وحدت ادیان کا گیم پلان اور سوشل میڈیا

438

17نومبر کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں سیاہ قرار دیا گیا، جب کئی سیاست دانوں کی چار سالہ پیش گوئی برائے عمران خان حکومت قریب قریب درست ثابت ہوئی۔ سوشل میڈیا پر یوتھیوں اور مخالفین نے خوب شور مچایا۔ پاکستان کی ہوئی جیت، پارلیمنٹ، اوورسیز ووٹنگ رائٹ، دھاندلی کی تیاری، ہم لائے گئے، نظام بدلو، کے ٹرینڈ چلے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایسے قوانین منظور کیے گئے جس میں پاکستان نے اپنے کھلے گرفتار دشمن بھارتی جاسوس کو آئین‘ قانون اور عالمی قانون میں رائج سزا دینے کے بجائے خصوصی قانون سازی کر کے اسپیشل رعایت دینے کا دروازہ کھولا گیا۔ کشمیر تو پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔ اسی طرح زنا کے مجرم کے لیے غیر اسلامی، غیر فطری سزا کی منظوری، سمیت کئی قوانین منظور کر لیے گئے۔ اس ضمن میں سب سے وائرل وڈیو تحریک انصاف کے ایک انتہائی ناراض رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت کی رہی جس میں انہوں نے صاف کہا کہ ’’ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں۔‘‘ عامر لیاقت نے بول تو دیا، وائرل بھی ہوگئے مگر اس جملے کے اثرات بہت دور رس ہوںگے۔
14نومبر کو ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ کی ٹرافی آسٹریلیا نے اپنے نام کرلی۔ یہ کامیابی پاکستان کی شکست سے ہوتی ہوئی گئی جس کے اثرات پاکستان پر بھی تھے۔ پاکستانی شائقین فائنل کے دن بھی اپنی ٹیم کو شاباشی دیتے اور حوصلہ بڑھاتے نظر آئے۔ اس ضمن میں موضوع تو اپنی جگہ زیر بحث رہا مگر کامیابی کے بعد آسٹریلیوی ٹیم کا اپنے ڈریسنگ روم میں اظہار خوشی کا انداز کافی زیر بحث رہا۔ فتح کے جشن میں آسٹریلوی کھلاڑیوں نے اپنے جوتوں میں کوئی ’’مشروب‘‘ انڈیل کر پیا جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر راتوں رات وائرل ہو گئی۔ اس کا موازنہ ہم مسلمان کھلاڑیوں کے انداز شکر و خوشی سے کرتے رہے۔ اس ضمن میں کمال دیکھیں کہ ہمارے ہی ملک کی تقریباً تمام بڑی بڑی ویب سائٹ نے اپنی غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے اس عمل کی وضاحت (روایت لکھ کر) یوں دیتی نظر آئیں کہ ’’کینگروزکے دیس میں خوش قسمتی کی علامت سمجھی جانے والی اس روایت کے تحت کھیلوں کے مقابلوں یا اہم تقریبات میں جوتے میں شراب ڈال کرپی جاتی ہے۔‘‘ ظلم دیکھیں کہ ساتھ ہی اس روایت کا سال 2016 بھی لکھ دیا۔ مطلب صرف5 سال قبل کیے گئے اس عمل کو سپورٹ کرنے کے لیے غلامانہ ذہنیت نے عوام کے لیے قابل قبول بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ صرف جیو نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ ’’آسٹریلیا میں جوتے میں شراب ڈال کر پینے کو خوش قسمتی کا باعث بھی تصور کیا جاتا ہے اور اکثر اہم تقاریب یا مقابلوں سے قبل ایسا کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 20 ویں صدی کے اوائل میں کسی خاتون کے جوتے میں شیمپئن ڈال کر پینے کو تنزلی کی علامت سجھا جاتا تھا۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو جنگ عظیم اوّل کے دوران جرمن فوجیوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ وہ چمڑے کے جوتے میں بیئر ڈال کر پیئیں اور ایک دوسرے سے شیئر کریں تاکہ جنگ سے قبل قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہو۔ جوتے میں شراب پینے سے قسمت کے مہربان ہونے کا تصور قرونِ وسطیٰ میں بھی کہیں نہ کہیں پایا جاتا تھا۔‘‘
18 نومبر کو بالآخر حکومت نے تحریک لبیک سے کیے گئے معاہدے کی شقوں پر عمل کرتے ہوئے ’’قانونی تقاضوں کی تکمیل‘‘ کے بعد تحریک لبیک کے امیر سعد حسین رضوی کو رہا کر دیا۔ تحریک لبیک نے اپنے بانی امیر علامہ خادم حسین رضوی کا یوم وفات 19تا 21 نومبر تین روزہ عرس کی صورت منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا بھی سخت پریشر تھا کہ پہلی برسی کے موقع پر بیٹے (موجودہ امیر) کی عدم رہائی مزید اشتعال دلانے کا سبب بنتی جب کہ ’’کالعدم‘‘ کا لیبل پچھلے ہفتے ہی ہٹا دیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس ہفتے بھی پورے عرس کے دوران اور اس سے قبل رہائی کے موقع پر سوشل میڈیا پر وڈیوز اور پوسٹوں کی بھرمار رہی۔ اس میں سب سے اہم ٹوئیٹ جو مجھے پسند آیا وہ ایک تصویر کے ساتھ تھا ، جس میں کئی کیمرے ترتیب سے موجودہ ہیں اور اوپر کیپشن درج تھا کہ ’’ہم نے کہا تھا نا کہ ایک وقت ایسا لائیں گے کہ ہمارا وقت لینا پڑے گا‘ وقت لے کر۔‘‘ یہ بات ان معنوں میں بہت وزن دارتھی کہ سب جانتے ہیں کہ تحریک لبیک کا اپنے قیام سے ہی مجموعی طور پر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر مکمل بائیکاٹ کا سا ماحول رہا ہے (ماسوائے منفی خبروں کے) اور انہوں نے کبھی اس کی پروا بھی نہیں کی چاہے جتنے بڑے اجتماعات ہی کیوں نہ ہوں، مگرتحریک لبیک کا اپنا سوشل میڈیا اتنا مضبوط ہے کہ آج جتنا بڑا حلقۂ اثر ہے وہ سب سوشل میڈیا کے ذریعے قائم ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج تحریک لبیک کے آفیشل یو ٹیوب چینل پر پابندی عائد ہے۔
31 اکتوبر کو امریکا اور یورپ میں ’’ہیلوئین‘‘ کا تہوار منایا گیا۔ واضح رہے کہ یہ غیر مسلموں کا ایک مذہبی تہوار ہے۔ ٹوئٹر پر عالمی سطح پر اس کا ٹرینڈ سمجھ آتا ہے مگر تشویش ناک امر یہ تھی کہ یہ یکم نومبر تک پاکستان میں بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔ جب کہ سیکولر بھارت میں یہ ٹرینڈ اتنی دیر نہیں چلا ، وہاں اگلے دن یعنی یکم نومبر کو شاہ رخ خان کی سالگرہ نے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے، مگر پاکستان میں  2نومبر کی دوپہر تک Halloween کا ٹرینڈ لسٹ میں ٹھہرے رہنا مجھے بہت چبھتا رہا۔ یہ ٹرینڈ 31 اکتوبر کی شام 4 بجے پاکستان کی ٹرینڈ لسٹ میں دوسرے نمبر پر تھا۔ جی پاکستان میں۔ اب یہ کام لوگوں نے دانستہ کیا یا پھر نادانستگی میں بطور طنز پاکستان کے حالات کو اس سے جوڑا مگر یہ معاملہ یوں ہی آگے بڑھ جانے کا نہیں ہے۔
اب میں یاد دلاتا ہوں گزشتہ ہفتے سے جڑے ایک اہم موضوع کی جس میں موسیقی اور شیطانی عمل کے تعلق سے جڑے ایک واقعہ کا ذکر کیا گیا تھا اور بات یہاں ختم کی تھی کہ واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس ہفتے دوبارہ ایک اور غلیظ واقعہ امریکا کے ایک موسیقی کنسرٹ سے سامنے آیا۔ امریکا میں تو خاصا شور مچایا گیا کہ یہ انتہائی کریہہ اور غلاظت بھرا خالص شیطانی عمل تھا۔ جو کہ یورسٹا نامی گلوکارہ نے شو کے دوران کیا۔ اگلے روز خاتون گلوکارہ نے شدید رد عمل پررسمی معذرت کرلی۔ جس طرح میں نے پہلے بتایا کہ شیطانی عملیات کی نشانی میں غلاظت، ناپاکی، کراہیت بھرے تمام کام شامل ہیں جو انسان جان بوجھ کر انجام دیتا ہے ، چنانچہ اِس واقعہ کو بھی اِسی دائرے میں شامل کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں میری معروف فزیشن دماغ و اعصاب ڈاکٹرمحمد واسع سے مختصر سی بات ہوئی تو انہوں نے صاف کہا کہ بطور مسلمان تو ہم جانتے ہیںکہ موسیقی تو ہے ہی شیطانی عمل ، موسیقی کے سائنسی ریسرچ کے مطابق اتنے اثرات ہوتے ہیں کہ انسان کے ہارمونز ڈسٹرب ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ بلڈ پریشر شوٹ اور ہارٹ فیل تک ہو جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق سے موسیقی کے اثرات کی یہ سند خود بتاتی ہے کہ ہمارے ایمانی سسٹم و قرآنی رہنمائی کے مطابق کیسے یہ سب ’’شیطان کی آواز‘‘بن جاتے ہیں۔ شیطان نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے بعد انسان کو ذلیل کرنے کا مشن لیا تھا۔ اس لیے اس کی تمام تر منصوبہ بندی انسان کو ذلیل و غلیظ کرنے کی جانب ہوتی ہے۔ اس کو آپ آسٹریلوی جشن سے لے کر گلوکارہ یورسٹا کے عمل تک کڑی سے کڑی ملا لیں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ’’اشرف المخلوقات‘‘ انسان کیسے خود کو پستی اور ضلالت میں دھکیل کر شیطانی ایجنڈے پر چل رہا ہے۔
دوسری جانب بدقسمتی سے مسلمانوں کی حالت فی الحال دنیا بھر میں ہر قسم کے غلبہ سے باہر ہے۔ تہذیبی طور پر، علمی، میڈیا، ٹیکنالوجی سمیت ہر جانب دیکھ لیں مسلمانوں کا کردار کہیں نظر نہیں آئے گا۔ تمام مسلم ممالک کا جب سے انہوں نے دنیا کے نقشے پر نام جمایا ہے، باوجود اس کے کہ مسلمان دنیا بھر میں واحد اجتماعیت ہیں جو آپس میں گہرے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں، جو کسی اور مذہب، دین، کلچر کے پاس نہیں۔ اصولاً تو ہمیں ہی دنیا کی سب سے باا ثر تہذیب ہونا چاہیے تھا، عددی اعتبار سے، اپنے شاندار پس منظر اور جامع دینی اقدار کی وجہ سے مگر ایسا نہیں ہے۔ تکنیکی ایجادات نہ سہی‘ میں صرف میڈیا کی بات کروں گا جو میرا موضوع ہے۔ بظاہر تو ہم جتنا چاہیں اپنا مواد ڈال رہے ہوں مگر جو ہمارے مقابل مواد ڈالا جا رہا ہے وہ بہت طاقتور لہر ہے۔ جتنا شیطان اور اس کے چیلوں نے اپنے تہذیبی غلبہ کے لیے مواد پیدا کیا ہے، ہم اس کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جو طاقت میں ہے، وہی اپنے غلبہ کو قائم رکھنے کے لیے زیادہ کوششیں کرے گا، یا جہاں ہماراغلبہ ہوگا ہم بھی اپنا کنٹینٹ دکھائیں گے۔
حالیہ ترکی میں ارتغرل ، پایۂ تخت، عظیم سلجوق ، سمیت کئی سیریز اس کی ہی ایک مثال ہیں کہ جہاں ہم آزاد ہیں اور غلبہ کی نفسیات سے آگاہ ہیں تو ہم بھی یہ کام کریں گے۔
ہم اپنے بچوں کو اپنی دانست و دائرے میں اسلامی اسکول، مدرسہ، حفظ قرآن ، ناظرہ قرآن و دیگر اداروں میں بھیج کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ کر دیا۔ مگر یقین مانیں کہ جب وہی بچہ بازار میں کسی دکان پر جا کر پینسل باکس یا بیگ، یا پانی کی بوتل ’’اسپائیڈر مین‘‘، بیٹ مین، آئرن مین، فروزن، باربی‘‘ کے ٹائٹل اسٹیکر والے پسند کرتا ہے تو جان لیں کہ آپ کی تمام کوششوں پر شیطان پانی پھیر چکا ہے۔یہ مت کہیے گا کہ ’’مارکیٹ میں اس کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں‘ اس لیے خریدتے ہیں۔‘‘ہمارے بھی بچے ہیں اور یہ تمام اشیا ہم بھی خریدتے ہیں اور پورے شعور کے ساتھ ہر قسم کی تصویر سے پاک اشیا خریدتے ہیں۔ کئی ریسرچ پیپر سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ دانستہ طور پر نادیدہ قوتوں کے اشارے پر میڈیا انڈسٹری بالی ووڈ ہو یا ہالی ووڈ یا دیگر ممالک کی میڈیا انڈسٹری سب نے شیطان کی عمل داری کے لیے ’’وحدت ادیان‘‘ کے ایجنڈے کا پرچم تھام لیاہے۔ یہ ’’وحدت ادیان‘‘ سننے میں بہت اچھا لگتا ہے مگراس قسم کے مواد سے اربوں انسانوںکے ذہن میں مستقل ’’میٹھی ٹافی‘‘ کے ریپر میں خطرناک زہر گھولا جاتا ہے کہ ’’انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے‘ مذہب کوئی اہم نہیں، انسان اور انسانوں کے لیے کچھ کرنا ہی اصل مذہب ہے۔‘‘ یہ جملہ آپ نے پاکستان میں بھی بے شمار جگہ لکھا اور سنا ہوگا کہ ’’انسانیت ہی میرا مذہب ہے‘‘۔ جان لیںکہ یہ شیطان کا طاقتور اور خوشنما حربہ ہے، انسانوں کو ہر مذہب سے کاٹ کر انسانیت کے لیبل میں داخل کرنا، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنا انسانوں کے لیے اسلام رحمت، برکت، امن ، خیر، فلاح کا ضامن ہے اور کوئی نہیں ہے۔ تو سوال ہوگا کہ اس میں حرج ہی کیا ہے؟ وحدت ادیان کی لالی پاپ سے ایسے جملے نکلتے ہیں کہ ’’اگر غیر مسلم آپ کے ساتھ عید مناتا ہے تو آپ بھی ہولی منائیں، کرسمس منائیں، کیا حرج ہے کہ کسی انسان کوصرف مذہب کی بنیاد پر خوشی میں شریک نہ کیا جائے۔ ‘‘
جان لیں کہ مسلمانوں کاایک واضح ایقان و ایمان ہے کہ حق تو بہرحال ہم ہی ہیں، مگر باقی لوگ اپنے کسی بھی دین ، مذہب میں ویسا یقین نہیں رکھتے جو آپ کا ہے۔ اس لیے باوجود اس کے کہ غیر مسلموں کے لیے تاریخ میں مسلمانوں کا دور ہی سب سے زیادہ رواداری اور امن کی علامت رہا۔ اس حد تک کہ مسلمانوں کو شہر کے دروازے کھول کر بلایا جاتا کہ’’ آئو ہمیں فتح کر لو‘ ہم تمہارے ماتحت رہنے کو بہ خوشی تیار ہیں۔‘‘ تو یہ ممکن نہیں کہ مسلمان کسی بھی اور مذہب کی کسی تقریب میں شریک ہوں، مبارک باد دیں۔ غیر مسلموں کو البتہ اپنی عبادات و تہوار منانے کا پورا حق ہے اس لیے جان لیں کہ انسانیت والے فلسفے میں اسلام ہندو مت جیسا ہی ہے، عیسائیت جیسا ہی ایک مذہب ہے، سب کو ایک قرار دے کر انسانیت کی خدمت وفلاح کا لالی پاپ دے کر باریک کام کرایا جا تا ہے۔ موضوع طویل ہے اس لیے اس پر بات مزید جاری رکھیں گے۔

حصہ