!!دو روز فرشتوں کے سائے تلے

230

اے سی کی ٹھنڈی ہوائوں نے ہمارا استقبال کیا اور طبیعت جو باہر گرمی کی وجہ سے تھوڑی سست ہوگئی تھی‘ یک دم بہتر ہوگئی۔ سامنے کھڑی لڑکیوں نے خوش اسلوبی سے ہمیں خوش آمدید کہا اور نشستوں کی راہ دکھائی۔ میں نے بھی ایک کرسی پکڑلی اور اس پر بیٹھ گئی۔ اردگرد موجود گلاب کی پتیوں کی خوشبو ماحول کو اور خوشگواریت بخش رہی تھی جس سے طبیعت اور خوش ہوگئی تھی۔
میں اطراف کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ پروگرام کا آغاز ہوگیا، ایک چھوٹی سی لڑکی جو شاید عمر میں 15 سال کی ہو، میزبانی کے فرائض انجام دے رہی تھی وہ لڑکی مجھے حیران کررہی تھی۔ اردو کا تلفظ، الفاظ کا چناو سب ہی بہت عمدہ تھا، خصوصاً آج کے دور کے بچوں کی اچھی اردو ہونا ایک ناممکن سی چیز لگتی ہے۔
ہماری معصوم سی میزبان نے بڑے اچھے انداز میں خوش آمدید کہا اور پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا، سورہ الحشر کا آخری رکوع جو تعارف الٰہی دے رہا تھا، دل میں ایک نرمی پیدا کردی تھی۔
تلاوت کے بعد درس کا سیشن تھا جس میں ایک آنٹی نے تعلق باللہ کے حوالے سے خوب صورت پیغام دیا۔ انسان کی زندگی کی حقیقت بھی تو یہی ہے ناں، اللہ جس نے ہمیں بنایا اور جتنا اس سے تعلق اچھا ہوگا، زندگی اتنی ہی سہل لگے گی اور کامیابی بھی اسی تعلق کی ضامن ہے۔
یہ سیشن ختم ہوا تو ’’سیرت حضرت اسماؓ پر ایک میری ہی ہم عمر لڑکی نے کہانی سنائی۔ جس کا مقصد یہی تھا کہ ہم مسلمان لڑکیوں کے لیے ضروری ہے کہ سیرت صحابیہؓ پڑھیں اور ان کے نقش قدم پر چلیں، یہ بھی اس میں سکھایا گیا تھا کہ وہ بھی عام ہی ہوا کرتے تھے اور ان کے عمل نے انہیں خاص بنا کر صحابیہؓ کا درجہ دے دیا تھا۔ کہانیاں انسانی فطرت کو بہت پسند ہوتی ہیں شاید اسی لیے اس کہانی سیشن نے دل میں گھر کرلیا تھا۔ دل میں اب ارادے بندھنا شروع ہوگئے تھے، خدا کی جانب بڑھنے کا عزم ہو رہا تھا کہ ایک پیاری سی لڑکی نے اسٹیج سنبھالا اور پوچھا کہ اگر آپ اپنے گھر کے سامنے کھڑے ہوں اور گھر کا دروازہ لاک ہو تو آپ کو کیا چیز درکار ہوگی؟
شرکا کا جواب آیا چابی تاکہ دروازہ کھول کر اندر جاسکیں۔ لڑکی نے پھر پوچھا کہ اگر چابی نہ ملے تو کیا اندر داخل ہوسکتے ہیں، سب نے نہ میں گردن ہلائی اور یہاں سے لڑکی موضوع پر آئی اور کہا کہ نماز جنت کی کنجی ہے، اس لیے ہمیں اپنی نماز کی پابندی کے ساتھ حفاظت کرنی ہے کہیں یہ نہ ہو کہ ہم جنت کے سامنے کھڑے ہوں اور چابی ہمارے پاس نہ ہو یا کوئی ٹوٹی ہوئی چابی ہو جو دروازہ نہ کھول سکے۔
اس آغاز نے دل کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا اور محویت کے ساتھ میں اس کو سنتی رہی اور پھر وقفہ ہوگیا۔ نماز، مزیدار کھانا اور رجسٹریشن کے بعد پھر ورکشاپ کا آغاز ہوا، اللولو المکنون، جس نے بتایا کہ میں ایک انمول موتی ہوں، نہایت خوب صورت ہوں اور مجھے اس خوب صورتی کا خیال رکھنا ہے، حیادار بننا ہے کیوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔‘‘ یونہی پروگرام، ایکٹویٹی سیشن ہوتے رہے اور بالآخر دعا سے پہلے دن کا اختتام ہوا اور ہم گھر کی جانب رواں دواں ہوئے اور راستے بھر یہی سوچتے رہے کہ یہ کون لڑکیاں ہیں؟ شاید کسی مدرسے کی ہوں کیوں کہ مذہبی تعلیم تو صرف انہیں اداروں میں ملتی ہے۔
سوچوں کی انہیں بھیڑ میں اگلا دن بھی آگیا۔ آج کا آغاز بھی تلاوت قرآن سے ہوا اور پھر درس ہوا قرآن کے حوالے سے اور اس میں یہ بتایا کہ اس کتاب کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے اسی لیے اسے پڑھو، تدبر کرو…یہ قرآن مدرسے میں پڑھنے والی طالبات کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے اترا ہے اور یہ انسانوں کو ہی مخاطب کرتا ہے۔ اس بات نے دل میں جگہ بنا لی اور میں نے کہا واقعی قرآن تو میرے لیے نازل ہوا ہے اور اگر میں ہی اسے نہ پڑھوں تو مجھ سا ظالم اور کون ہوگا۔
اس کے بعد فقہ سیشن ہوا جس میں طہارت اور نماز کے کچھ بنیادی مسائل اور ان کا حل بیان کیا گیا۔ پھر والدین کے ساتھ حُسن سلوک پر معلوماتی ورکشاپ ہوئی جس میں بتایا گیا کہ اللہ نے کیوں والدین کے ساتھ احسان کا رویہ رکھنے کو کہا ہے، یہ بھی بتایا کہ خدا اپنے بعد قرآن میں والدین کے حقوق کا ذکر کرتا ہے… پھر توجہ دلائی آج کل کے نوجوان کا ان کے والدین کے ساتھ برتائو، جس نے شرم میں ڈالا تو مگر عمل پر بھی ابھارا۔
وقت ہاتھوں سے پھسل رہا تھا، کھانے اور نماز کا وقفہ بھی ہوگیا۔ دل اداس بھی تھا اور خوش بھی کہ اللہ نے اس بہترین جگہ لانے کی توفیق دی۔اب جو ورکشاپ تھی اس نے دل دہلا دیا تھا اور سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ کیا ہم واقعی اپنی اسلامی تہذیب پر فخر کرتے ہیں؟ کیوں کہ مغربی تہذیب تو خدا سے انکاری ہے اور مال کو ہی خدا سمجھتی ہے، ان کی کامیابی‘ ناکامی غرض زندگی کی ہر چیز کا معیار یہی مال ہے اور ہماری زندگی میں بھی یہی سوچ ہے‘ ہم اللہ کا نام لینے والوں کو کم نظر جانتے ہیں اور زیادہ مال والے کو کامیاب۔ کیا یہ پیمانے ٹھیک ہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب پر فخر نہیں کرتے اور اسے کم مانتے ہیں اور ساتھ مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں۔
پروگرام اختتام کی جانب بڑھ چکا تھا کہ اب ایک اور معصوم سی لڑکی نے اسٹیج سنبھالا اور کل سے جو سوال ذہن میں منڈلا رہا تھا کہ یہ لڑکیاں کون ہیں؟ اس نے اس کا جواب دے دیا۔ اسلامی جمعیت طالبات پاکستان بھر میں موجود طالبات کی واحد نمائندہ تنظیم جس کا مقصد اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات جو ایک مسلمان کی زندگی کا اہم اثاثہ اور انسانی زندگی کا واحد مکمل علم ہے‘ اُن تعلیمات کے ذریعے انسانی زندگی کی تعمیر کرنا کیوں کہ یہی سچ ہے اگر انسان کو کامیاب ہونا ہے نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی تو قرآن اور حدیث پر عمل کرکے ہی وہ کامیاب ہوسکتا ہے، آگے بڑھ سکتا ہے، اپنی شخصیت کو نکھار سکتا ہے اور انسانی زندگی کی تعمیر کرکے اللہ کو راضی کرنا، رضائے الٰہی یعنی انسانی زندگی کا مقصد۔
ابھی جمعیت کا تعارف چل ہی رہا تھا کہ میں نے بھی ارادہ کیا کہ اس تنظیم میں شمولیت اختیار کروں گی کیوں کہ اجتماعیت میں برکت ہے اور سب مل کر اللہ کی جانب بڑھیں گے تو راستہ آسان ہوجائے گا۔ اپنے رب کی طرف بڑھائے جانے والا یہ میرا پہلا قدم ہے اور دعا ہے کہ اس پہلے قدم میں اللہ اتنی برکت دے کہ یہ جنت میں ہی جاکر رکیں۔

حصہ