرلیے تھے، کہا: میرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ دغاباز نہیں اور ان کی باتیں عقل و منطق کے مطابق ہیں تو میں ہر تجویز پر عمل کروں گا اور اگر ان کی باتیں بے تکی اور لغو ہوئیں تو؟
حاکم بولا: تو میں یہاں کس لیے ہوں؟ یہاں جو بھی غیرمنطقی بات کرے گا، اس کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ پھر حاکم نے ان تینوں میں سے ایک سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟
اس نے کہا: وہی جو میں نے کل کہا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اِس پتھر سے میرے لیے لباس تیار کرے۔
پردیسی تاجر بولا: ٹھیک ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی معجزہ کروں گا۔ میں ایک معمولی آدمی ہوں اور ہر کام کو، اس طرح جیسے پوری دنیا میں چلن ہے، انجام دیتا ہوں۔ میں حاضر ہوں کہ اس پتھر سے اس شخص کے لیے لباس سیوں لیکن دنیا کی رسم یہ ہے کہ لباس کپڑے سے سیتے ہیں۔ کپڑا بھی یا روئی سے یا پشم سے یا ریشم سے یا کئی اور چیزوں سے بنتا ہے۔ لیکن دنیا میں کوئی شخص بھی روئی، پشم یا ریشم سے خود لباس نہیں سیتا۔ اس کے لیے چاہیے کہ پہلے روئی، پشم یا ریشم یا کسی اور چیز کا باریک دھاگا بنایا جائے، پھر اس سے کپڑا تیار کیا جائے اور پھر اس سے لباس سیا جائے۔ یہ شخص بھی مجھ سے لباس کے سینے کا مطالبہ کرتا ہے اور میں بھی درزی ہوں لیکن دھاگا بنانے والا اور کپڑا بُننے والا نہیں۔ آپ جو انصاف کی مسند پر بیٹھے ہیں حکم دیں کہ یہ شخص اس پتھر سے پتھریلا دھاگا تیار کرے اور پتھریلا کپڑا تیار کرے تاکہ میں اس کپڑے سے اس کے لیے لباس سیُوں۔
حاکم بولا: درست ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ یہی کام کرے یا پھر اپنے الفاظ واپس لے۔
پہلا شخص بولا: نہیں۔ میں پتھر سے باریک دھاگا نہیں بناسکتا۔ میں نے اپنے الفاظ واپس لیے۔ البتہ میرے ان دو ساتھیوں کے پاس دو اور تجویزیں ہیں۔ حاکم نے دوسرے سے پوچھا: تم کیا چاہتے ہو؟
دوسرا شخص بولا: معاہدے کے مطابق میں چاہتا ہوں کہ ہم سمندر کے کنارے پر جائیں اور یہ شخص ایک ہی سانس میں بغیر وقفے کے سمندر کا پانی پی جائے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ہزار دینار دینے کا پابند ہے۔
پردیسی تاجر نے حاکم کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ یہ تجویز بھی فریب پر مبنی ہے لیکن چونکہ میں نے قول دے رکھا ہے، میں اس پر عمل کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ لیکن طے یہ ہوا تھا کہ میں سمندر کے پانی کو بغیر وقفے کے ایک ہی سانس میں پی جاؤں مگر یہ بات طے نہیں تھی کہ میں ان تمام دریاؤں کا پانی بھی پیوں گا جو اس سمندر میں گرتے ہیں۔ ہمارا معاہدہ صرف سمندر کے پانی تک ہے۔ اب آپ حکم دیں کہ یہ شخص دریاؤں کے آگے بند باندھے تاکہ ان کا پانی سمندر میں نہ گرے۔ تب میں بھی سمندر کا پانی ایک سانس میں کچھ اس طرح پی جاؤں گا کہ آپ کو خالی سمندر دکھا دوں گا۔
حاکم نے کہا: بالکل درست اور عاقلانہ بات ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ دریاؤں کے پانی کو قطع کرے تاکہ تم سمندر کا پانی پی سکو۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اپنے دعوے کو نظرانداز کرے اور اس کی تجویز منسوخ۱ ہے۔
دوسرا شخص بولا: میں نے اپنے لفظ واپس لیے۔ اس پر اس کا تیسرا ساتھی بولا: میں چاہتا ہوں کہ میں اس شخص کے پاؤں سے کوئی سوا چھے اونس گوشت کاٹ لوں۔ اگر وہ اس پر آمادہ نہیں تو اسے چاہیے کہ ہزار دینار ادا کرے۔
تاجر حاکم کی طرف متوجّہ ہوا اور کہا: بہت خوب، اگرچہ یہ بات بڑی ظالمانہ ہے لیکن چونکہ میں قول دے چکا ہوں کہ تین تجویزوں میں سے کسی ایک پر عمل کروں گا، میں اس تجویز کو بھی قبول کرتا ہوں اور چونکہ میرے پاؤں کے گوشت کا کاٹا جانا میری زندگی سے سروکاررکھتا ہے سو یہ شخص سب کی موجودگی میں عہد کرے کہ اپنی تجویز کے عین مطابق عمل کرے گا یعنی اسے چاہیے کہ میرے پاؤں سے ٹھیک سوا چھے اونس گوشت کاٹے، نہ کم نہ زیادہ اور میرے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے کیونکہ خون کا بہنا یا بہانا اس شرط میں شامل نہیں۔
حاکم نے کہا: ٹھیک ہے اور بڑا نپا تُلا جواب ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ سوا چھے اونس گوشت کاٹ لے لیکن اگر اُس نے اِس سے ایک مِثقال بھی کم یا زیادہ کاٹا اور اگر تمھارے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پربہایا تو میں لوگوں کے اس مجمع کی موجودگی میں حکم دوں گا کہ اس کا سر قَلَم کردیں تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی کو ڈرائے دھمکائے نہیں اور ہمیں دنیا میں بدنام نہ کرے۔
تیسرے نے کہا: نہیں جنابِ حاکم! مجھے کُچھ نہیں چاہیے۔ میں اپنے حق سے بالکل دستبردار ہوا اور مجھے ہزار دینار بھی نہیں چاہییں۔
حاکم نے کہا: بہت اچھا ہے تم نے اپنے الفاظ واپس لے لیے لیکن قانون اپنے تقاضے پورے کرتا ہے۔ یہ مقدمہ تم تین افراد نے کیا لہٰذا ہر ایک، ایک ایک ہزار دینار جرمانہ ادا کرے تاکہ آج کے بعد تمھارے ہوش ٹھِکانے آجائیں اور تم لوگوں سے لغو باتیں نہ کرو۔

حصہ