روحانی والدین

163

’’امی جان میں کل سے اسکول نہیں جاؤں گا۔‘‘ علی نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے غصے سے کہا۔
’’السلام علیکم! کیا بات ہے؟‘‘ امی نے بستہ پکڑتے ہوئے سوال کیا۔
’’امی جان! مجھے سر حارث سے نہیں پڑھنا، میں کل سے اسکول نہیں جاؤں گا۔‘‘ علی نے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔
’’مگر کیوں بیٹا! کیا ہوا ہے مجھے بتائیں؟‘‘ امی جان علی کے رویہ سے پریشان ہوگئی تھیں۔
’’امی جان! سر حارث مجھے کبھی بھی میرے دوستوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیتے اور آج جب میں ان کی نقل کر رہا تھا تو انہوں نے مجھے دیکھ لیا اور بہت ڈانٹا۔ ہم تو صرف مذاق کر رہے تھے۔‘‘ علی نے امی کو تفصیل سے بتایا۔
’’علی! یہ تو بہت بری بات ہے وہ آپ کے استاد ہیں اور استاد تو روحانی ماں باپ ہوتے ہیں آپ کو ان کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘
’’امی جان ہم تو صرف۔‘‘ علی نے کچھ بولنا چاہا۔
’’بیٹا! استاد وہ اہم شخصیت ہے جو اپنی تعلیم، صبر و برداشت اور توجہ سے طالب علموں کو دنیا میں رہنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ اساتذہ تمام تاریکیوں کو دور کرکے طالب علم کی زندگی کو روشنی کی کرنوں سے منور کر دیتے ہیں۔‘‘ امی نے بتایا۔
’’وہ کیسے امی جان؟ اساتذہ تو صرف ہمیں پڑھاتے ہیں۔‘‘علی نے ناسمجھی سے کہا۔
’’بیٹااساتذہ ہمیں علم کی نعمت سے نوازتے ہیں اور حق و باطل میں فرق واضح کرتے ہیں۔ ایک استاد بہت سی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے اور وہ ان صلاحیتوں کا استعمال کر کے بچوں کا مستقبل محفوظ بناتا ہے۔‘‘ امی نے پیار سے سمجھایا۔
’’مگر امی جان اچھائی اور برائی میں فرق تو آپ اور بابا جان بھی بتاتے ہیں؟‘‘علی نے سوال کیا۔
’’جی بیٹا! اسی لیے اساتذہ کو والدین کے برابر قرار دیا گیا ہے ہے‘ جس طرح والدین کا احترام فرض ہے اسی طرح روحانی والدین یعنی اساتذہ کا احترام بھی شاگردوں پر فرض ہے۔ ہمارے دین اسلام میں حصول علم کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اور حصول علم کا بہترین ذریعہ اساتذہ ہیں۔ ہمارے اساتذہ ہمیں علم کی روشنی سے سیراب کرتے ہیں اور جہل کی تاریکی کو مٹانے کا فن سکھاتے ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنے استاد کے لیے نماز کے بعد والدین سے پہلے دعا کرتا ہوں۔‘‘ امی نے تفصیل سے بتایا۔
’’امی جان! جو بچے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے وہ دنیا میں کامیاب نہیں ہوتے؟‘‘ علی نے ندامت سے سوال کیا۔ وہ اپنے عمل پر شرمندہ تھا۔
’’بالکل ! جو بچے اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں، ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں اور اساتذہ کی باتوں پر عمل کرتے ہیں وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو بچے اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے وہ دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’امی جان! مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی‘ میں کل ہی سر سے معافی مانگوں گا اور آئندہ سے تمام اساتذہ کا احترام کروں گا۔‘‘ علی نے امی سے وعدہ کیا۔
’’آپ ایسا ہی کرئیے گا۔ چلیں اب جلدی سے کپڑے تبدیل کر لیں کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔‘‘ امی جان نے علی کا سر سہلاتے ہوئے کہا۔
’’بہت شکریہ پیاری امی جان! آپ نے مجھے بہت اہم معلومات دیں۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اساتذہ کی اہمیت کے بارے میں بتاؤں گا۔‘‘ علی نے امی جان کا ماتھا چوما اور کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔

حصہ