نرگسیت خبط عظمت میں گھرے ذہنی بیمار لوگ

416

انسان کی متوازن شخصیت احساس برتری کے رویے سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے جب خود پسندی کے اس مقام پر پہنچتی ہے جہاں اس کو سماجی حقارت کی پہلی ٹھوکر لگتی ہے۔ اس منزل پر اگر وہ توازن نہ رکھ پائے تو خود ستائی کے اس پُر خطر راستے میں منہ کے بل گرا دیا جاتا ہے۔ ایسے کردار وں میں یکایک اپنی ذات کے منفرد ہونے کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ ’’خبطِ عظمت‘‘ کی بدترین تمنا اسے ہوائوں میں اڑائے اڑائے پھرتی ہے۔ یہاں زمین پر اس کے پائوں نہیں ٹکتے۔ اکڑ اکڑ کے جینے لگتا ہے۔ اُبھر اُبھر کر سب سے بات کرتا ہے‘ مبالغہ اوڑھ لیتا ہے‘ خود کو محترم گردانتا ہے بلکہ کسی دیوی، دیوتا کی طرح اپنے ماحول سے پرستش کی تمنا کرتا ہے۔ بقول شخصے ’’نشۂ ذات الٰہی توبہ… دن میں سو بار بہک جاتا ہوں۔‘‘
یونانی صنمیات کے روایتوں کے انبار میں نرگسیت کا ایک فسانہ یوں بھی ہے کہ ایک بانکا اور خوب رو شہزادہ Narcissus تھا‘ جو اپنے قد کاٹھ ، روپ رنگ پر اتنا اتراتا تھا کہ وہ ساری زندگی کسی دوشیزہ سے متاثر نہ ہو سکا۔ ایک دن وہ شکار کرتا ہوا تالاب کے کنارے پانی پینے کے لیے جھکا ہی تھا کہ اپنے عکس کی دل کشی پر اپنا ہی دل ہار گیا۔ خود کو سراہنے لگا۔ وہ اس خیال میں ایسے کھویا کہ وقت کی طوالت کو بھول کر وہ پانی میں اپنے عکسِ جمیل سے لطف اٹھاتا رہے۔ اسے بارہا بتایا گیا کہ کھانا، پینا اور جینا تم سب کچھ چھوڑ رہے ہو۔ تب اس نے پانی میں لہراتے ہوئے اپنے ترشے ہوئے بدن کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’خبردار! پانی کو حرکت نہ دو کہ کہیں میرا عکس ٹوٹ کر ریزہ ریزہ نہ ہوجائے۔‘‘
اس کا اِترانا اُس وحشت کو جا پہنچا کہ وہ آخر بھوک پیاس سے مرگیا۔ عجیب شخص تھاجو اپنے عکس کے غیر حقیقی سائے کو بچانے کی دھن میں اپنا حقیقی وجود قربان کر بیٹھا۔ اس ماجرے کی خبر جب دیوتائوں تک پہنچی تو اس کی موت کے مقام پر ’’نرگس‘‘ کے پھول اُگا دیے۔ پھر یہ قصہ چلتے چلتے جب ہمارے ادب تک پہنچا تو نرگس کا پھول، آنکھوں کے حسن اور انتظار کا اشارہ بن کر شعری سفر میں رہا۔
جدید نفسیات کے علمی سرمایہ نے اس خود پسند ی اور اس کی تباہ کاریوں پر اتنا کچھ لکھا اور موضوع کو تشنہ ہی رکھا اصل مرض اور محرک کی تلاش میں ابھی بھی دنیا ناکام ہے۔ قرآن نے انسانوں کو بہت سادہ طریقے سے سمجھایا ہے کہ ’’ساری تعریفیں ربِ کائنات کے لیے ہیں۔ جو کُل اختیار ات کا مالک ہے۔‘‘ ہر خیر اس کے کلمۂ کن فکاں کے سرگوشی سے شروع اور وسعت پاتا ہے۔ تعریف جو صرف رب کا منصب ہے۔ اگر بند ہ رب کے دستار پر ہاتھ ڈالے تو سوائے بربادیوں کے کچھ ہاتھ نہ لگے گا۔ بقول اقبال ؒ
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آذری
یہ مسئلہ چاہے اپنی ذات کی تباہ کن ستائش کی وجہ سے ہو، خبط ِ عظمت کے سبب ہوا یا خواہش نفس کی بے قابو آرزو کا آفریدہ ہو، خود نمائی کی چاہت اس سے یہ تماشا کرواتی ہو کہ رہی سہی عزت بھی لٹ جاتی ہے۔ ایسے میں نخوت، تکبر اور برتری کی کوئی بات ہو توہمیں ایک نگاہ قرآن حکیم کے بصیر ت افروز نکتہ پر ڈالنی چاہیے۔
’’اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی۔‘‘ اسی لیے خواہشِ نفس کی خدائی سے بچنے کی دعائیں ہمیں رحمت دوعالمؐ نے سکھائی ہیں کہ ’’اے اللہ! ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں۔‘‘(سورہ ص :88)
ایسے نرگسی مزاج کو انگریزی میں Narcissist یا Narc کہتے ہیں۔ ’’نارک‘‘ کا مزاج گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر اپنی برتری جتلاتا ہے۔ کبھی انکسار کے چولا اوڑھے، کبھی اپنی کارچوبی یا گُل کھلانے والے چونچلوں کو کارنامہ جتلا کر، کبھی خودنمائی کی تونس میں جسمانی کسرت کا شوق پال کر اپنے بدن کو اتنا تیار کرلیتا ہے کہ وہ چلتا پھرتا اشتہار لگنا چاہتا ہے۔ اس کا یہ دماغی خلل دراصل کسی کمتری کے سبب برتری جتلانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کی تلون مزاجی کی زد میں پورا سماج آجاتا ہے۔ یہ کسی اور کی نصیحت سن نہیں سکتا کیوں کہ خود کو برتر گردانتا ہے۔ کبھی یہ اپنے خاندان، حسب نسب کی خونی لکیر کو ہالۂ نور تک لے جاتا ہے‘ جہاں اُس کے سب مردہ لوگ نیک، بے خطا اور بے عیب ہوتے ہیں‘ ایسی باتیں کرکے وہ بے اعتماد لوگوں کی بھیڑ اپنے اطراف اکٹھی کرتا ہے۔ کمزور دل، کمزور یقین اور سادہ لوگ اس کے تراشے ہوئے وہموں پر جیتے ہیں۔ یہ کردار چاہے فقیروں کے روپ میں ہو یا اعلیٰ عہدہ داروں کے سوانگ میں‘ اپنے ہیجان کو اوروں کا ایمان بنا کر ہی دم لیتا ہے۔
اگر اس کو ہم قبول نہ کریں تو اس کا نرگسی طیش اپنے مخالف کو برباد کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ایسے غیر سماجی عناصر ہمیں جگہ جگہ ملتے ہیں۔ تجارت کی منڈیوں میں، خاندان کی صفوں میں اور مذہبی اداروں میں بھی پائے جاتے ہیں بلکہ ان کی اکثر سرگرمیاں بنام خیر ہی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی دولت مند طبقہ سماج کے فعال لوگوں کو پیسے دے کر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ لوگوں کا تعاقب کرے اور انھیں بدنام کرے۔ ان کی شہرت اور وقار سے کھلواڑ کرے۔ یہ سرگرمیاں خود پسندی کی پھیلے ہوئے مہمات ہیں۔ ان کے جینے کا ڈھنگ یہ ہے کہ یہ اپنی شرطوں پر آپ سے محبت کرتے ہیں۔ جب کہ محبت تو غیر مشروط ہوتی ہے۔ محبت خطر پسند عشق کا معیار رکھتی ہے۔ لیکن ہر اخیتار اپنے پاس رکھنے پر یہ اصرار کرتے ہیں۔ روٹھنے کا حق، غصہ کرنے کا حق‘ الزام لگا نے کا حق اور اپنی رائے کو حتمی جتلانے کاحق‘ سب کچھ یہ اپنے لیے محفوظ کرلیتے ہیں۔
نرگسیت کا رویہ جب فر د سے نکل کر اداروں، نظریوں، قوموں، مسلکوں اور تہذیبوں میں اترتا ہے تو معاشرہ ان کو سخت ترین سزا دیتا ہے۔ معروضی ذہن رکھنے والا ان کو کراہیت سے دیکھتا ہے۔ یہ خود حق شناس اور حق پسند جتلاتے رہتے ہیں۔ کہیں یہ خود سے اپنے جنتی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ کہیں یہ ’’خدا کے منتخب، مکرم گروہ‘‘ ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ اور اگر انہیں کُل اختیار ملے تو یہ انا ربکم الاعلیٰ کہہ جاتے ہیں۔ اس فکری خناس کو نہ جمہوریت کا طرز انتخاب بچاتا ہے نہ ملوکیت کا محفوظ تقدس۔ یہ گروہ ظلم کرنے والوں کا ایک ٹولہ اپنے اطراف بنا لیتا ہے جہاں اُن کی فکر سے الگ سوچنے والوں کی کھال کھینچی جاتی ہے، جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ تعزیب خانوں کی تمام داستانیں انہی کے سبب ہیں۔
یہ رویہ سب سے پہلے اوروں کی اچھائیوں سے اور اپنی کوتاہیوں سے انسانوں کو غافل کردیتا ہے۔ دفاع ذات کی آڑ میں اوروں کو برباد کردیتا ہے بلکہ ایسے لوگ حسبِ ضرورت دینی حوالوں کو اپنے حق میں استعمال کرلیتے ہیں۔ اگر وہ سیاست سے لوگوں کی گھات میں رہیں تو کہیں کہ ’’جدا ہو دیں سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ اس لیے مخاطب کو ہمیشہ یہ الجھن رہتی ہے کہ شر پسندی کے باوجود جواز در جواز ان کے پاس موجود رہتا ہے۔ یہ ہمیشہ خود مرکزیت پر ذہن سازی کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کی آرتھی اتاریں۔ درد مندی سے محروم یہ ٹولہ تعلق توڑتا رہتا ہے‘ رشتوں کے ریشے ریشے بکھیرتا رہتا ہے۔ اپنے ادھورے پن کو چھپانے کی دُھن میں اپنے مکمل ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی اختیار کی جنگ سے بلکہ نہیں اعتبار کی امنگ پر پھلتی پھولتی ہے‘ باہمی اعتماد پر پروان چڑھتی ہے۔
نرگسی ذہن جب اپنے رویے پر جم کر ڈھٹائی پر اتر آتا ہے تب ہی بے ضمیری، جنس پرستی اور خود غرضی کی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کے ظاہر و باطن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص قیمتی کار میں، خوش رنگ لباس میں، خوش بو لگائے، بہترین انداز میں گفتگو کرتا ہوا سماج میں پایا جائے اور اس کی گاڑی میں اقدار کی بدبودار لاشیں ہوں‘ اخلاقی میعارات کا برباد تعفن ہو۔ اس کے قریب جو جائے گا، اس کی گاڑی میں جو سوار ہوگا اس کو سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ ایسے میں ایک سادہ انسان یہ سوچتا ہے بقول اقبالؒ:
خدا وندہ یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
ان شرپسند کرداروں سے بچنے کا آسان طریقہ یہ کہ اُن سے فاصلے کے ساتھ رہیں۔ ان کی مصنوعی شخصیت کو جلد سے جلد پہچان کراقدامات کریں۔ اپنی ذات کو پُر اعتماد بنائیں۔ یقین کی دولت اگر آپ کے ذہن و دل میں رہے گی تو ایسے لوگ آپ کونقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہ آپ کی تعریف کریں تو بہہ نہ جائیں‘ یہ آپ سے جذباتی قربت چاہیں تو آپ اپنی حصارِ ذات میں رہیں‘ یہ فخر کریں تو آپ چپ رہیں‘ یہ انکساری کا حربہ آزِمائیں تو قبول نہ کریں۔ سرسری سا رابطہ اُن سے رکھ کر اپنی شخصیت کی تعمیر، رب سے تعلق اور سماج کے بہتر ذہنوں سے جڑ کر چلیں تو یہ اپنی نرگسی بصیرت سے،ترستی آنکھوں سے آپ کو دیکھتے رہیں گے اور آپ بڑی آسانی سے ان سے ٹکرائے بغیر گزرجائیں گے۔ ہمارے لیے قرآن کی یہ بشارت ہی کافی ہے:
’’اور وہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیااور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا ، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی۔‘‘ (سورۃ النازعات)

حصہ