کلنا مریم

250

کلنا مریم (ہم سب مریم ہیں)
یہ تحریک القدس کے لیے بنائی گئی مسلم خواتین کی بین الاقوامی این جی او ہے۔ we are all maryam جو 2019ء میں قائم ہوئی۔ مطوع ہند جن کا تعلق قطر سے ہے، اس کی صدر ہیں۔
16 تا 17 اکتوبر 2021ء اس این جی او کے تحت القدس سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں دنیا کے 25 ملکوں سے تقریباً 500 وفود نے شرکت کی۔
پاکستان کی نمائندگی جماعت اسلامی کے امور خارجہ کی نگران ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کی۔پاکستان سے چار رکنی وفد نے شرکت کی۔ مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی… جبکہ ناروے، یوکے، سویڈن، ڈنمارک اور ترکی میں مقیم پاکستانی خواتین نے بھی اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔
القدس کے ساتھ مسلم امہ کی محبت کا یہ عالم ہے کہ ہوٹل ”پل مین“ کے تمام کمرے بک ہوچکے تو باقی مہمانوں کو ملحق ہوٹل میں ٹھیرایا گیا۔ہوٹل کے استقبالیہ سے لے کر اس کی راہداریوں، لفٹ اور کھانے کے اوقات میں جب کلنا مریم کا بیج سینے پر لگائے سیکڑوں مرد اور خواتین نظر آتے تو دل کہتا کہ… کون کہتا ہے امت کا تصور ناپید ہوچکا ہے..!
کانفرنس نے نہ صرف القدس کے مشن کے ساتھ وابستگی کا ثبوت دیا بلکہ دنیا کو دکھایا کہ امت کا تصور زندہ ہے۔امت کی بیٹیاں بھی القدس کے مشن کے لیے سر پر کفن باندھ کر میدان میں آسکتی ہیں۔زبان، جغرافیہ اور ثقافت کا فرق ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتا۔شرکاء کا جوش و خروش اور کانفرنس کی کارروائی کے دوران دماغ کے بجائے دل سوچتا تھا کہ کاش امت کو جذبہ جہاد سے سرشار مخلص حکمران ملے ہوتے۔خواتین دنیا کے گوشے گوشے- کویت، سوڈان، پاکستان، اردن، قطر، سعودی عرب، ناروے، جرمنی، انڈونیشیا، لبنان، قبرص، عراق، یوکے، ملائشیا وغیرہ سے مسلم حکمرانوں کو یہ بتانے کے لیے اکٹھی ہوئی تھیں کہ قبلہ اوّل اب بھی پنجۂ یہود میں ہے۔ ابھی پیر پھیلا کر سونے کا وقت نہیں آیا اور یہ کہ انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن القدس میں ہونے والے مظالم سے کیوں بے خبر ہیں؟
یہ فلسطین کا نہیں امت مسلمہ کا قبلہ اوّل ہے۔القدس پکار رہا ہے امہ کو۔۔۔ اسی پکار پر امت کی یہ بیٹیاں شرق و غرب سے یہاں اکٹھی ہوئی تھیں۔
کانفرنس ترکی کی خاتونِ اوّل آمینہ اردوان کی زیر صدارت منعقد ہوئی۔ ان کی صاحب زادی نے بھی شرکت کی۔قبل از پروگرام انھوں نے اسٹالز کا دورہ کیا جہاں مسجد اقصیٰ کے ماڈل خصوصی توجہ کا مرکز تھے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کی ثقافت… چھبیاں، اجرک سے بنے پرس اور بٹوے، دستکاری سے سجے ہاتھ کے پنکھے بہت پسند کیے گئے۔ امینہ اردوان نے پاکستانی اسٹال کی بیشتر اشیاء خرید کر پاکستانی ہنرمند خواتین کی حوصلہ افزائی کی۔
سمیحہ راحیل قاضی نے انھیں کلنا مریم کے مونوگرام کا نفیس لاکٹ پیش کیا۔پُرسوز تلاوتِ قرآن کے ساتھ پروگرام کا آغاز ہوا۔ شرکاء کو خوش آمدید کہا گیا اور مندوبین نے اپنی تقاریر میں کانفرنس کی اہمیت واضح کی۔دنیا بھر سے آئی ہوئی مسلمان خواتین کی زبان اور لب و لہجہ الگ ہونے کے باوجود ان کے دل کی دھڑکن ایک تھی۔ وہ دل جو مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے تڑپتا ہے۔۔
جو غزہ کی پٹی کے اُس پار بہنے والے خون اور قربانیوں سے آشنا ہے۔ تقریر چاہے ترکی زبان میں تھی یا عربی، انگلش اور کسی بھی زبان میں۔۔ مگر چہرے جذبات کے ترجمان تھے۔ لہجے غمگین بھی تھے اور پُرعزم بھی۔
صبح کے سیشن کا اہم خطاب خاتونِ اوّل امینہ اردوان کا خطاب تھا۔
وہ تین مرتبہ خطاب روک کر آنسو صاف کرنے پر مجبور ہوئیں۔
وہ غزہ کی عورتوں اور بچوں پر ٹوٹنے والے دکھ بتارہی تھیں اور پوچھ رہی تھیں کہ ”خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی این جی اوز کہاں ہیں؟ بچوں کے لیے عالمی قانون سازی کرنے والے اداروں کو القدس کے بچوں پر مظالم نظر کیوں نہیں آتے؟“
جب بات ہوتی ہے نظام کی۔۔۔ تو کہا جاتا ہے کہ انفرادی قبلہ درست ہو تو نظام کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ حکومتِ ترکی کی سرپرستی میں اس کانفرنس کا ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ نظامِ حکومت صالح افراد کے ہاتھوں میں ہو تو وہ امت کا درد بھی محسوس کرتے ہیں، امت کے دکھ بھی بانٹتے ہیں اور اپنا کندھا بھی فراہم کرتے ہیں۔روٹی، دال اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے غم ہوں یا امہ کے اجتماعی غم۔۔۔ صالح اور دوراندیش حکمران ہی چپّو سنبھالیں تو نیّا پار لگے گی۔
فلسطینی مقررہ نے سوال کیا کہ” حضرت مریم علیہا السلام ہمت اور عزم کا استعارہ ہیں، مگر حضرت مریم کے پیچھے حضرت زکریا تھے، ہم سوال کرتے ہیں کہ امت کے زکریا کہاں ہیں؟
حضرت مریم علیہا السلام اپنی عظیم ماں کی دعا کا نتیجہ تھیں جنہوں نے دورانِ حمل دعا کی تھی کہ اللہ مجھے جو بیٹا دے گا اس کو میں تیرے دین کی خدمت کے لیے وقف کروں گی۔ آج کی مائیں اپنی اولاد کے لیے کیا آرزو رکھتی ہیں؟
کتنے لوگ اپنے بچوںکو دین کے لیے وقف کرنے کا سوچتے ہیں؟ ہم صلاح الدین ایوبی کو کب تک تلاش کرتے رہیں گے؟ وہ تو ہماری نسلوں میں پیدا ہونے چاہئیں۔“
ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے خطاب کرتے ہوئے القدس کے مشن کے ساتھ پاکستانی قوم کی جذباتی وابستگی کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم امہ کا اتحاد ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ انھوں نے ترکی حکومت اور خاتونِ اوّل کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی کوششوں سے یہ عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔
القدس کا وفد جو مسجد اقصیٰ کی خواتین گارڈز ”مرابطات“ پر مشتمل تھا سب کی توجہ کا خصوصی مرکز تھا۔ان کی نمائندگی کرتے ہوئے خدیجہ خویص نے کہا کہ ”جوش و جذبہ اپنی جگہ، مگر ضرورت ہے عملی اقدامات کی۔کیا اس وقت امت اتنی متحد ہے کہ اسرائیل کو اُس کے آئندہ کے ناپاک عزائم سے باز رکھ سکے؟ اسرائیل کی جارحیت بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ ہم ہر طرح کی قربانی القدس کے لیے دے رہے ہیں۔ ہمیں پتا نہیں ہوتا کہ کل کا سورج دیکھ سکیں گے یا نہیں۔ دشمن کے ناپاک عزائم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر جہاد میں جان ومال دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں آپ خود نہیں پہنچ سکتے وہاں اپنے مال کو بھیج کر مجاہدین کی مدد کریں۔“
اس مجاہدہ کی تقریر کے دوران ایسی خاموشی تھی کہ لگ رہا تھا ہوائیں بھی تاریخ رقم کررہی ہیں۔خواتین نمائندوں نے فنڈز پیش کیے۔ پاکستانی خواتین کی طرف سے زیورات بھی پیش کیے گئے۔
مسجد اقصیٰ پر پچھلے برس ہونے والے مظالم کی تصویریں دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔درمیان میں فلسطینی نوجوانوں کے جذبہ جہاد سے معمور ترانے لہو گرماتے رہے۔کلنا مریم کے ممبر ممالک کی رپورٹس پیش کی گئیں جس سے اندازہ ہوا کہ امت کی خواتین نہ صرف جاگ رہی ہیں بلکہ اپنا شعوری کردار انتہائی جذبہ ایمانی سے ادا کررہی ہیں۔جارڈن سے آئی ہوئی جمیلہ نجار جو کلنا مریم کی جنرل سیکرٹری ہیں، اس پروگرام کی روحِ رواں تھیں۔
دوسرے دن کا سیشن انھوں نے کنڈکٹ کرایا۔
دوسرے دن مندوبین کی تقاریر کے ساتھ ثقافتی شو بھی پیش کیا گیا جس میں فلسطینی خاتون کے ترانوں پر بہت داد دی گئی۔ ترکی کی لڑکیوں نے بھی انتہائی درد بھرا ترانہ پیش کیا۔تمام شریک ممالک کے پرچم اٹھائے جب ننھے بچوں نے اسٹیج پرفارمنس دی تو شرکاء نے کھڑے ہو کر خراج تحسین پیش کیا۔
کانفرنس کے عمدہ انتظامات نے شرکاء کا حوصلہ بڑھایا۔
تمام سیشن انتہائی توجہ سے سنے گئے۔ ایک سیشن میں شرکاء سے آرا بھی طلب کی گئیں کہ القدس کے مشن کے لیے مزید عملی اقدامات کیا ہوسکتے ہیں؟
دوسرے دن کی اہم سرگرمی میڈیا ورک شاپ تھی جو عربی،ترکی اور انگلش زبانوں میں علیحدہ علیحدہ ہوئی، جس میں میڈیا کی طاقت، اس کے فتنوں اور اس نشریاتی میدان میں اپنے کردار کو پہچاننے پر زور دیا گیا۔
دو روزہ کانفرنس کے دوران مختلف ملکوں سے آئی ہوئی خواتین نے ایک دوسرے سے تعارف لیا اور ایک گرم جوش تعلق قائم کیا۔
مجھے دورانِ کانفرنس نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ الفاظ یاد آتے رہے کہ غزوۂ احد میں میرے دائیں بھی عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں، بائیں بھی، آگے بھی اور پیچھے بھی۔روز محشر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شاید یہ گواہی پیش کریں کہ جب القدس صہیونیوں کے مظالم کی آگ میں جل رہا تھا تو میری امت کی یہ بیٹیاں دائیں بھی تھیں، بائیں بھی۔
اللہ کی مشیت کے بنا پتّا نہیں ہل سکتا۔ اس کے ”کن“ سے بڑے بڑے قیصر و کسریٰ تخت و تاراج ہوجاتے ہیں۔امتحان ہے ہمارے ایمان کا۔اللہ کریم اس آزمائش کو مختصر کردے۔ مسجد اقصیٰ کو آزادی نصیب ہو، اور ہم بھی وہاں نمازوں کی سعادت حاصل کریں۔شرکائے کانفرنس اس عزم و یقین اور دعا کے ساتھ اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہوئیں۔

حصہ