ریزگاری

174

’’اَئے زمر! تمہارے پاس پانچ سو کا کھلا ہوگا؟‘‘ زمر کی جیٹھانی نے زمر کے سامنے پانچ سو کا کڑکڑاتا نوٹ لہرایا۔
’’نہیں سفینہ آپی! میرے پاس نہیں ہے۔ آپ پانچ سو کی بات کررہی ہیں، میرے پاس سو بلکہ پچاس کا کھلا بھی نہیں ہے۔ یہ نامراد انیس اور شمعون ایسے ہیں کہ چوبیس گھنٹے ان کو ماں سے دس بیس روپے کی ضرورت رہتی ہے… اماں پنسل لینا ہے، اماں ٹافی لینی ہے۔‘‘
زمر کی جیٹھانی سفینہ بغیر کچھ بولے واپس چلی گئیں۔ باہر کوریئر والا کوئی آرڈر لے کے آیا تھا، اتفاق سے اس کے پاس کھلا تھا نہ سفینہ کے پاس… ان کے پاس ہزار اور پانچ سو کے نوٹ تھے، جب کہ کوریئر والے کے پاس صرف پچاس اور ہزار کا نوٹ تھا جب کہ ڈیل ساڑھے پانچ سو کی تھی۔
’’باجی! میں سامنے ٹھیلے والے سے پوچھتا ہوں اگر مل گئے…‘‘ اس نے سفینہ کو تسلی دی۔
’’ٹھیرو ایک منٹ… میں گھر میں کسی سے پتا کرتی ہوں۔‘‘ انہوں نے اسے منع کیا اور گھر میں زمر والے پورشن میں داخل ہوئیں۔
زمر نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے بھی صاف انکار کردیا، حالانکہ اکثر و بیشتر وہ اپنی سمجھ، عقل اور فہم و تدبر کے قصے سناتے ہوئے بتایا کرتی تھیں کہ وہ کچھ نہ کچھ رقم ہر ماہ ضرور پس انداز کرتی ہے خواہ کتنی ہی مشکل سے کیوں نہ کرے۔ زیادہ نہیں تو اخبار، پرانی کتابوں، رسالوں کی ردی، سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے وغیرہ بیچ کے جو رقم ملے وہ اپنی بچت میں شامل کرتی ہے۔ اس کی بچت کے بھی وکھرے انداز تھے۔ سلامی کے لفافے اکٹھے خریدتی اور دو سو، پانچ سو اور ہزار روپے الگ الگ مخصوص لفافوں میں ڈالتی اور اپنے شادی بیاہ والے سنہری بیگ میں رکھ دیتی… اس سے فائدہ یہ ہوتا کہ اچانک شادی بیاہ پر جانا پڑ جاتا تو سلامی کی حد تک وہ بے فکر ہوتی۔ دوسرا وہ گھر میں سب کو پابند کرچکی تھی کہ سکّے خواہ ایک دو روپے والے ہوں یا پانچ دس کے، وہ اسے دیے جائیں۔کہنے کو دو‘دو روپے کے سکے مگر مہینے میں چار چھ سو روپے اس مد میں بھی جمع رہتے جو مانگنے والوں کے لیے مخصوص تھے۔ کوئی بھی سائل دروازے پر آتا، گھر کے ہر فرد کو معلوم تھا کہ اسے خالی ہاتھ نہیں بھیجنا، بلکہ فلاں جگہ پر رکھی اس چائے دانی میں سکے پڑے ہیں جس کا ہینڈل ٹوٹ چکا ہے۔
تیسری بچت اُس کی خفیہ تھی۔ کسی بھی خفیہ طریقے سے کاروبار مشترکہ تھا، مگر سسر ابھی تک سب کو مقرر کیا ہوا خرچا دیتے۔ کھانا پینا، مہمان داری سب مشترکہ، مگر جیب خرچ ایک سال کے بچے سے لے کر اسّی سالہ بوا کرامت کا بھی مقرر تھا جو دور پار کی رشتے دار تھیں، اور کوئی والی وارث نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں رہتی تھیں۔
خیرسفینہ چلی تو گئیں مگر دیورانی کی طرف سے دل میں میل آگیا۔ انہیں کامل یقین تھا کہ سدا کی سمجھ دار جو ایک روپے کے سکے سے لے کر پانچ ہزار تک کا نوٹ ضرورت کے وقت کے لیے محفوظ رکھتی تھی، اکثر و بیشتر جس کسی کو رقم کی ضرورت ہوتی زمر کا بیگ بینک ہی سمجھا جاتا۔ مگر اب پتا نہیں کیا ہوا؟
سفینہ کے کمرے سے نکلتے ہی زمر کے دل میں لمحے بھر کو رتی ماشے جتنا خیال آیا کہ پانچ سو روپے کا کھلا موجود تو ہے، دے دیتی ہوں، بلاوجہ ہی انکار کیا… پھر خود ہی سر جھٹک دیا۔ ایسے تو گھر کے گیارہ کے گیارہ افراد کو ضرورت پڑتی ہی رہتی ہے، بعض اوقات اس کو بھی کوئی ایمرجنسی پیش آسکتی ہے۔ دل کو مطمئن کرکے جونہی وہ کمرے سے نکلی اسے اپنے شہزادے سات سالہ انیس کی آواز سنائی دی۔
’’ہائیں، یہ آج اسکول سے جلدی آگیا… خیر تو ہے؟‘‘
اس نے آواز دی’’انیس! اندر آؤ، آج کیا اسکول سے جلدی چھٹی ہوگئی؟‘‘
’’ابھی آیا، بڑی اماں کے لیے چینج لادوں پانچ سو کا…‘‘ کہتا ہوا وہ دروازے سے غائب ہوگیا… اور صرف بیس، بائیس سیکنڈ میں شمعون، سالم اور عائشہ کی چیخیں سنائی دیں۔
’’انیس…انیس! گاڑی کے نیچے آگیا۔‘‘ کوریئر والا تیزی سے بھاگا۔ انیس کو اس نے دونوں بازوؤں پر اٹھایا۔کام کا وقت تھا، کوئی مرد گھر پر نہ تھا۔ انیس کا پاؤں بری طرح کچلا گیا تھا… سفینہ اور صبا دونوں دروازے میں تھیں، پلک جھپکنے میں جن کی طرح کوریئر والے نے موٹر بائیک اسٹارٹ کی، سالم نے انیس کو پکڑا ہوا تھا، سڑک پر ہی اسپتال تھا۔
سفینہ نے چیخ کر کہا ’’بھائی تم اسے لے جائو…ہم پہنچتے ہیں۔‘‘
سفینہ اور زمر جلدی سے چادر اوڑھ کے بھاگیں۔ اتفاق سے ایک رکشا گلی سے گزر رہا تھا۔ رکشے سے اترتے ہی بغیر کرایہ پوچھے سو روپے کا نوٹ دے کے زمر تیزی سے اسپتال میں داخل ہوگئی اورڈاکٹر کے کمرے میں پہنچ گئی۔
’’آنٹی! کاؤنٹر پر پہلے فیس جمع کروا کے ٹوکن لیتے ہیں… آپ ابھی اندر نہ جائیں۔‘‘کورئیر والا منمنایا۔
’’کتنی فیس ہے؟‘‘ زمر نے پوچھا۔
’’چار سو روپے‘‘۔ لڑکے نے سامنے فیس والے اطلاعی بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ لو چار سو روپے۔‘‘ایک سیکنڈ میں چار سو روپے اس کے حوالے کیے۔
زمر نے بے توجہی سے سفینہ کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھیں بول رہی تھیں… شکوہ کناں تھیں… لب خاموش تھے… چہرہ فریادی تھا۔
پہلے تو زمر سمجھ نہ پائی۔ پھر دماغ پر زور دیا تو گنگ ہوئی۔ سو روپے رکشے والے کو، چار سو ٹوکن کے… کُل پانچ سو روپے بنے، اورسفینہ نے پانچ سو کا ہی کھلا مانگا تھا۔
دونوں گونگی تھیں۔ ایک دل میں سوچ رہی تھی کہ جھوٹ تو جھوٹ ہے خواہ کتنے ہی جواز گھڑ لیے جائیں۔ اگر یہ پانچ سو کا کھلا دے دیتی تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔ پھر اس نے سر کو جھٹکا… ’’نہیں نہیں یہ تو اس کی تقدیر میں لکھا تھا۔‘‘
جبکہ زمر سوچ رہی تھی کہ اس نے سفینہ کو پانچ سو کا کھلا نہیں دیا… انکار دراصل جھوٹ لکھا گیا، جس کی اتنی بھیانک سزا ملی۔ دوسرا یہ کہ اس نے ایمرجنسی کے لیے رکھے تھے تو ایمرجنسی میں ہی کام آئے، اگر وہ ایسی نہ نیت کرتی تو…
جھوٹ کی سزا تو مل گئی تھی، گو ڈاکٹر نے تسلی دلائی تھی کہ ہڈی بچ گئی ہے، گوشت پھٹا ہے۔ اور دوائیاں لکھ دیں۔
کورئیر والے کو پیسے دے کر شکریہ ادا کرکے جب رکشا میں واپس جا رہی تھیں تو دونوں کی یہی سوچ تھی کہ بارہ سو کی دوائیاں، چار سو روپے فیس کے علاوہ ٹینشن، رکشہ کا کرایہ، پڑھائی میں چھٹیوں سے نقصان کے علاوہ بھی پتا نہیں کیا کیاجھیلنا پڑے گا اور پتا نہیں جھوٹے پر لعنت کیسے ہوتی ہے ؟

حصہ