اقبال کے ہاں ماضی حال اور مستقبل الگ الگ نہیں (قسط نمبر 2)

437

سوال: جدید اور قدیم کی بحث کے پس منظر میں اقبال پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ ماضی پرست تھے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: اگر کسی قوم کا ماضی مثالی اور بہت شان دار ہے تو وہ اپنے ماضی پر کیوں نہ فخر کرے! اسے اپنے ماضی کو یاد رکھنا چاہیے، اس لیے کہ ماضی کو دیکھ کر ہی اپنے حال کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور حال کی روشنی میں ہم مستقبل کو تلاش کرسکتے ہیں۔ ’’رموز بے خودی‘‘ میں ہے:
سرزند از ماضیِ تو، حالِ تو
خیزد از حالِ تو استقبالِ تو
اقبال کے ہاں تو ماضی، حال اور مستقبل الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، تینوں میں تسلسل ہے، اور ماضی سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ اس میں مسلمانوں ہی کا ماضی نہیں، دوسری اقوام کا ماضی بھی شامل ہے۔ اگر کسی نے برائی کے خلاف، خرابی یا ظلم کے خلاف جدوجہد کی ہے تو اقبال اس کی تعریف کرتے ہیں۔ مثلاً 1917ء کے اشتراکی انقلاب نے دنیا کو چونکا دیا، اقبال نے اس کا ذکر اپنی نظم ’’خضرِ راہ‘‘ میں اور ’’پیام مشرق‘‘ کی بعض نظموں میں کیا۔ لیکن جب دیکھا کہ اشتراکیت سے جس چیز کی امید تھی، یعنی انصاف اور مظلوموں کی دادرسی، وہ پوری نہیں ہوئی تو اقبال نے کہہ دیا: ’’طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘۔
سوال:خطبۂ الٰہ آباد اور اس طرح کی دوسری چیزیں اقبال سے متعلق ہیں، ان کے حوالے سے سیکولر دانش ور جن میں ڈاکٹر مبارک علی بھی شامل ہیں، یہ ان کی لاعلمی ہے یا پھر بددیانتی؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: یہ بددیانتی ہے اور بدنیتی بھی۔ خطبۂ الٰہ آباد پڑھا تو یقیناً ہوگا، ایسا ہے کہ کوئی چیز صحیح شکل میں آپ کے سامنے ہے، آپ کے لیے اسے تسلیم (confess) کرنا مشکل ہے، تو پھر آپ اسے اس طرح تبدیل (convert) کریں کہ اصل چیز اوجھل ہوجائے۔ تو ان حضرات کی بدنیتی ہے کہ یہ ہر سیدھی اور صاف بات کی غلط تعبیر کرتے ہیں۔
سوال:خطبہ الٰہ آباد میں مسلم بنگال کا ذکر نہیں ہے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: اقبال نے تو ایک خیال فلوٹ کیا تھا، اس میں ساری تفصیلات اور ساری چیزیں تو نہیں آسکتی تھیں۔ غالباً اقبال کا خیال ہوگا کہ مسلمان پہلے شمال مغربی علاقے میں مجتمع ہوجائیں، اس کے بعد دیکھا جائے کہ دوسرے علاقوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ بعد میں قائدِاعظم کے نام 28 مئی 1937ء کے خط میں انھوں نے Statesکا لفظ استعمال کیا۔
سوال:بحیثیت انسان اقبال میں کیا خوبیاں تھیں اور کیا کمزوریاں تھیں؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: اقبال انسان تھے اور جو بشری کمزوریاں انسان میں ہوتی ہیں، وہ اُن میں بھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو بصیرت اور شاعری، تفکر اور تدبر کی صلاحیت دی تھی، وہ ایک الگ چیز ہے، باقی بطور انسان تو وہ ہمارے جیسے ہی تھے، ان میں بہت ساری خوبیاں بھی تھیں اور خامیاں بھی۔ خامیوں میں یہ ہے کہ وہ بعض اوقات غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے تھے یا خوش فہمی کہہ لیں، مثلاً: روس میں جب لینن کے بعد اسٹالن اقتدار میں آیا اور یہ خبر ہندوستان پہنچی، معلوم نہیں انھیں کس نے بتایا۔ وہ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’چودھری محمد حسین کو معلوم ہوا ہے کہ روس میں محمد اسٹالن برسراقتدار آگیا ہے۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے‘‘۔ یہ علامہ کی سادہ مزاجی اور خوش خیالی ہے، مگر اس سے روسی مسلمانوں اور ملتِ اسلامیہ کے مستقبل سے اُن کی دلچسپی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کی ایک کمزوری یہ تھی کہ انھوں نے اپنی وراثت میں آفتاب اقبال اور ان کی والدہ کو حصہ دار نہیں بنایا، جو بعض لوگوں کے نزدیک ازرُوئے شرع ایک قابلِ گرفت بات ہے۔ اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال کو تو ایک اعتبار سے عاق کردیا تھا۔ اگرچہ اس کی کچھ اور وجوہ بھی تھیں۔
آفتاب اقبال (1898ء-1979ء)اور اُن کی والدہ زیادہ تر اپنے میکے میں مقیم رہیں۔ بچوں کی پرورش اور تربیت بھی وہیں ہوئی۔ آفتاب اقبال نے ایم اے فلسفہ کیا، پھر والد کی اجازت یا مشورے کے بغیر اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت گئے تو وہاں انھیں مالی مشکلات درپیش ہوئیں۔ اقبال انھیں رقم بھیجتے رہے پھر بھی آفتاب نے بعض لوگوں سے اپنے والد کے نام پر قرض لیے، مثلاً: اکبر حیدری سے 190؍پونڈلیے، بعد ازاں 1936ء میں پھر انھی سے کچھ اَور رقم مانگی۔ سر اکبر حیدری نے ایک خط کے ذریعے بڑے محتاط انداز میں علامہ کو آفتاب کی مالی اعانت کی طرف متوجہ کیا تو علامہ نے سراکبرحیدری کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کیا، جو خاصی تکلیف دہ تھی۔ علامہ نے لکھا کہ مَیں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس کی مدد کرتا رہا ہوں، لیکن اس نے میرے ساتھ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ اس نے ہمیں بے ہودہ قسم کے خطوط لکھے ہیں اور اب وہ ہمیں بلیک میل کررہا ہے۔ اقبال کے ایک خط بنام اکبر حیدری کا ایک اقتباس دیکھیے:
I have already helped him beyond my capacity.Inspite of the manner in which has been behaving towards me and other members of our family, no father can read with patience the nasty letters wich he has written to us.And which he is doing now,is only part of the blackmailing scheme of which he has been availing himself for the sametime.
اسی لیے انھوں نے آفتاب کو عاق کردیا، تحریراً نہیں، عملاً عاق کردیا۔ یعنی وراثت سے انھیں کچھ نہیں ملا، نہ اُن کی والدہ کو کچھ ملا۔ اعلان نہیں کیا لیکن عملاً انھیں اپنی وراثت میں سے کوئی چیز نہیں دی۔
سوال:اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ اپنی پہلی شادی سے خوش نہیں تھے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: جی، وہ پہلی شادی سے خوش نہیں تھے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دونوں کی طبیعت میں بڑا اختلاف تھا، ان کی پہلی بیوی کریم بی بی بہت امیر کبیر خاندان سے تھیں، ان کے والد ڈاکٹر اور سول سرجن تھے، بہت نیک آدمی تھے مگر ان کی بیٹی سمجھتی تھیں کہ میرا خاندان بہت اونچا ہے، اقبال کا خاندان بہت غریب ہے۔ گویا اس کے اندر ایک احساسِ برتری تھا۔ ایک دوسرے کے قریب نہ آسکنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ کریم بی بی کو، معراج بیگم کے بقول: ابا کے خلاف ’’بدزبانی‘‘ کی عادت تھی۔ اپنے خالو خواجہ فیروزالدین کے نام ایک خط میں معراج بیگم نے لکھا: مہربانی کرکے آپ جب خط لکھا کریں تو ابا جان کی کوئی بات، خواہ اچھی ہو یا بری، بالکل نہ لکھا کریں، کیونکہ والدہ صاحبہ کی زبان پھر قابو میں نہیں رہتی، جو کچھ آتا ہے، گیت بنائے رکھتی ہے اور ان کو ہر وقت بدزبانی سے یاد کرتی ہے۔ اس لیے اقبال نے لکھا کہ مَیں اس کی کفالت کرنے کو تیار ہوں، مگر اسے اپنے ساتھ رکھ کر زندگی کو اجیرن بنانے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ علامہ اقبال کے والد نور محمد نے بڑی کوشش کی، لیکن طبیعت نہیں ملتی تھی۔ آخرکار اقبال نے یہ کہا کہ یہ چاہیں تو میں طلاق دے دیتا ہوں، اگر یہ پسند نہ ہو تو یہ میرے ساتھ نہیں رہیں گی، میں ان کو خرچ بھیجتا رہوں گا۔ چنانچہ ان کے والد کی موجوگی میں معاملہ طے ہوگیا کہ یہ اقبال کے ساتھ نہیں رہیں گی۔ اقبال اپنی وفات تک ان کو خرچ بھیجتے رہے اور اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ سید نذیر نیازی جو ان کے اس طرح کے معاملات دیکھتے تھے، منشی تاج الدین جو روزانہ کا حساب لکھتے تھے کہ آج فلاں چیز میں اتنا خرچ ہوا، ان کی ڈائری میں یہ لکھا ہوا ہے کہ گجرات کو اتنی رقم منی آرڈر کی گئی۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ اقبال نے اس معاملے میں اپنی طرف سے انصاف کرنے کی کوشش کی۔
(جاری ہے)
سوال:اقبال کی دوسری شادی کے خلاف سازش کس نے کی تھی، آپ کی تحقیق کیا کہتی ہے؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: جب اقبال یورپ سے واپس آئے تو ان کی عمر 31 سال تھی، صحت بہت اچھی تھی، خوش شکل تھے۔ یورپ میں رہے، وہاں ان کی ملاقاتیں عطیہ فیضی سے ہوئیں، اور ایما ویگے ناسٹ سے ہوئیں جو ان کی جرمن استانی تھیں۔ یہاں واپس آئے تو اکیلے رہتے تھے کہ قدرتی طور پر انھیں ایک رفیقۂ حیات کی ضرورت تھی۔ اقبال اس زمانے میں ذہنی کرب میں رہے کہ کیا کریں۔ دوستوں نے رشتے کی تلاش شروع کی، کسی نے سردار بیگم کا رشتہ بتایا تو ان کے والدین لاہور آئے، گھرانا دیکھا، بات کی اور رشتہ طے کرلیا اور نکاح بھی ہوگیا، لیکن یہ طے ہوا کہ رخصتی بعد میں ہوگی۔ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے اقبال کو خط لکھا کہ یہ لڑکی کردار کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ اب اقبال بڑے پریشان ہوگئے۔ یہی زمانہ ان کی ذہنی کوفت کا تھا۔ اس میں کچھ وقت گزر گیا۔ دوستوں نے کہا کہ آپ کیوں پریشان ہیں، کوئی اور رشتہ کرا دیتے ہیں۔ چنانچہ لدھیانہ میں ایک رشتہ تلاش کیا گیا اور 1913ء کے ابتدائی دنوں میں لدھیانہ کی مختار بیگم سے عقدِ ثالث ہوا۔ مختار بیگم رخصت ہوکر گھر میں آگئیں۔ مختار بیگم سے نکاح ہوا تھا تو انہوں نے سردار بیگم کو طلاق نہیں دی تھی، فقط طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا۔ بہرحال سردار بیگم نے اقبال کو خط لکھا کہ میرا تو آپ سے نکاح ہوا ہے، میں قیامت کے دن آپ کا دامن پکڑوں گی کہ آپ نے بلاتحقیق معاملے کو لٹکا دیا۔ اس پر اقبال کو بڑی ندامت ہوئی، پھر انہوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کسی وکیل نے وہ خط لکھا تھا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی شادی سردار بیگم سے کرانا چاہتے تھے، چنانچہ اقبال نے احتیاطاً نکاح دوبارہ پڑھوایا اور سردار بیگم کو گھر لے آئے۔ اب مختار بیگم اور سردار بیگم دونوں ایک گھر میں بالکل بہنوں کی طرح رہنے لگیں۔ اقبال کی زندگی پرسکون ہوگئی۔ بعد میں مختار بیگم کا انتقال ہوگیا۔ سردار بیگم سے دو اولادیں ہوئیں۔
سوال:اقبال کی زندگی میں عطیہ فیضی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: عطیہ فیضی سے ان کی پہلی ملاقات ڈاکٹر سید علی بلگرامی کے ہاں لندن میں ہوئی۔ بلگرامی ایک بڑے اسکالر تھے اور چودہ زبانیں جانتے تھے۔ ہندوستانی طلبہ ان کے ہاں جمع ہوتے تھے، عطیہ فیضی بھی وہاں آتی تھیں، وہاں ان کی ملاقات اقبال سے ہوئی اور تعارف بھی ہوا۔ اُس زمانے میں یہ غیر معمولی بات تھی کہ کوئی مسلمان لڑکی اس طرح تنہا اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جائے۔ اس کی مثال شاید کوئی اور نہیں ملتی۔ اس لیے لوگوں کو اس سے دلچسپی بھی ہوتی تھی۔ کیمبرج میں بھی وہ گئیں، وہاں بھی ملاقاتیں رہیں۔ ہائیڈل برگ میں جب اقبال مقیم تھے، عطیہ فیضی اپنے دوستوں کو لے کر وہاں گئیں، وہ چند دن سیر و تفریح کرتے رہے، پھر واپس آگئے۔ اقبال جب واپس ہندوستان آئے تو خط کتابت رہی۔ اقبال کو ان کی شخصیت میں مجموعی طور پر کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عطیہ فیضی کی شخصیت کا جن لوگوں نے تجزیہ کیا ہے، اُن کے مطابق ان کے اندر ایک بہت بڑی اَنا تھی، وہ اپنے آپ کو برتر اور اعلیٰ سوسائٹی کے اعلیٰ خاندان کا ایک فرد سمجھتی تھیں۔ ممکن ہے ان کے دل میں اقبال سے شادی کی خواہش ہو، اور ممکن ہے اقبال کے دل میں بھی خواہش ہو کہ ہم شادی کرلیں۔ مگر اقبال بڑے حساس اور صاحبِ بصیرت آدمی تھے، وہ سمجھ گئے کہ اس خاتون کے ساتھ میں اگر شادی کروں گا تو خوش نہیں رہ سکوں گا۔ ان کے اندر ظاہرداری بہت تھی جسے پنجابی میں ’’شوشا‘‘ کہتے ہیں۔ وہ تقریبات کی رسیا اور نمائش پسند تھیں۔ انگلستان گئی تھیں حصولِ تعلیم کے لیے، مگر وہاں ان کا زیادہ تر وقت تقریبات اور سیر سپاٹے میں گزرتا تھا۔ انہیں موسیقی، تصاویر، باغات اور عمارتیں دیکھنے کا شوق تھا۔ اپنی خودنوشت ’’زمانۂ تحصیل‘‘ میں وہ بکثرت سیر سپاٹوں، امرا کے لباس و زیورات، موسیقی کی محفلوں، ایوننگ پارٹیوں، تماشا گاہوں اور عجائب گھروں کا ذکر کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ خود اپنے بقول ’’بے نیل مرام واپس آگئی‘‘۔ جتنے لوگوں نے اقبال اور عطیہ فیضی پر لکھا اور تجزیہ کیا ہے، انہوں نے ان باتوں کی طرف اشارے کیے ہیں، جن میں ایک ڈاکٹر سعید اختر درانی ہیں، ان کی کتاب ہے: ’’اقبال یورپ میں‘‘۔ اسی طرح ایک اور اچھا تجزیہ کیا ہے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی نے اپنی کتاب ’’عروجِ اقبال‘‘ میں۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ بالکل اس لائق نہیں تھیں کہ اقبال ان سے شادی کرتے۔ اچھا ہی ہوا کہ شادی نہیں ہوئی، ورنہ اقبال پریشان رہتے۔ ماہرالقادری کے ایک مضمون کا حصہ میں نے پڑھا تھا، وہ بتاتے ہیں کہ عطیہ جب یہاں کراچی میں تھیں، ابتدائی زمانے میں وہ اپنے گھر میں کبھی کبھی مشاعرہ کراتی تھیں یا تقریبات کراتی تھیں۔ ان میں، ماہر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔ پھر ماہر صاحب نے عطیہ کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ کچھ ایسی پسندیدہ نہیں ہے۔
(جاری ہے)

حصہ