یتیموں کا خیال

152

تم نے حاتم طائی کا نام تو سنا ہوگا۔ سخاوت میں ان کا نام بہت مشہور ہے۔ انہیں کے قبیلے میں ایک بہت بڑے اللہ والے بزرگ گزرے ہیں ان کا نام تھا دائود طائی۔
بہت دنوں سے دائود طائی کو گوشت نصیب نہیں ہوا تھا۔ ایک دن گوشت کھانے کو ان کا جی چاہا۔ آپ نے گوشت منگایا۔ ماما نے بڑے مزے کا چٹ پٹا سالن پکایا۔ جب کھانا سامنے آیا تو دائود طائی نے محلے کے کچھ یتیم بچوں کا نام لے کر پوچھا۔
’’ان یتیموں کا کیا حال ہے؟‘‘
ماما بولی۔ ’’ابھی تک تو یہ بے چارے غریبی اور مفلسی کے دکھ اٹھا رہے ہیں۔ دیکھئے کب ان کے دن پھرتے ہیں۔‘‘
’’تب تو انہوں نے گوشت نصیب نہ ہوتا ہو گا۔‘‘ دائود نے کہا۔
’’اچھا لے جائو یہ گوشت ان غریب بچوں کو کھلا دو۔‘‘
’’میاں آپ نے بھی تو بہت دنوں سے گوشت نہیں کھایا ہے۔‘‘ ماما نے عرض کیا، ’’آج آپ ہی کھا لیں، کسی اور دن ان بچوں کو کھلا دیا جائے گا۔‘‘
نہیں! میں نہیں کھائوں‘۔ بزرگ نے جواب دیا ’’تم لے جاکر انہیں کو کھلا دو۔ ان کا کھایا ہوا اللہ کے پاس پہنچے گا۔ اور میرا کھایا ہوا تو مٹی ہو جائے گا۔‘‘
یہ کہہ کر آپ نے پکا پکایا گوشت یتیموں کو بھجوا دیا۔ اور جی چاہنے کے باوجود، خود نہ کھایا۔
1… حاتم طائی کون تھے؟
2… دائود طائی کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟
3… کیا تمہارے محلے میں کچھ یتیم ہیں؟ تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہے؟

حصہ