امریکی گماشتے

224

’’عمل انگیز‘‘( CATALYST) سائنس کا ہر طالب علم اس لفط سے واقف ہے۔ کیمیا کی پڑھائی اور تجربہ گاہ میں اس مرکب کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک کیمیائی مرکب ہے جو کیمیائی عمل کو یا تو تیز کرتا ہے یا پھر سست کر دیتا ہے۔ جب درجہ نہم میں بچوں کو تجربہ گاہ میں آکسیجن بنانے کا تجربہ کراتے ہیں تو میگنیز ڈائی آکسائڈ کو عمل انگیز کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس طرح دیگر کیمیائی عمل میں دیگر مرکبات یا عناصر کو عمل انگیز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
مگر میرا موضوع تحریر وہ افراد ہیں جو ریاستی اداروں، کاروباری مراکز، پارلیمنٹ میں خود کو خفیہ رکھ کر کسی غیر ملک یا اپنے ملک کے لیے خاموشی سے کام کرتے ہیں۔زمانہ قدیم سے ایسے افراد کو حکومتیں، تحریکیں، حکمراں جماعت یا حزب اختلاف داخل کرتی ہیں تاکہ وہ اہم معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کر سکیں اور انقلاب میں ممد و معاون ثابت ہوں۔ اس طرح کے عناصر اپنے آپ کو بالکل ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ ریاست کے تمام شعبوں میں موجود ہوتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں بادشاہ اپنے دشمن ملک کے درباروں تک ایسے افراد کو داخل کیا کرتے تھے۔
صلاح الدین ایوبیؒ کے زمانے میں عیسائی اور یہودیوں نے مسجدوں میں امام بنا کر بھیجا جو جہاد کے خلاف تقریریں کرتے تھے‘ جس کو صلاح الدین ایوبی نے ختم کیا۔
یہ بات مشہور ہے کہ راسپوٹین لینن کا جاسوس تھا جس نے اپنی سحر انگیز شخصیت کے ذریعہ روس کے بادشاہ زار اور زارینہ کو گرویدہ بنا کر روس میں تباہی مچادی اور کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کی۔ مشہور خاتون جرمن جاسوس ماتا ہاری کا تاریخی کردار کون نہیں جانتا۔ یہ بھی تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے کہ روم کے بادشاہ جولیس سیزر کو اس کے بچپن کے دوست بروٹس سے قتل کروایا گیا جس پر سیزر کے یہ تاریخی الفاظ زبان زد عام ہے Brutus You
ایران کے عوامی انقلاب‘ جو اسلامی کہلاتی ہے‘ اس کو کامیاب بنانے والے توڈا پارٹی کے وہ اراکین تھے جو حکومتی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز تھے اور در پردہ شہنشاۂ ایران کی حکومت کے خلاف کام کرتے تھے۔ انہیں امید تھی کہ شہنشاہیت کے بعد حکومت ان کے ہاتھ میں آ جائے گی مگر خمینی کے زیرک اور دور اندیشی نے یہ بھانپ لیا تھا اور پہلی فرصت میں توڈہ پارٹی کا خاتمہ کرکے ان کے دفاتر کو مسمار کردیا۔
افغانستان میں روس کے انخلا کے بعد مجاہدین کی جہاں آپسی چپقلش تھی وہیں ریاستی اداروں میں کمیونسٹوں کی موجودگی کی وجہ سے افراتفری پھیل گئی اور طالبان وجود میں آئے۔ آج بھی امریکا کے جانے کے بعد طالبان کو ریاستی اہلکاروں کی ضرورت ہے اور وہ انہیں بلانے پر مجبور ہیں۔
بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی دو سے زائد سیٹ نہیں جیتتی تھی مگر اس نے نہایت خاموشی سے بیوروکریسی کے اندر اور ریاست کے اہم اداروں میںRSS کے تربیت یافتہ کارندوںکو داخل کیا اور کئی دہائیوں سے قائم کانگریس کی حکمرانی کو ختم کیا۔ ایک طرف بابری مسجد کو شہید کرنے کے لیے رتھ یاترا شروع کیا تو دوسری جانب پارٹی کےCatalyst نے اپنا کام دکھایا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ تمام اداروں میں پارٹی لیڈر موجود ہیں اور میڈیا کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھوں میں ہے۔
ترکی کے حالیہ بغاوت کو برپا کرنے میں فتح اللہ گولن کے تمام catalysts نے بھرپور حصہ لیا وہ تو عوامی حمایت تھی کہ بغاوت ناکام ہوگئی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب مسلم دنیا ایک ایک کرکے آزاد ہوئی اور برطانیہ اور یورپ نے اپنے تربیت یافتہ ایجنٹوں کو ہی حکمرانی سونپ کر گئے اور 72 سال گزرنے کے باوجود مسلم دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کے گماشتے حکمرانی کے منصب پر فائز ہیں۔ امریکا تو لاطینی امریکا سے لے کر افریقہ تک اپنے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے اپنے من پسند لوگوں کو انقلاب اور بغاوت کے ذریعہ حکمران بنواتا ہے۔ مسلم دنیا میں یہ کام جرنیلوں کے ذریعہ لیتا ہے۔ عرب بہار کے بعد مصر نے تیونس میں آئی تبدیلی کو جرنل سیسی اور دیگر لوگوں کے ذریعے ناکام کیا۔
روس کے بکھرنے کے باوجود وسط ایشیا میں آج بھی روسی ایجنٹ برسر اقتدار ہیں۔ غریب ممالک کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
مملکتِ خداداد پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک امریکی گماشتوں کے قبضے میں ہونے کے باعث اپنی منزل سے دور ہے۔ قائد اعظم نے درست فرمایا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔‘‘ ورنہ ملک کا گورنر جنرل بانی ٔ پاکستان راستے میں بغیر علاج کے کیسے دم توڑ دیتا۔ اسکندر مرزا غدار ملت میر جعفر کا پڑ پوتا ملک کا گورنر جنرل کیسے بن جاتا؟ جب بھی عوام میں بیداری آتی ہے کوئی امریکی کاسہ لیس ملک کے اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے کہاکہ
آ تجھ کو بتائوں رمز آیۂ اِن الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا مظلوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری
پاکستان واحد ملک ہے جہاں وزیراعظم بھیIMF سے امپورٹ ہوتا ہے اس چرخ کہن نے معین قریشی اور شوکت عزیز کو اپنی بے بس آنکھوں سے اس ملک پر حکمرانی کرتے دیکھا ہے۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ ریاست کے تمام اداروں میںIMF کے ہدایت پر لوگوں کی تقرری ہوتی ہے۔ موجودہ تبدیلی سرکار میں تو وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر تک امپورٹیڈ ہیں اور اکثر وزیر ومشیر بھی اسی قبیلے کے لوگ ہیں اور کیوں نہ ہوں جبکہ پورا ملک قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے۔پھر نیچے والے ہاتھ کوآزادی نہیں ملتی بجٹ مہنگائی، تعلیم صحت‘ خارجہ پالیسی سب کچھ لے پالک ایجنٹوں کے ہاتھوں میں ہے۔
کسی بھی ریاست کے اہم ستون عدلیہ، انتظامیہ، فوج، پولیس اور اب ذرائع ابلاغ کے ادارے ہیں اور پارلیمانی نمائندے ہیں جو حکمرانی کرتے ہیں۔ آج امریکا اور,G10 کے ممالک اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے ایجنٹوں کو غریب اور تیسری دنیا کے ممالک پر مسلط کرتے ہیں۔ لہٰذا ملک میں بھی سیاسی پارٹیاں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے تربیت یافتہ کارکنوں کو ان اداروں میں بھرتی کراتی ہیں۔ اس میں پاکستان خود کفیل ہے۔
اگر کوئی تحریک حب الوطنی کے ساتھ ملک میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے تربیت یافتہ باصلاحیت پختہ نظریاتی کارکنان کو پبلک سروس کمیشن کے امتحانات پاس کرائے اور تمام اداروں میں با اختیار مناصب حاصل کرنے کے کوشش کرے اس طرح کی منصوبہ بندی دہائیوں پر مشتمل ہوتی ہے یہ کام نعرے بازی‘ جلسے جلوسوں کے ذریعے کرپٹ نظام سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں۔ جو لوگ مسلط ہیں وہ سفاک بھی ہیں۔ قانون کا ڈنڈا اور تعزیر کا قلم ان کے ہاتھ میں ہے۔
بجھے چراغ لوٹی عصمتیں چمن اجڑا
یہ غم جس نے دیے ہیں کب خوشی سے جائے گا
میں نے اس ضمن میں کئی پارٹیوں اور تحریکوں کی مثالیں دی ہیں جو ماضی میں اور بیسویں صدی میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئی ہیں‘ مثبت سوچ ‘ حب الوطنی ‘آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نہ صرف تبدیلی لائی جا سکتی ہے بلکہ انقلاب بھی برپا کیا جا سکتا ہے۔

حصہ