!رب راضی ۔۔۔سب راضی 

283

زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، اور ہر مقصد کے حصول کے لیے عمل بہت ضروری ہے۔ ہمارا دین عمل کے لیے نیت پر زور دیتا ہے۔ ’’عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘ لہٰذا ہر عمل سے پہلے اُس کی نیت بہت ضروری ہے۔ نیت نیک، منزل آسان۔ جس طرح نیک اعمال کا نیک انجام ہوتا ہے اُسی طرح برے اعمال کا برا انجام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اُس کے بندے کا معمولی سا عمل بھی قبول ہے۔ لہٰذا بندے کی بھی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کا اہتمام رکھے اور برے اعمال سے اجتناب کرے۔ ہمیں اپنے اردگرد ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جنہوں نے نیکیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر اپنی زندگی کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردیا۔ مثلاً مرحوم عبدالستار ایدھی نے دُکھی انسانیت کی دن رات خدمت کے لیے خود کو وقف کردیا تھا۔ دنیا میں ایسے بہت سے لوگوں کی مثالیں ملیں گی جن میں خلقِ خدا کی خدمت کا جذبہ کارفرما رہا ہے۔
امریکا میں ایک شخص صرف معذور بچوں کو گود لیتا ہے اور اُن کی پوری ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صحابہ کرامؓ کے نیک اعمال کی مثال ملتی ہے، مثلاً حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی سے کنواں خرید کر بلا تفریق اُسے سب کے لیے عام کردیا۔ یہ سب روشن مثالیں ہم سب کی تربیت کے لیے کافی ہیں۔ جو بویا جائے گا وہی کاٹاجائے گا۔ اچھا کرو گے تو اچھا پائوگے۔ کر بھلا سو ہو بھلا۔ نیکی کا انعام جنت اور بدی کا انجام جہنم ہے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
بے شک انسان خطا کا پتلا ہے، اور شیاطین کے وار سے بچنا اللہ کی مدد کے بغیر ناممکن ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ سے دوستی کرکے اپنا نیکیوں کا اکائونٹ کھول لے جس میں وہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جمع کرے، تاکہ آخرت سنور سکے۔ اِس اکائونٹ میں منافع ہی منافع ہے۔ بندہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے، توبہ کرے اور اللہ سے کاروبار کرلے تاکہ اُس کا ابدی مقام جنت ہو۔ آخرت کے لیے نیک اعمال کا ذخیرہ ہی کام آئے گا۔ کہیں کسی غریب کے بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کردیا، تو کسی کمزور طالب علم کی پڑھائی میں مدد کردی، پانی کا کنواں کھدوا دیا، بھوکوں کو کھانا کھلا دیا تو کہیں پانی کے کولر نصب کردیے، اور تو اور گرمیوں میں پرندوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کردیا۔ چھوٹے چھوٹے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں۔ جس نے اپنے مسلمان بھائی کے راستے سے پتھر بھی ہٹایا تو اُسے اس کا بھی اجر ملے گا۔ اپنی نیکی کی ابتدا اپنے گھر سے کیجیے۔
انگریزی کی کہاوت ہے”Begins at home Charity” اپنے والدین کی مدد اور خدمت کیجیے، کبھی کسی بزرگ کے چھوٹے چھوٹے کام کردیجیے، بچوں سے شفقت سے پیش آیئے، اپنا اخلاق اچھا رکھیے، نادار و کمزور اور غریب افراد کے ساتھ رحم دلی سے پیش آیئے، اُن کی مدد کیجیے، اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کیجیے۔ رب راضی تو سب راضی! اِس کے علاوہ صدقات اور خیرات کرکے نیکیاں کمائیے۔ قیامت کے دن یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں پہاڑ بن جائیں گی، اور ایسی نیکیاں جو کہ محض دکھاوے کی نیت سے کی گئیں وہ قیامت کے دن کرنے والے کے منہ پر ماری جائیں گی، اس لیے کوئی بھی نیکی دنیا داری اور تشہیر کے لیے نہیں بلکہ آخرت میں کامیابی کے لیے کریں، اور اِس طرح کریں کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی خبر نہ ہونے پائے۔ ہماری ہر نیکی کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو۔ نیکی کی توفیق ہو تو اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور نیکی بلا جھجک فوراً کر دیجیے کہ وہ بھی منجانب اللہ ہے، انسان کا کوئی کمال نہیں۔ لہٰذا تکبر سے پرہیز کیجیے کیوں کہ یہ شرک ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں شرک کی معافی نہیں۔ ہم سب کو ہدایت کی بہت ضرورت ہے، اِس لیے بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرنا اشد ضروری ہے۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ہر وقت نیکی کی جستجو میں لگا رہے اور اللہ اور اللہ والوں سے رجوع کرے، اُن سے جڑا رہے تاکہ خوفِ خدا بیدار رہے اور سفرِ آخرت کے لیے بھی کچھ سامان جمع ہوسکے۔ زندگی اللہ کی امانت ہے، لہٰذا اِس کی قدر کیجیے اور زندگی کا حق ادا کیجیے۔ اپنی اصل منزل یعنی آخرت کے لیے ہر گھڑی تیار رہیں کہ کسی بھی وقت بلاوا آ سکتا ہے۔ ’’دنیا کے اے مسافر! منزل تیری قبر ہے۔‘‘
اگر ہم روزمرہ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہر خاص و عام سب برائیوں میں مبتلا نظر آئیں گے جن میں جھوٹ ، دھوکے بازی، لالچ و طمع،چغلی، ٹوہ، حرص و ہوس اور دوسرے اعمال شامل ہیں۔ برے کاموں اور گناہوں سے خود کو بچایئے تاکہ اللہ کی نظروں میں سرخرو ہوسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے خیر اور شر میں فرق کرنے اور پھر گناہوں سے بچنے کا فہم اور عقل عطا فرمائی ہے، لہٰذا ہر ذی شعور انسان اتنی طاقت ضرور رکھتا ہے کہ وہ برے اعمال سے خود کو بچا سکے۔ جھوٹ، غیبت، ٹوہ، چغلی یہ وہ اعمال ہیں جن سے اللہ سخت ناراض ہوتا ہے۔

حصہ