نیکی ضائع نہیں ہوتی،شرافت رسوا نہیں ہوتی

490

ازل سے خیر و شر کا معرکہ جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اللّٰہ نے آدم کو مٹی کے خمیر سے پیدا کیا اور اس خمیر میں حیوان، درندوں، شیطان اور فرشتوں کے خمیر ملائے اور انسان کو صفات ملکوتی کے حصول کے لیے پیدا کیا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسان بے حیائی اور برہنگی دکھاتا ہے تو لوگ اُسے حیوان سے مماثل کرتے ہیں‘ کسی کی بربریت اور سفاکی پر درندہ‘ کسی کی مکاری اور عیاری پر شیطان کہہ کر پکارتے ہیں۔ مگر جب کوئی نیکی اور تقویٰ والا ہو تو اُسے ’’فرشتہ صفت‘‘ کہتے ہیں۔
اللہ متقیوں سے محبت کرتا ہے۔ سورہ فاتحہ میں ہماری دُعا ہی صراطِ مستقیم پر چلنے اور مغضوبین سے بچنے کی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیکی پر چلنے اور شرافت کی زندگی گزارنے کی تعلیم و تربیت دے کر گئے۔ دنیا میں اسلام تلوار سے نہیں بلکہ نیکی کرنے والے نیک لوگوں کے ذریعے پھیلا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن آپ کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر اسلام لائے۔ مکے کی دو بوڑھی خواتین‘ ایک جو روزانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کوڑا ڈالتی تھی‘ دوسری وہ جو مکہ چھوڑ کر بیابانے میں گٹھری لے کر جا رہی تھی دونوں آپ کے حُسنِ سلوک سے ایمان لائیں۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’حشر میں نیکیوں کے پلڑے میں سب سے وزنی مومن کا حسنِ اخلاق ہوگا۔‘‘
تمام انبیا اور رسول اپنی امت کو اسی کی تعلیم و تربیت دے کر گئے۔ حجۃ الوداع میں آپ ؐ نے جو خطبہ دیا اُسے ’’منشورِ انسانیت‘‘ قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’آج کے بعد کسی عربی کو عجمی پر‘ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کو رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ برگزیدہ وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال حبشیؓ کو خلیفۂ وقت حضرت عمر فاروق ؓ ’’سیدنا بلال‘‘ کہہ کر پکارتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات حضرت بلالؓ کی قدموں کی چاپ جنت میں سنی۔
نیکی کرنے والا اپنے ماں باپ اور اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی قابل احترام ہوتا ہے۔
پہلی وحی کے بعد جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے اور آپؐ پر گھبراہٹ طاری ہوئی تو حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو یہ کہہ کر ڈھارس بندھائی کہ ’’کچھ نہیں ہوگا کیوں کہ آپ لوگوں کی بہی خواہی کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ اللہ نے ایک نیکی کا کم سے کم دس گنا اجر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اللہ نے انسان کے دل میں فطری طور پر رحم کا مادہ ڈالا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی مظلوم کو دیکھتا ہے تو اُس کی مدد کو آگے بڑھتا ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘
دنیا کے تمام مذاہب میں لوگوں کی خدمت اور مدد کرنے کی تعلیم موجود ہے‘ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی زلزلہ، سیلاب، جنگ و جدل سے بربادی ہوتی ہے‘ درد مند اور اہل خیر دوڑ پڑتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ سورۃ الماعون میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔‘‘ آمنہ کے در یتیم محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے زیادہ کون یتیموں، بے کسوں کا سہارا ہو سکتا ہے۔
چٹائی تھا جن کا بستر اوڑھے جو کملی کالی
غریبوں کے ہم نواں سے میرا سلام کہنا
غریبوں اور بے سہاروں کی مدد کرنا، مریض کی عیادت کرنا‘ بے لباس کو کپڑے دینا، راستے سے نقصان دہ چیز ہٹانا‘ اندھے کو راستہ پار کرانا‘ کمزوروں کا بوجھ اٹھا دینا، بھوکے کو کھانا کھلانا حتیٰ کہ اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی نہ صرف نیکی ہے بلکہ صدقہ ہے جس کی تعلیم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور یہ سب کام ہر مذاہب کے لوگ کرتے ہیں۔ یہ شرف انسانیت ہے۔ ہمارے کاندھوں پر جو فرشتے ہیں اس کو لکھ لیتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کی نیکیوں کو محفوظ کرلیتا ہے اور اس کا اجر دنیا اور آخرت دونوں جگہ دیتا ہے۔مشہور جملہ ہے
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
شرافت تو شرف انسانیت ہے اور جب تک دنیا قائم ہے اور قرآن کے حامل زندہ ہیں‘ شرافت نہ رسوا ہوگی نہ بے قدر۔ دورِ جاہلیت میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو بچپن سے لے کر رحلت تک آپؐ اہلِ مکہ کے لیے صادق و امین ہی رہے۔ مشرکین نے تو صرف اپنی سرداری چھن جانے کے خوف سے اسلام کو قبول نہیں کیا۔ آدم علیہ السلام کے بعد جتنے بھی نبی اور رسول مبعوث ہوئے سب کے سب خاندانی لحاظ سے اور ذاتی حیثیت میں معاشرے کے باعزت مقام پر فائز تھے۔
امریکا اور مغربی ممالک میں تو جھوٹے کو صدر اور وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں کرتے ہیں‘ اگر ہو بھی جائے تو پردہ فاش ہونے پر استعفیٰ طلب کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے میں بھی آئین میں 62 اور 63 کے تحت کوئی جھوٹا اور بدچلن منصبِ حکمرانی کا اہل نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس پر عمل نہیں ہوتا۔
مورخین نے جب بھی کسی کی تعریف کی ہے تو اس کے اعلیٰ کردار کی تعریف کی ہے۔ اللہ تو متقیوں کو پسند کرتاہے۔سورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین و آسمان سے زیادہ ہے جو متقیوں کے لیے بنائی گئی ہے۔‘‘ جب جنت اللہ نے نیک اور شریف لوگوں کے لیے بنائی ہے تو اس کے رسوا اور بے توقیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بھارت کی دیو مالائی تہذیب میں شریف کو بھگوان اور بد کردار کو راکھشس کا درجہ حاصل ہے۔ ایک کی پوجا ہوتی ہے دوسرے کو آگ میں جلاتے ہیں۔ بھارت میں بھی آئینی اعتبار سے کرپٹ لوگوں کو حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے مگر برا ہو اس جمہوری تماشا کا جس نے شرافت کی مٹی پلید کر کے جنتا کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ عدالتیں مجرموں کو معاف کردیتی ہے اوربے گناہ کوسزا دیتی ہے۔
معاشرہ جتنا برا ہو جائے جھوٹ، چوری، زنا، ڈاکہ، رشوت اور ہر طرح کی برائی برائی ہی کہلائے گی۔ لیکن ایک بات قانونِ فطرت کی حیثیت رکھتی ہے کہ جب خلق خدا شرافت کو دھتکارتی ہے تو اللہ لوگوں پر برے لوگوں کو مسلط کر دیتا ہے۔
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
چوں کہ دنیا خیر و شر کے کشمکش سے تا قیامت دوچار رہے گی اس لیے نیکی کرنے والے اور شریف لوگوں کو میدانِ عمل میں آنا ہوگا۔
اے روح عصر جاگ کہاں سو گئی ہے تو
آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے
اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگیں ہیں طبیب سے

حصہ