بزم یاران سخن کراچی کا مشاعرہ

204

بزمِ یارانِ سخن ایک ادبی ادارہ ہے جو تواتر کے ساتھ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہے۔ گزشتہ ہفتے اس تنظیم کے تحت پی ایم اے ہائوس صدر کراچی میں سعید الظفر صدیقی کی زیر صدارت بہاریہ مشاعرہ ہوا۔ مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کوئی مہمان خصوصی تھا اور نہ ہی مہمانان اعزازی۔ سرور چوہان نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہماری تنظیم پابندیٔ وقت کے ساتھ اپنا پروگرام شروع کرتی ہے اور ہم وقتِ مقررہ کے بعد آنے والوں کو شاملِ مشاعرہ نہیں کرتے۔ رانا خالد محمود نے کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے ہر کوئی شعر نہیں کہہ سکتا یہ طبقہ معاشرے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ معاشرے کی فلاح و بہبو کے لیے سوچتا ہے۔ راقم الحروف نثار احمد نثار نے کہا کہ اس زمانے میں مزاحمتی ادب دم توڑ رہا ہے۔ مزاحمتی ادب ولی دکنی کے زمانے میں لکھا جارہا ہے۔ میر تقی میر کے کلام میں ایسے اشعار موجود ہیں جن میں اُس وقت کے مروجہ نظامِ معاشرت پر کھل کر اظہار کیا گیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ زندگی اور شاعری کا چولی دامن کا ساتھ ہے اب شاعری سے گل و بلبل کے افسانے ختم ہوگئے ہیں۔ صاحب صدر سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ غزل ایک پسندیدہ صنفِ سخن ہے جو تمام تر مخالفتوں کے باوجود ترقی کر رہی ہے لیکن نظم کا شاعر بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔ آج کل ’’نظم‘‘ کے مشاعرے نہیں ہو رہے اور تنقیدی نشستوں کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے۔ آج کے مشاعرے میں نوجوان شعرا کے علاوہ سینئرز نے بھی اچھا کلام پیش کیا۔ مشاعرے میں سعیدالظفر صدیقی‘ رفیع الدین راز‘ ظہورالاسلام جاوید‘ کوثر نقوی‘ محسن اسرار‘ سحر تاب رومانی‘ یاسر سعید صدیقی‘ ڈاکٹر نثار‘ رحمان نشاط‘ نسیم شیخ‘ حجاب عباسی‘ نظر فاطمی‘ رانا خالد محمود‘ شاہد اقبال‘ احمد سعید خان‘ حامد علی سید‘ تنویر سخن‘ فخراللہ شاد‘ صفدر علی انشا‘ شائستہ سحر‘ ضیا زیدی‘ شائق شہاب‘ ناہید عزمی‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ عشرت حبیب‘ کشور عروج‘ شاہدہ عروج‘ زاہد حسین سید اور سرور چوہان نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ